محمد ہاشم القاسمی
آج بھی ہمارے معاشرے میں جہاں کسی رشتہ دار یا معزز شخصیات کی موت کی خبر موصول ہوتی ہے تو اول وہلہ میں جنازہ میں شرکت کا خیال پیدا ہوتا ہے، جنازہ میں شرکت کرنا اور میت کے لئے تعزیت کرنا دینی ،ملی، سماجی اور اخلاقی فریضہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرہ کے چھوٹے سے چھوٹے گاؤں کے جنازے میں بھی شرکت کرنے والے کی تعداد بہت بڑی ہو جاتی ہے، اس میں اکثر و بیشتر قریب یا دور کے رشتہ دار اور متعلقین ہوتے ہیں۔ اسلام میں ایک مؤمن کے دوسرے مؤمن پر چند حقوق بیان کیے گئے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ جب وہ فوت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کی جائے، جب کہ تعزیت میت کے اہلِ خانہ کے لیے تسلی اور صبر کی تلقین کا نام ہے کیونکہ وہ مصیبت زدہ ہوتے ہیں اور احادیث میں مصیبت زدہ کی تعزیت کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ تعزیت جنازہ سے پہلے بھی کی جا سکتی ہے اور بعد میں بھی، لیکن افضل یہ ہے کہ بعد میں کی جائے، البتہ اگر جنازہ کے دوران ایک مرتبہ میت کے رشتہ داروں سے تعزیت کر دی تو دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (ترمذی) موت کی خبر سن کر “اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ” پڑھنا چاہئے ۔ چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ جو آدمی کسی مصیبت کے موقع پر” اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ” پڑھتا ہے تو اس کے لیے تین اجر ہوتے ہیں، اول یہ کہ اس پر اللہ کی طرف سے رحمت اور سلامتی اترتی ہے۔ دوم یہ کہ اس کو حق کی تلاش و جستجو کا اجر ملتا ہے۔ سوم یہ کہ اس کے نقصان کی تلافی کی جاتی ہے اور اس کو فوت ہونے والی چیز کا اس سے اچھا بدلہ دیا جاتا ہے۔ (طبرانی) جنازہ کی نماز کے لئے صف بندی کے بعد عام طور پر امام صاحب ایک مختصر خطاب فرماتے ہیں، جس میں میت کے حقوق اور نماز جنازہ کی نیت اور طریقہ نماز جنازہ شامل ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ” پہلی تکبیر کے بعد ثنا پڑھیں ، دوسری تکبیر کے بعد درود شریف، تیسری تکبیر کے بعد دعا برائے میت اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیں”۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جنازہ میں شرکت کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی ہے مگر ان میں اکثر و بیشتر لوگ نماز جنازہ کے ارکان سے ناواقف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ بظاہر جنازہ کی نماز میں شامل تو ہوتے ہیں مگر ان کی نماز جنازہ ادا نہیں ہوتے، اس لئے امام صاحب اگر اس طرح اعلان کریں تو سامعین کو نماز جنازہ کے ارکان کا علم ہو جائے گا اور سب کی نماز جنازہ بھی ادا ہو جائے گی بہتر ہوگا کہ اس طرح اعلان کیا جائے ” نماز جنازہ کے ارکان دو ہیں (1) قیام، یعنی کھڑا ہونا الحمدللہ آپ سب ایک رکن مکمل طور پر پورا کر رہے ہیں (2) چار مرتبہ تکبیر کہنا، یعنی چار مرتبہ” اللہ اکبر “کہنا اور یاد رکھیں کہ یہ “اللہ اکبر” جسے ہم تکبیر کہہ رہے ہیں جنازہ میں شرکت کرنے والے تمام لوگوں کو کہنا ضروری ہے، چونکہ یہ نماز جنازہ کا رکن ہے، صرف امام صاحب کے اللہ اکبر کہنے سے باقی لوگوں کی طرف سے یہ رکن ادا نہیں ہوگا اس لئے امام صاحب کے تکبیر کے بعد ہر کوئی آہستہ سے تکبیر یعنی اللہ اکبر ضرور کہے ورنہ اتنے دور دراز سے سفر کر کے جنازے میں شرکت کرنا بے سود ثابت ہو گا، پھر کہا جائے کہ نماز جنازہ کا سنت طریقہ یہ ہے “پہلی تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ کر ثنا پڑھیں، دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھیں، تیسری تکبیر کے بعد دعا برائے میت پڑھیں اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیں”۔
