مانیٹرنگ
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کون تھے جنھیں ملک کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے متوقع جانشینوں میں بھی شمار کیا جاتا رہا ہے۔
ابراہیم رئیسی 1960 میں ایران کے دوسرے بڑے شہر مشہد میں پیدا ہوئے جہاں شیعہ مسلمانوں کے مقدس ترین مزارات میں سے ایک واقع ہے۔ ان کے والد ایک عالم تھے اور ان کی وفات اس وقت ہوئی جب ابراہیم فقط پانچ برس کے تھے۔
شیعہ روایت کے مطابق اُن کا سیاہ عمامہ اُن کے پیغمبر اسلام کی آل ہونے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اُنھوں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے 15 سال کی عمر میں مقدس شہر قم میں ایک مدرسے میں حصول تعلیم کی غرض سے جانا شروع کیا۔ایک طالب علم کے طور پر انھوں نے مغربی حمایت یافتہ شاہ ایران کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا۔ شاہ ایران سنہ 1979 میں آیت اللہ روح اللہ خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب کے بعد معزول ہو گئے تھے۔
انقلاب کے بعد انھوں نے عدلیہ میں شمولیت اختیار کی اور کئی شہروں میں پراسیکیوٹر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں، اس دوران وہ آیت اللہ خامنہ ای کی زیر تربیت بھی تھے جو سنہ 1981 میں ایران کے صدر بنے۔
رئیسی جب تہران میں ڈپٹی پراسیکیوٹر بنے اس وقت وہ صرف 25 سال کے تھے۔
اس عہدے پر رہتے ہوئے انھوں نے ان چار ججوں میں سے ایک کی حیثیت سے خدمات انجام دیں جو 1988 میں قائم اُن خفیہ ٹربیونلز کا حصہ تھے جو کہ ’ڈیتھ کمیٹی‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔
ٹربیونل نے مبینہ طور پر ایسے ہزاروں قیدیوں پر ان کی سیاسی سرگرمیوں کے باعث دوبارہ مقدمات قائم کیے جو پہلے ہی مقید تھے اور سزائیں بھگت رہے تھے۔ ان قیدیوں میں زیادہ تر بائیں بازو کے اپوزیشن گروپ مجاہدین خلق (MEK) کے ممبر تھے، جنھیں پیپلز مجاہدین آرگنائزیشن آف ایران (PMOI) بھی کہا جاتا ہے۔
جن لوگوں کو ٹریبونل نے سزائے موت دی ان کی صحیح تعداد معلوم نہیں لیکن انسانی حقوق کے گروپوں کا دعویٰ ہے کہ تقریباً پانچ ہزار مردوں اور عورتوں کو پھانسیاں دی گئیں اور ان لوگوں کو اجتماعی قبروں میں دفن کیا گیا جو انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے رہنما اس بات سے انکار نہیں کرتے کہ موت کی سزائیں دی گئیں لیکن وہ تفصیلات اور انفرادی مقدمات کی قانونی حیثیت پر بات نہیں کرتے۔
رئیسی بارہا بڑے پیمانے پر سزائے موت دینے کے معاملے میں اپنے کردار سے انکار کر چکے ہیں لیکن انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ سزائیں سابق رہبر اعلیٰ آیت اللہ خمینی کے فتوے کی وجہ سے جائز تھیں۔چند برس قبل ابراہیم رئیسی، عدلیہ کے کئی دیگر ارکان اور اُس وقت کے نائب سپریم لیڈر آیت اللہ حسین علی منتظری کے درمیان ہونے والی گفتگو کی ایک آڈیو ٹیپ لیک ہوئی تھی۔اس میں منتظری کو سزائے موت کو ’اسلامی جمہوریہ کی تاریخ کا سب سے بڑا جرم‘ قرار دیتے ہوئے سُنا جا سکتا ہے۔
ایک سال بعد منتظری نے خمینی کے نامزد کردہ جانشین کی حیثیت سے اپنا مقام کھو دیا اور خمینی کی وفات پر آیت اللہ خامنہ ای سپریم لیڈر بن گئے۔
