0

عظیم انصاری قابل قدر شاعر و ادیب

رئیس اعظم حیدری ، کولکاتہ

عظیم انصاری سے ہماری ملاقات ایک دو دنوں کی نہیں برسوں کی ہے۔ موصوف بہت ہی با اخلاق ، ملنسار اور بہت اچھی طبیعت کے مالک ہیں۔ آپ کی گفتگو کا انداز بہت ہی دل پذیرانہ ہے جو لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ دھیمے لہجے میں گفتگوکرتے ہیں۔ انکی گفتگو سے جیسے پھول جھڑتا ہے۔ کچھ دیر کے لئے دلی راحت اور سکون نصیب ہوتا ہے۔ آپ کا تعلق مضافات کا علاقہ جگتدل سے ہے جو کلکتہ سے پچیس کیلو میٹر دوری پر ہے۔
آپ ایک انجمن ” قرطاس و قلم” – جگتدل کے معتمد خاص ہیں۔ اور اسی نام سے واٹس ایپ گروپ کے اڈمن بھی ہیں۔ آپ کی تعلیمی صلاحیت ایم اے اور بی ایڈ ہے۔ مرکزی وزارت دفاع میں افسر رینک پر ریٹائر ہوئے مگر برسوں سے (بی اے) گریجویشن کے طالب علموں کو تاحال ٹیوشن پڑھا رہے ہیں۔
موصوف ایک اچھے شاعر کے علاوہ ایک اچھے نثر نگار و مترجم بھی ہیں۔ کئی بنگلہ کہانیوں کا آپ ترجمعہ کرچکے ہیں اور بہت سے لوگوں پر مضامین لکھ چکے ہیں اور ابھی بھی قلم روا دواں ہے۔ اس سے ان کی مضافات سے لیکر شہر کلکتہ اور بیرون کلکتہ تک ایک مستحکم شناخت بن چکی ہے۔ سبکدوشی کے بعد ادبی فعالیت میں غضب کا اضافہ ہوا ہے۔ ملک و بیرون ملک ان کے رشحات قلم منظر عام پر نظر آرہے ہیں۔ اس میں دورائے نہیں کہ عظیم انصاری ایک سچے مخلص قلمکار کی حیثیت سے پہچان رکھتے ہیں ۔ یہ جس قلمکار ،ادیب ، شاعر اور صحافی پر قلم اٹھاتے ہیں ان کے ساتھ بھر پور انصاف کرتے ہیں۔ یعنی جس کی جتنی پذیرائی ہونی چاہئے اسی حساب سے ان کے متعلق خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ یہ ایک سچے قلمکار کی سب سے بڑی یہی خوبی ہے۔ یہ اوصاف صد فیصد موصوف کے اندر پائی جاتی ہے ۔ اسے ادب میں ان کا ادبی افراد کہہ لیں۔
ویسے تو آج کل لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے مگر لوگ چہرہ دیکھکر لکھتے ہیں ۔ ذرے کو آفتاب اور آفتاب کو ذرہ بناکر پیش کر تے ہیں۔ بہر حال یہ تو اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔ اس سے بس اتنا ہوتا ہے کہ اس طرح سے لکھنے والوں کی قدر انکی نگاہ میں بہت ہوجاتی ہے جن کے تعلق سے خامہ فرسائی کی گئی ہے مگر جو پرکھ رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ انکی نگاہ میں ایسی خامہ فرسائی کرنے والے کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ ایک قول پیش کر رہا ہوں ؛
“اللہ فرماتا ہے میرے بندوں کے ساتھ حق اور سچ بات کہا کرو اور لکھا کرو. اگر کسی کے اندر غلط دیکھو تو اسے غلط کہو گرچہ اسکی نگاہ میں تم برے ہو گئے۔ مگر میری نگاہ میں سرخرو ہو گئے۔اگر تم نے غلط کو صحیح کہا۔ گرچہ تمہاری بات سے اسکی نگاہ میں تم سرخرو ہو گئے مگر میری نگاہ میں ذلیل ہو گئے۔ ،،