واضح رہے کہ میت کے تئیں لوگوں پر چار چیزیں واجب ہوتی ہیں، اور وہ یہ ہیں (1) میت کو غسل دینا (2) کفنانا (3)جنازہ پڑھنا اور (4)دفن کرنا۔ نماز جنازہ پڑھنا فرض کفایہ ہے اور اس کے صحیح ہونے کے وہی شرائط ہیں جو باقی نمازوں کے ہیں، جیسے كہ بدن کا پاک ہونا ،کپڑے کا پاک ہونا، جگہ کا پاک ہونا، ستر عورت، یعنی بدن کا جتنا حصہ ڈھکنا ضروری ہے اتنا کپڑے پہننا، قبلہ رخ ہونا اور قدرت کے وقت قیام کرنا، یعنی کھڑا ہونا۔ جنازہ کے دو ارکان کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں (1) قیام یعنی کھڑا ہونا (2) چار تکبیرات کہنا، جنازہ پڑھنے کا سنت طریقہ یہ ہے۔ پہلی تکبر کہتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کانوں تک اٹھا کر باندھ لیں پھر ثنا پڑھیں ، وہی ثنا جو نماز میں پڑھتے ہیں وہ یہ ہے، سُبْحَانَکَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِکَ، وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ، وَجَلَّ ثَنَاءُ کَ وَلَا اِلٰهَ غَيْرُکَ۔ دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھیں ، وہی درود شریف جو نماز میں پڑھتے ہیں وہ یہ ہے، اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّيْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاهِيمَ وَعَلَی آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّکَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔ تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا پڑھیں وہ یہ ہے۔ اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا. اَللّٰهُمَّ مَنْ اَحْيَيْتَه مِنَّا فَاَحْيِه عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّيْتَه مِنَّا فَتَوَفَّه عَلَی الإِيْمَانِ. (فتاویٰ عالمگيری) اگر نابالغ لڑکے کا جنازہ ہو تو یہ دعا پڑھے:اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ لَنَا فَرَطاً وَّاجْعَلْهُ لَنَا اَجْرًا وَّذُخْرًا وَاجْعَلْهُ لَنَا شَافِعًا وَّ مُشَفَّعًا. اور اگر نابالغ لڑکی کا جنازہ ہو تو یہ دعا پڑھے : اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهَا لَنَا فَرَطاً وَّ اجْعَلْهَا لَنَا اَجْرًا وَّ ذُخْرًا وَّ اجْعَلْهَا لَنَا شَافِعَةً وَّ مُشَفَّعَةً (فتاویٰ عالمگيری) اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیں، اس کے الفاظ یہ ہیں اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ ﷲ، اَلسَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ ﷲ۔ نمازِ جنازہ میں تکبیر اولیٰ کے وقت یقینا دونوں ہاتھ اٹھائے جائیں گے، البتہ دوسری، تیسری اور چوتھی تکبیر کے وقت رفع یدین کرنے یا نہ کرنے میں علماء کا اختلاف ہے، اگر کوئی دیگر تکبیرات میں بھی رفع یدین کرتے ہیں تو ان شاء اللہ دونوں شکلوں میں نماز صحیح ادا ہو جائے گی۔ البتہ علماء احناف کے نزدیک رفع یدین نہ کرنا بہتر ہے۔
مسئلہ : اگر نماز جنازہ میں ایک یا دو یا تین تکبیریں چھوٹ گئی ہیں تو صف میں کھڑے ہوکر امام کی اگلی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہہ کر جماعت میں شریک ہوجائیں۔ امام کے سلام پھیرنے کے بعد صرف چھوٹی ہوئی تکبیریں یعنی اللہ اکبر کہہ کر جلدی سے سلام پھیر دیں کیونکہ چار تکبیریں کہنے پر نماز جنازہ ادا ہوجائے گی، ان شاء اللہ۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند) مسئلہ : جنازہ گاہ میں دیکھا جاتا ہے کہ کچھ لوگ جوتے یا چپل پہن کر نماز جنازہ ادا کرتے ہیں ، تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