ابراہیم رئیسی 2014 میں ایران کے پراسیکیوٹر جنرل مقرر ہونے سے پہلے تہران کے پراسیکیوٹر، پھر سٹیٹ انسپکٹوریٹ آرگنائزیشن کے سربراہ اور عدلیہ کے پہلے نائب سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔
دو سال بعد آیت اللہ خامنہ ای نے اُنھیں ایران کی سب سے اہم اور امیر ترین مذہبی تنظیموں میں سے ایک ’آستان قدس رضوی‘ کا نگہبان نامزد کیا تھا۔
یہ تنظیم مشہد میں آٹھویں شیعہ امام امام رضا کے مزار کے ساتھ ساتھ اس سے وابستہ تمام مختلف فلاحی اداروں اور تنظیموں کا انتظام سنبھالتی ہے۔ امریکہ کے مطابق اس تنظیم کا تعمیرات، زراعت، توانائی، ٹیلی کمیونیکیشن اور مالیاتی خدمات میں بڑا حصہ ہے۔
2017 میں رئیسی نے صدارت کا امیدوار بن کر مبصرین کو حیران کر دیا تھا۔
2017 کے انتخابات میں حسن روحانی، جو ابراہیم کے ایک ساتھی عالم تھے، انھوں نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں 57 فیصد ووٹ حاصل کر کے بھاری اکثریت سے دوسری مرتبہ کامیابی حاصل کرلی تھی۔
عدلیہ کے نائب سربراہ کے طور پر رئیسی نے خود کو ایک ’کرپشن مخالف جنگجو‘ کے طور پر پیش کیا۔ مگر اس وقت کے صدر نے ان پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ رئیسی سنہ 2017کے الیکشن میں 38 فیصد ووٹوں کیساتھ دوسرے نمبر پر آئے تھے۔
اس نقصان نے رئیسی کی شبیہہ کو داغدار نہیں کیا اور سنہ 2019 میں آیت اللہ خامنہ ای نے اُنھیں عدلیہ کے سربراہ کے طاقتور عہدے پر نامزد کیا۔
اگلے ہی ہفتے وہ ماہرین کی اسمبلی کے ڈپٹی چیئرمین کے طور پر بھی منتخب ہوئے جو کہ 88 رکنی علما کا ادارہ ہے جو اگلے سپریم لیڈر کے انتخاب کے لیے ذمہ دار ہے۔
بحیثیت عدلیہ کے سربراہ رئیسی نے اصلاحات نافذ کیں جس کی وجہ سے ملک میں منشیات سے متعلق جرائم کے لیے سزائے موت پانے اور پھانسی کی سزا پانے والوں کی تعداد میں کمی آئی تاہم ایران اب بھی چین کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ لوگوں کو سزائے موت دینے والا ملک ہے۔
عدلیہ نے سکیورٹی سروسز کے ساتھ مل کر دوہری شہریت رکھنے والے ایرانیوں یا غیر ملکی مستقل رہائشیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھا۔
اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رئیسی پر سنہ 2019 میں ان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی بنیاد پر پابندیاں عائد کیں اور ان پر الزام عائد کیا کہ وہ ان افراد کی پھانسیوں پر انتظامی نگرانی کرتے ہیں جو مبینہ جرائم کے وقت کم عمر تھے اور یہ کہ وہ 2009 کے متنازع صدارتی انتخابات کے بعد حزب مخالف کی گرین موومنٹ کی جانب سے احتجاج کے خلاف پر تشدد کریک ڈاؤن میں ملوث تھے۔
رئیسی کی نجی زندگی کے بارے میں بہت کم باتیں معلوم ہیں سوائے اس کے کہ ان کی اہلیہ جمیلہ تہران کی شاہد بہشتی یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں اور ان کی دو بالغ بیٹیاں ہیں۔ ان کے سسر آیت اللہ احمد علم الہدیٰ ہیں جو مشہد میں نمازِ جمعہ کی امامت کرتے ہیں۔
2022 میں ایران کی حکومت کو بڑے پیمانے پر شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ’زن، زندگی اور آزادی‘ تحریک مہسا امینی نامی خاتون کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہوئی جن پر درست طریقے سے حجاب نہ پہننے کا الزام تھا۔