بہر حال عظیم صاحب کا پہلا شعری مجموعہ “مدتوں بعد” منظر عام پر آ کر لوگوں سے داد و تحسین وصول کرچکا ہے۔ اسکے بعد دوسرا شعری مجموعہ “مٹھی میں دنیا” منصہء شہود پر آکر داد و تحسین وصول کر رہا ہے۔ گرچہ وہ اپنی کتابوں کا اجرا نہیں کرتے۔! شاید بعد میں ہو یا نہ بھی ہو اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
مجموعہ کے تعلق سے حلیم صابر جو صاحبِ دیوان شاعر ہیں اور پچیسویں کتاب کے خالق بھی۔ انھوں نے خوب رقم کیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر معید رشیدی شعبہء اردو علی گڑھ یونیورسٹی، علی گڑھ سے تعلق رکھتے ہیں ان کا مضمون بھی اس مجموعے میں شامل ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا کہ عظیم انصاری کا مجموعہ عمدہ سے عمدہ اشعار غزل سے مزین ہو گا۔ ان دونو ں شخصیتیں کی تحریریں ایک اہمیت رکھتی ہیں۔
حلیم صابر کا یہ عنوان ہی بہت عمدہ ہے : “عظیم انصاری کی غزلوں کا دل پزیر لہجہ” کسی بھی مضمون کا عنوان بہت معنی رکھتا ہے ۔ ڈاکٹر رشیدی صاحب کا عنوان ” مٹھی میں دنیا” کے کہنے۔ یہ دونوں عنوان بہت عمدہ ہیں ۔
حلیم صابر فرماتے ہیں :
“مغربی بنگال کے ادبی افق پر کچھ ایسے چہرے بھی نظر آئے جنہوں نے ابتداء میں صرف اپنے ذوق کی تسکین کی خاطر وقتاً فوقتاً شاعری کی لیکن جب مشاغل روزگار سے انھیں فرصت ملی تو انہوں نے اپنے آپ کو شعر گوئی کے لئے پوری طرح وقف کر دیا اور پوری دل جمعی کے ساتھ گیسوئے سخن کی شبانہ کشی کا فریضہ ادا کرنے لگے۔ ایسے ہی شاعروں میں شمار کلکتہ سے دور مضافات کے صنعتی علاقے جگتدل میں مقیم خوش فکر شاعر عظیم انصاری کا ہوتا ہے۔”
اور ڈاکٹر معید رشیدی فرماتے ہیں کہ عظیم انصاری مغربی بنگال کے ادبی افق پر کم و بیش ایک دہائی سے روشنی بکھیر رہے ہیں۔ا نکی ادبی کار گزار یوں کا زمانہ کئی دہائیوں کو محیط ہے لیکن گزشتہ دہائی میں ان کے نقوش گہرے ہوتے گئے۔”
دو شعری مجموعوں کے خالق اور نعت گو شاعر بھی ہیں اور اچھے نثر نگار و ناقد بھی۔ انکے مضامین اخبار و رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ ترجمے کی دنیا میں بنگالی فکشن کے تراجم کے سبب اہل ادب انہیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اس میں دورائے نہیں ہے کہ عظیم انصاری بہت دل جمعی کے ساتھ منظوم نگاری و نثرنگاری کی طرف مشغول ہیں۔ آئے دن انکی منظوم تخلیقات او مضامین وغیرہ کسی نہ کسی اخبار و رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ عظیم انصاری کی شخصیت کو پڑھنے اور سمجھنے کیلئے بہت ضروری ہے کہ انکے معاشرتی ماحول اور اسباب وحالات کو دیکھا جائے، جس میں رہ کر عظیم انصاری نے اپنے ذہن کے پردے سے گوہرِ ادب نکال کر شاعری کی شکل میں اپنے خیالات کو پیش کردیا ۔ اوراسے صفحۂ قرطاس پر بکھیر کر ہم جیسے قاری ک اپنی لطافت بھری شاعری سے محظوظ ہونے کا موقع فراہم کیا ہے۔ آئیے اسی کی روشنی میں ایک شعر پیش خدمت ہے آپ کے حضور۔