جواب : اگر جوتے یا چپل پر نجاست نہیں لگی ہوئی ہے تو اس میں نمازِ جنازہ پڑھنا درست ہے، کیوں کہ نمازِ جنازہ عام طور پر مسجد سے باہر کھلے میدان میں ہوتی ہے، اور نمازِ جنازہ میں سجدہ بھی نہیں جس کی ادائیگی میں چپل یا جوتے مشکلات پیدا کرسکیں۔ اگر جوتے یا چپل پر نجاست لگی ہوئی ہے تو نمازِ جنازہ نہیں ہوگا اور اگر نجاست صرف نچلے حصے پر لگی ہو اور نمازی جوتے اتار کر اس کے اوپر پاؤں رکھ دے تو نماز جنازہ ادا ہوجائے گا۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ: 1۔اگر جوتے /چپل پاک ہیں تو ان کو اتارنا ضروری نہیں، اگر چاہیں تو انہی جوتوں/ چپلوں میں نماز جنازہ پڑھ سکتے ہیں۔2۔ اگر جوتوں / چپلوں کا اوپری حصہ ناپاک ہے تو انہیں اتارنا ضروری ہے۔ 3۔ اگر صرف نچلا حصہ ناپاک ہے تو انہیں اتارنا ضروری ہے، اتار کر ان جوتوں/ چپلوں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ (دارالافتاء جامعتہ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن پاکستان) نماز جنازہ فرضِ کفایہ ہے، یعنی اگر چند لوگ بھی نماز جنازہ پڑھ لیں تو فرض ادا ہوجائے گا۔ لیکن جس قدر آدمی زیادہ ہوں اسی قدر میت کے حق میں اچھا ہے کیونکہ نہ معلوم کس کی دعا لگ جائے اور میت کی مغفرت ہوجائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا” اگر کسی جنازہ میں 100مسلمان شریک ہوکر اس میت کے لئے شفاعت کریں یعنی نمازِ جنازہ پڑھیں تو ان کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ (صحیح مسلم ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر کسی مسلمان کے انتقال پر ایسے 40 آدمی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے ہیں، اس کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی دعا کو میت کے حق میں قبول فرماتا ہے۔ (صحیح مسلم) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شحض کسی مسلمان کے جنازے میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے ساتھ ساتھ چلا یہاں تک کہ اس کی نمازِ جنازہ پڑھی اور اس کو دفن کرنے میں بھی شریک رہا تو وہ دو قیراط اجر (ثواب) لے کر لوٹتا ہے اور ہر قیراط اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔ اور جو شخص نماز جنازہ میں شریک ہوا مگر تدفین سے پہلے ہی واپس آگیا تو وہ ایک قیراط اجر (ثواب) کے ساتھ لوٹتا ہے۔ (صحیح بخاری و مسلم)
نماز جنازہ کی اتنی فضیلت ہونے کے باوجود بسا اوقات بے انتہا افسوس ہوتا ہے کہ باپ کا جنازہ، نماز کے لئے رکھا ہوا ہے اور بیٹا نماز جنازہ میں صرف اِس لئے شریک نہیں ہو رہا ہے کہ اس کو جنازہ کی دعا نہیں آتی۔ حالانکہ جنازہ کی دعا اگر یاد نہیں ہے تب بھی نماز جنازہ میں ضرور شریک ہونا چاہئے، تاکہ جو رشتہ دار یا دوست یا کوئی بھی مسلمان اِس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کر رہا ہے، اس کے لئے ایک اہم کام نمازِ جنازہ کی ادائیگی میں ہماری شرکت ہے جو اُس کی مغفرت کا سبب بن سکتا ہے۔ نمازِ جنازہ میں اگر لوگ کم ہوں تب بھی تین صفوں میں لوگوں کا کھڑا ہونا زیادہ بہتر ہے، کیونکہ بعض احادیث میں جنازہ کی تین صفوں کی خاص فضیلت وارد ہوئی ہے(ابوداود)
جنازہ کی نماز میں تکبیر کہتے ہوئے آسمان کی طرف منہ اٹھانا بے اصل ہے۔حرمین شریفین میں تقریباً ہر نماز کے بعد جنازہ کی نماز ہوتی ہے، لہذا جن کو وہاں نماز ادا کرنے کی توفیق نصیب ہو انہیں چاہیے کہ فرض نماز سے فراغت کے بعد فوراً ہی سنن ونوافل کی نیت نہ باندھیں ، بلکہ تھوڑی دیر انتظار کرلیں تاکہ نماز جنازہ کی فضیلت سے محرومی نہ ہو. میت کے غم میں آنسو نکل جائیں تو یہ فطری بات ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے فرزند حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے نواسے ابن زینب رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ یہ کیا؟ فرمایا یہ رحمت ہے جو اللہ نے اپنے بندوں کے دل میں رکھ دی ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے انہی بندوں پر رحمت فرماتا ہے جو رحم کرنے والے ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ جو منہ پر طمانچے مارے، گریبان پھاڑے، جاہلیت کی طرح بین کرے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں”۔ مسئلہ : مرد میت کا چہرہ دیکھنا مردوں اور محارم کے لیے، اسی طرح عورت کا چہرہ دیکھنا عورتوں اور محارم کے لیے جائز ہے ،البتہ میت کا چہرہ دیکھنا نماز جنازہ سے پہلے ہونا چاہیے لیکن اس کی وجہ سے نمازِ جنازہ میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد میت کو جلد دفن کرنے کا حکم حدیث میں وارد ہے، لہٰذا نمازِ جنازہ کے بعد صرف چہرہ دکھانے کے لیے تدفین میں تاخیر کرنا مکروہ اور خلافِ سنت ہے، نیز اخروی زندگی کے آثار میت کے چہرہ پر ظاہر ہو سکتے ہیں، اس لئے جنازہ کے بعد میت کا چہرہ دکھانا مناسب نہیں ہے۔ مسئلہ : جس گھر میں میت ہو جائے ان کے پڑوسیوں اور رشتے داروں کے لیے مستحب اور باعث اجر و ثواب ہے کہ میت کے گھر والوں کے لیے اس دن (دو وقت) کے کھانے کا انتظام کریں اور خود ساتھ بیٹھ کر، اصرار کر کے ان کو کھلائیں،اور ضرورت ہو تو تین دن تک کھانا کھلانا بھی جائز ہے، اہلِ میت کو یہ کھانا کھلانا اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ میت کے گھر میں یا میت کے گھر والوں کے لیے کھانا پکانا ممنوع ہے، بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ غم و حزن اور تجہیز و تکفین کی مشغولیت کی وجہ سے ان کو کھانا پکانے کا موقع نہیں ملے گا، لہٰذا اگر میت کے گھر والے خود اپنے لیے اسی دن کھانا بنائیں تو اس کی اجازت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو، اس لیے کہ ان کو ایسی خبر پہنچی ہے جو ان کو مشغول کرے گی یعنی جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر سن کر صدمہ اور رنج میں کھانے پینے کے انتظام کی خبر نہیں رہے گی۔
میت کے اہل خانہ کے علاوہ جو افراد دور دراز علاقوں سے میت کے اہلِ خانہ سے تعزیت اور تکفین و تدفین میں شرکت کے لیے آئے ہوں، اگر وہ بھی کھانے میں شریک ہوجائیں، تو ان کا شریک ہونا بھی درست ہے، تاہم تعزیت کے لیے قرب و جوار سے آئے لوگوں کے لیے میت کے ہاں باقاعدہ کھانے کا انتظام کرنا خلافِ سنت عمل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اپنے مردوں کی خوبیاں بیان کیا کرو اور ان کی برائیوں سے زبان کو بند رکھا کرو۔ (ابودائود) اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ جب کوئی شخص مرتا ہے اس کے چار پڑوسی اس کے بھلا ہونے کی گواہی دیتے ہیں تو خدا فرماتا ہے میں نے تمہاری شہادت قبول کرلی اور جن باتوں کا تمہیں علم نہیں تھا وہ میں نے معاف کردیں. (ابن حبان)
ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے حضور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک جنازے کی تعریف کی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس کے لیے جنت واجب ہوگئی، لوگو ! تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو، تم جس کو اچھا کہتے ہو اللہ اس کو جنت میں داخل کر دیتا ہے اور تم جس کو برا کہتے ہو اللہ اس کو دوزخ میں بھیج دیتا ہے۔ (بخاری، مسلم) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا یا رسول اللہ ! جنازے کو کس رفتار سے لے جایا کریں؟ فرمایا “جلدی جلدی دوڑنے کی رفتار سے کچھ کم، اگر مردہ صاحب خیر ہے تو اس کو انجام خیر تک جلدی پہنچاؤ اور اگر مردہ صاحب شر ہے تو اس کے شر کو اپنے سے جلد دور کرو” (ابوداؤد)
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ “جب کسی مریض کی عیادت کو جاؤ یا کسی جنازے میں شرکت کرو ہمیشہ زبان سے خیر کے کلمات کہو کیونکہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے جاتے ہیں”. (صحیح مسلم) قبر پر مٹی ڈالتے وقت سرہانے سے ابتدا کیا جائے اور دونوں ہاتھوں میں مٹی بھر کر تین بار قبر پر ڈالی جائے ۔ پہلی مرتبہ مٹی ڈالتے وقت پڑھیے ”
مِنۡہَا خَلَقۡنٰکُمۡ”(اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیا) ۔ دوسری بار مٹی ڈالتے وقت پڑھیے وَفِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ (اسی زمین میں ہم تمہیں لوٹا رہے ہیں) اور تیسری بار جب مٹی ڈالیں تو پڑھیے وَ مِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی (اور اسی سے ہم تمہیں دوبارہ اٹھائیں گے). ***
محمد ہاشم القاسمی
(خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی بنگال)
موبائل فون :=9933598528