اقوام متحدہ کے ایک فیکٹ فائنڈنگ مشن کے مطابق مہسا امینی کی ہلاکت جسمانی تشدد کی وجہ سے ہوئی تھی۔
ابراہیم رئیسی نے بطور صدر ملک میں احتجاج سے فیصلہ کن طریقے سے نمٹنے کا اعلان کیا تھا اور حکام نے طاقت کا بھرپور استعمال کیا۔ ایران کی جانب سے احتجاجی مظاہروں میں ہلاکتوں کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے ہیں تاہم اقوام متحدہ کے مطابق 551مظاہرین سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاک ہوئے جن کی اکثریت گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئی۔ ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز کے 75 اہلکار ہلاک ہوئے۔
ایران میں 20 ہزار مظاہرین کو حراست میں لیا گیا اور نو نوجوانوں کو موت کی سزا دی گئی جس کے بارے میں اقوام متحدہ کے مشن کا کہنا ہے کہ یہ سزائیں ایسے مقدمات کی بنیاد پر دی گئیں جن میں تشدد سے اعترافی بیانات حاصل کیے گئے تھے۔
اگرچہ مظاہروں کا سلسلہ تھم گیا لیکن ایران میں حکومت اور حجاب قوانین کے خلاف عوامی خیالات پائے جاتے ہیں۔ بہت سی خواتین اور لڑکیوں عوامی مقامات پر سر ڈھانپے بغیر باہر نکلی ہیں اور ان کے اس عمل کو ایرانی پارلیمان اور صدر ابراہیم رئیسی نے نئے قوانین اور کارروائیوں سے روکنے کی کوشش کی تھی۔
مارچ 2023 میں ابراہیم رئیسی کی حکومت نے پرانے حریف اور خطے کی سنی طاقت سعودی عرب سے حیران کن طور پر اختلافات کو حل کرنے پر آمادگی ظاہر کی جس سے سات سال قبل دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات ختم کر دیے تھے۔
تاہم اسی سال اکتوبر میں خطے میں تناؤ ایک بار پھر اس وقت بڑھ گیا جب حماس نے اسرائیل کے خلاف ایک بڑی کارروائی کی جس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ میں عسکری مہم کا آغاز کر دیا۔اسی وقت مشرق وسطی میں ایرانی حمایت یافتہ مسلح گروہوں بشمول لبنانی حزب اللہ، یمنی حوثی باغی اور شام اور عراق میں موجود مختلف گروپوں نے اسرائیل کے خلاف حملوں میں یہ کہتے ہوئے اضافہ کر دیا تھا کہ وہ فلسطینی عوام سے اظہار یکجہتی کر رہے ہیں۔
اپریل میں یہ خدشہ پیدا ہوا کہ تنازع پورے خطے میں پھیل سکتا ہے جب ایران نے پہلی بار براہ راست اسرائیل پر حملہ کیا۔ اس سے قبل ایک مبینہ اسرائیلی حملے میں شام میں ایرانی سفارت خانے کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں ایرانی قدس فورس کے کمانڈر ہلاک ہو گئے تھے۔
ابراہیم رئیسی نے اسرائیل کے خلاف 300 سے زیادہ ڈرون اور میزائل داغنے کے فیصلے کی حمایت کی تھی تاہم اسرائیل نے مغربی اتحادیوں اور عرب ممالک کی مدد سے زیادہ تر کو مار گرایا تھا۔ اسرائیل نے ایرانی حملے کے جواب میں ایک ایرانی فضائی اڈے پر میزائل حملہ کیا تو ابراہیم رئیسی نے کہا کہ ایرانی حملے نے ’ہماری قوم کے آہنی عزم کو ثابت کر دکھایا ہے۔‘
اتوار کے دن ہیلی کاپٹر حادثے سے چند گھنٹے قبل ابراہیم رئیسی نے ایک بار پھر فلسطینیوں کے لیے ایرانی حمایت کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ ’فلسطین مسلم دنیا کا سب سے پہلا مسئلہ ہے۔‘
(بشکریہ بی بی سی اُردو)
0