معلوم ہے جب اسکو یہ سب حال یہاں کا
ہوتا ہے کہاں اس پہ اثر شور فغاں کا
ایک انسان کو سب خبر معلوم ہے کہ یہاں کا حال بد سے بدتر ہے سکون و چین میسر نہیں ہے ۔دن رات گھٹن کی زندگی گزاررہے ہیں پھر بھی اپنی زندگی کو سنوار نے کیلئے کوئی کوشش نہیں کرتا جیسے وہ انسان ناطق نہیں ہے بلکہ دشت و بیاباں میں پھر نے والا وحشی جانور ہو کسی بات کا جیسے اس پر اثر ہی نہیں ہے۔ اسی بات کو کتنی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
معلوم ہے جب اسکو یہ سب حال یہاں کا
ہوتا ہے کہاں اس پہ اثر شور وفغاں کا
دوسرے شعر میں اپنے تعلق سے رقمطراز ہیں کہ میں اس جا پہ پہنچ جاؤں گا جیسے بھی ہو لیکن وہ جگہ کا پتہ تو ملے عظیم صاحب کی نگا ہ میں ایسی جگہ کا پتہ نہیں مل پا رہا ہے جہاں امن و امان کی جگہ ہو۔ آج جو حالت ہے آپ نظر اٹھا کر دیکھیں گے تو یہ بات بالکل صاف ہے کہ پوری دنیا سے امن و امان چین و سکوں غائب ہے۔
ایسے حالات میں انسان جائے تو کہاں جائے۔! آج کےاس پرُآشوب دور کے حالات کو بہت خوبصورت انداز میں اپنے شعر میں عظیم انصاری نے پیش کیا ہے۔ شعر دیکھیں:
اس جا پہ پہنچ جاؤں گا جیسے بھی ہو لیکن
چل جائے پتہ مجھ کو اس جائے اماں کا
میں کہتا ہوں ۔
اس دور پرآشوب میں آہیں نہ بھرو تم
ہے زیست تمہاری اس میں تصریف کرو تم
آج کل لوگوں کی کیفیت یہ ہے کہ سچائی کی طرف چلنے میں انہیں ڈر لگتا ہے خوف ہوتا ہے کیوں کہ اس راستے پر تھوڑی پریشانیاں ہیں تکلیفیں ہیں جو وقتی طورپر ہیں۔ اسکے بعد راحت ہی راحت مگر اسے بھی قبول نہیں کر پا تے ہیں۔ چونکہ اس قدر لوگ ناشکرا بندہ ہو گئے ہیں ! کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے ! اگرچہ لوگ تھوڑی دیر کے لیے صبر کر لیں تو ان کے لیے یہاں دنیا میں بھی راحت ہےاور آخرت میں بھی راحت ہے۔ جبکہ اللہ نے ہم انسانوں کے لئے کیا کچھ عطا نہیں کیا ہے۔
اگر ہم اپنی زندگی کو جھوٹ کی دنیا میں رہ کر گزارتے ہیں تو وہاں بھی چین و سکوں نہیں ہے۔ آپ دیکھ لیں ظالموں کو رہزنوں کو لٹیروں دغا بازوں کو جھوٹوں کو کہیں بھی سکون و چین نہیں ہے کبھی جیل کے سلاخوں کے پیچھے ہیں اور کبھی باہر میں دشمن کے نرغوں میں ہیں پتہ نہیں کون کس وقت کہاں پر حملہ کر دے ۔ ہر وقت خوف و حراس میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان اشعار میں اسی بات کو بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے،
ملاحظہ فرمائیں :
سچ کی دنیا میں جو رہتے ہوئے گھبراتا ہے
جھوٹ کی دنیا میں وہ چین کہاں پاتا ہے
دیکھ کر جس کو چمک اٹھتی ہے آنکھیں فوراً
ساری دنیا کو وہی رنگ بہت بھاتا ہے
بہار میں جو مرے آس پاس رہتا تھا
خزاں میں آج وہ مجھ سے کھڑا ہے کتنی دور
ہوائے زرد کی سازش یہاں لے آئی ہے
وہ برگ شجر سے گرا ہے کتنی دور۔۔
یہ بالکل حقیقت ہے کہ آپ کے پاس اگر دولت ہے، خوشحالی ہے ،لوگوں کی مدد کر رہے ہیں تو لوگ ہروقت آپ کے پاس موجود رہیں گے۔ اور اگر دولت ختم ہوگئی تو پھر آپ کے پاس کوئی آنے والا نہیں پوچھنے والا نہیں ہے۔
ٹھیک اسی موسم بہار کی طرح جب بہار ہوتی ہے ہر پھول اور پتہ اپنے شجر کی شاخ پر جھولتا رہتا ہے مسکراتا رہتا ہے جونہی موسم خزاں میں تبدیل ہوتا ہے تو وہی پھول اور پت جانے کہاں کس طرف کتنی دور چلا جاتا ہے تب بے چارہ شجر اکیلا تنہا کھڑا افسوس کرتا رہتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح انسان کی زندگی میں ایک وقت ایسا آتا ہے جو انسان تنہا ہو جاتا اور سوچتا رہتا ہے ۔ کاش میرے پاس کوئی آتا میری خبر گیری کرتا۔
اسی حالات کو اس شعر میں پیش کیا گیا یہی شاعر عظیم انصاری کا کمال ہے۔ اسی کو فن اور آرٹ کہا جاتا ہے۔‌
حقیقت حقیقت ہے جب لوگ
حقیقت کو سمجھ لیتے ہیں
تو جھوٹ فری خواب سے پھر دور ہونے لگتا ہے
خواب بھی ایک فریب ہے دھوکہ خواب کبھی سچ نہیں ہوتا ہے۔ اسے لئے کہا گیا سچ کے سامنے جھوٹ کا نہیں چلتا ہے جھوٹ کو جتنا چھپا لیں۔ ایک نہ ایک دن وہ جھوٹ سر پر چڑھ کر بولے گا ۔ اسکا سامنا کرنا ہو گا۔اسی لئے آدمی کو حقیقت کا راستہ طئے کرنا چاہیے دھیرے دھیرے آپ کی زندگی میں فریب جھوٹ کا خواب کم آنا ہوجائے گا۔
دیکھئے اسی تناظر میں دو اشعار:
کر لیا تسلیم جب دل سے حقیقت کو عظیم
خواب کا آنا مری آنکھوں میں کم ہونے لگا
گھبراییے نہیں کبھی سنگین رات سے
تیرہ شبی کے بعد ہی آتی ہے روشنی
غزل شاعری کی ایک بہترین صنف ہے جسکو شعر کہنے والا ہر شاعر غزل کی صنف پر طبع آزمائی کرتا ہے جو شاعر غزل کے فن سے واقف ہوجاتا ہے وہ شاعری کی ہر صنف پر طبع آزمائی کر سکتاہے میرا بھی یہی ماننا ہے:
“ڈاکٹر مسعود خان کا کہنا ہے کہ اردو میں غالب پہلے شاعر تھے جنہیں وسعت بیان کے لئے تگنائے غزل ناکا فی معلوم ہوئی!”
اس کے بعد حالی کے اس فتوے پر کہ یہ وقت کی راگنی ہے۔ عظمت اللہ خاں جیسی شخصیت نئی پود کا بھرم رکھنے والوں نے اس کو گردن زنی قرار دیا لیکن یہ تنقید کا صر ف ایک رخ تھا۔ مینائے غزل میں مئے باقی رہی اور اسکی آبرو کی لوگوں میں ہمیشہ فکر رہی ماضی تا حال غزل پر تنقید کا جس قدر طور ملتا ہے۔ اس کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بیشتر موضوعات غزل سے تعلقات رکھتے ہیں۔ آئیے کچھ اور اشعار ملاحظہ فرمائیں۔عظیم انصاری کہتے ہیں:
مصلحت کچھ نہ تھی خاموش مرے رہنے میں
بے زبانی کو مری ہار نہ سمجھا جائے
گفتگو اس کی سنی تو مجھے معلوم ہؤا
بند ہوتا ہے کسی کوزے میں دریا کیسے
انا کو اپنے ذرا دور رکھ کے آؤ تو
دلوں کے بیچ کی دیوار میں گرادوں گا
قاتل سے کررہا ہوں میں فریاد زندگی
لائی ہے کھینچ کر مجھے بے بسی کہاں
صبح ہوتی ہے ہر اک رات کے پس منظر میں
کیوں کسی دل میں پھر امید نہیں ہوسکتی
عظیم انصاری کی غزل کے اشعار کا مطالعہ کریں گے تو ایک بات صاف نظر آئے گی انکے اندر شعر گوئی کے مرحلوں کو طئے کرنےکی صلاحیتیں موجود ہیں۔ اور روشن خیالی ان کا طرہء امتیاز ہے ہر شاعر اپنے عہد کا آئینہ دار ہوتا ہے وہ اپنے انداز سے اپنے قاری کو شعر کے ذریعہ دعوت دیتا ہے۔
اوپر دیئے گئے اشعار کے حسن بیان اور اسلوب سے پتہ چلتا ہے کہ انکا اپنا ایک منفرد انداز ہے۔ موصوف اپنے خیالات کو اشعار میں ڈھالتے وقت کہاں تک رموز نکات کو برت پائے ہیں یہ تو وقت کے نقاد اور فنکار ہی طئے کرسکتے ہیں ویسے غزل ایک بہت باریک فن ہے غزل اپنے شعر پر مکھی بیٹھنے نہیں دیتی ہے مطلع سے لیکر مقطع تک دیکھیں گے تو بات سمجھ میں آئے گی۔ ایطائے جلی اور ایطائے خفی۔ دولخت، شتر گربہ ،۔تعقید لفظی، حشو ملیح ۔ ردیفین ، تخالف ، ضعف تالیف ۔اقوا۔ تذکیر و تانیث واحد ، جمع ،بے بحر اور بے وزن، زو بحرین اس کے علاہ بھی بہت ساری چیزیں ہیں وغیرہ وغیرہ جو ایک شعر کے اندر غور کرنا پڑتا ہے تب جاکر غزل کاایک شعر مکمل ہوتاہے شاعری کا فن بہت مشکل فن ہے۔ بہر حال کوشش کرتے رہنا چاہئے سیکھتے رہنا چاہئے عظیم انصاری کی غزلوں سے پتہ چلتا ہے عظیم انصاری کی مشق سخن اور مطالعہ کامیاب ہے اور ان سب عیبوں سے انکی غزل پاک ہے۔ یہی ایک شاعر کی کامیابی ہے:
غزل کی اصطلاح کےلئے بقول حالی کی چند تجویز پیش کر رہاہوں۔
غزل میں عشقیہ مضامین ایسے الفاظ باندھے جائیں جو دوستی اور محبت کی تمام قسموں پر حاوی ہوں ایسے الفاظ نہ استعمال کیا جائے، جن سے محبوب کا مرد یا عورت ہونا ظاہر ہو۔ غزل کو عشق و محبت تک محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ زندگی کے مشاہدوں اور تجربوں سے غزل کے مضامین میں وسعت پیدا کرنی چاہئے غزل میں سادگی اور صفائی کا خیال رکھا جائے۔ غیر مانوس الفاظ کم برتے جائیں۔ محاورہ زبان میں چاشنی ضرور پیدا کرتا ہے لیکن محض محاور باندھنے کے شعر کہنا مناسب نہیں۔ اس تناظر میں آپ عظیم انصاری صاحب کو پرکھ سکتے ہیں سمجھ سکتے ہیں شاعری صرف قافیہ پیمائی کا نام نہیں ہے فشاعری ریاضت اور مشق چاہتی ہے۔ عظیم انصاری کی ریاضت اور مشق آپ کے سامنے ہے :
اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا یا ناقدانِ وقت کریں گے۔ بہر حال اتنی کم مدت میں عظیم انصاری کی شاعری بہت صاف ستھری ہے زبان و بیان پر قدرت ہے اس نگا ہ سے دیکھا جائے تو انکا مجموعۂ کلام “مٹھی میں دنیا” ادب کے نسخہء کیمیا میں ایک اضافہ ہے۔ امید ہے قاری اسے دلچسپی کے ساتھ پڑھیں گے:
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
اپنی بات اس شعر پر ختم کرتا ہوں۔
خود بخود کھنچ کے چلے آئیں گے پروانے رئیس
شمع احساس مگر تمکو جلانا ہو گا
رئیس اعظم حیدری کولکاتا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں