ڈاکٹر نذیر مشتاق 0

افسانچہ ۔۔۔۔بلا عنوان

افسانچے

ڈاکٹر نذیر مشتاق

افسانچہ ۔۔۔دغا

جھیل ڈل کے کنارے ہوٹل گولڈن ٹامب میں بین الاقوامی میڈیکل کانفرنس کے ہال نمبر تین سے نکل کر ڈاکٹر شیلا کوفی کارنر کی طرف بڑھی ۔۔وہاں پہلے سے کھڑے کوفی کی چسکیاں لیتے ہوئے شخص کو دیکھ کر وہ تقریباً چیخ پڑی ۔۔۔۔
تم ۔۔۔۔مہیش۔۔۔۔او گاڈ۔۔۔میں کؤی سپنا تو نہیں دیکھ رہی ہوں ۔۔۔
وہ دونوں میڈیکل کالج میں پڑھتے تھے اور دونوں ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔۔۔لیکن وقت کے دھارے میں بہہ کر وہ۔ایک دوسرے سے جدا ہونے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
اندھیرے نے اپنا جال پھیلا یا تھا وہ دونوں ڈل کےکنارے تین درختوں کے بیچ میں خفیہ جگہ میں ایک دوسرے میں سماگیے ۔۔۔چاند شرماکر بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا ۔۔۔
تم بالکل ویسی ہو ۔۔تم نے شادی کی ۔۔
نہیں ۔میں تمہی کبھی بھلا نہیں سکی ۔۔
اور تم نے ۔۔۔
میں بھی تمہیں کبھی بھلا نہیں سکا ۔۔۔۔۔۔۔
اچانک ان کو لگا کہ وہ بڑی دیر سے کانفرنس ہال سے باہر ہیں انہوں نے خود کو سنبھالا اور کپڑے درست کرکے ہال کی طرف بڑھے ۔۔۔
ہال کے نزدیک کاریڈور میں داخل ہوتے وقت شیلا نے کہا ۔۔۔اب ہم شادی ۔۔۔۔۔
اسی وقت دو ننھے منے بچے مہیش کی ٹانگوں سے لپٹ گیے ۔۔۔۔ڈیڈی کہاں گئے تھے آپ۔۔۔۔۔ ممی آپ کو کب سے ڈھونڈ رہی ہے ۔۔۔۔

افسانچہ ۔۔۔۔۔بالادستی

دولہا حجلہ عروسی میں داخل ہوا ۔۔۔دلہن کے قریب جانے کے بجائے صوفے پر بیٹھ کر سگریٹ سلگائی۔۔۔ دلہن سمجھدار تھی ۔۔۔۔۔وہ زیر لب بڑ بڑائی۔۔۔ ۔ لگتا ہے کسی طوفاں کا مقابلہ کرنا ہے تھوڑی دیر سوچ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور دولہے کے قدموں میں بیٹھ گئی۔۔۔۔ اس کے جوتے اور ساکس اتارے اور پھر اس کا اچکن نکالا اور اسے سہارا دیتے ہوئے بیڑ تک لے آئی ۔۔۔۔
مجھے افسوس ہے میں تمہیں سچا پیار نہیں دے سکتا ہوں۔۔۔ یہ زبردستی کی شادی ہے ۔۔۔۔میں کسی اور سے پیار کرتا ہوں ۔۔۔۔دولہے نے کہا۔
تو آپ اس سے بھی شادی کرلیں ۔۔ ۔۔۔۔۔دلہن نے مسکراتے ہوئے کہا اور اسے بیڑ پر لٹا دیا۔
آدھی رات کو اچانک دولہے نے دلہن سے پوچھا ۔۔۔ کیا آج سے پہلے تم نے کسی سے پیار کیا ہے۔
دلہن کو شرارت سوجھی ۔۔۔۔اس نے کسی رسالے میں پڑھا ہوا ناکام محبت کا افسانہ سنایا ۔۔۔۔لڑکی کے نام کے بجائے اپنا نام بتایا۔
دولہے کے کان سرخ ہوگئے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی بدن پسینے سے شرابور ہوا۔۔۔۔۔
واہ واہ ۔۔کتنی بے شرمی سے اپنے عشق کی داستان سنارہی تھی ۔۔۔ شرم نہیں آتی ۔۔دولہےنے غصے کی آگ میں جلتے ہوئے کہا ۔۔۔
ارے یہ تو۔ایک اف۔۔۔۔۔۔۔دلہن نے اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہا مگر دولہا غصے کی آگ میں جلتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا ۔۔۔

افسانچہ ۔۔۔۔بےکار

سلیمہ تمہارے ہسبنڈ آج کل کیا کرتے ہیں ۔۔۔فون پر ایک سہیلی نے اس سے پوچھا ۔۔۔
جواب ملا ۔۔۔وہ آج کل دن رات کوئی کتاب لکھنے میں مصروف ہیں ۔۔۔
وہ تو ٹھیک ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔ کرتے کیا ہیں ۔۔۔۔اس نے سوال کیا ۔۔

افسانچہ ۔۔۔۔ہٹ دھرم
سنجیدہ بیگم بہت خوب صورت شریف تعلیم یافتہ اور ہر کسی کے برے وقت میں کام آنے والی عورت تھی ۔۔۔اس کی صرف شوہر دلاور کے ساتھ تو تو میں میں ہوتی تھی اور وہ اکثر اس سے ناراض رہتی ۔۔۔۔وہ شوہر کے ساتھ بات چیت بند کرتی مگر اس کا شوہر سیدھا سادہ ادمی ہر وقت اسے مناتا۔۔وہ کبھی پہل نہیں کرتی۔۔۔۔۔۔ اس روز دونوں میں جھگڑا ہوا تو دونوں میں بات چیت کا سلسلہ بند ہوا اس بار دلاور نے پہل نہیں کی وہ اس انتظار میں تھا کہ اس بار اس کی بیوی منانے میں پہل کرے گی۔۔۔۔۔۔
اچانک دلاور بیمار ہوا ۔۔۔ڈاکٹروں نے جواب دیا
سبھی رشتہ دار اس کے اردگرد بیٹھے انتظار کر رہے تھے کہ کب وہ ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کرلے ایک رشتہ دار اس کے نزدیک گیا اور مرنے والے سے ہاتھ جوڑ کر کہا۔۔۔ بھائی صاحب میں نے آپ کے ساتھ برا سلوک کیا ہے مجھے معاف کرنا ۔۔۔۔۔
سنجیدہ بیگم نے یہ سن کر شوہر کے سرہانے بیٹھی اپنی بیٹی سے کہا ۔۔۔۔ ۔۔ میں آج کل اس کے ساتھ بات نہیں کرتی ہوں میری طرف سے۔۔تو ہی اس سے کہہ دے کہ میری غلطیاں معاف کرے۔۔۔۔
افسانچہ ۔۔۔۔تفاوت

۔۔۔اس کے چھ سالہ بیٹے نے فرمایش کی ۔۔۔۔مجھے چوکلیٹ دو ۔۔۔۔ اس نے۔دکاندار سے سو روپے کا چاکلیٹ خرید کر بیٹے کے ہاتھ میں تھما دیا ۔۔۔
اس کے پیچھے کھڑی اس کی آٹھ سالہ بیٹی نے کہا۔۔۔۔ مجھے بھی چاکلیٹ چاہیے۔۔۔۔
اس نے دکاندار سے کہا ۔ زرا۔وہ پانچ روپے کا چاکلیٹ دینا۔۔۔۔
افسانچہ ۔۔۔۔ امام ۔۔
مسجد کے امام کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے مسجد میں مسئلہ پیدا ہوا کہ نماز با جماعت کو ن پڑھائے ۔۔۔۔۔۔ مسجد کے ان پڑھ اور دین سے بے خبر صدر نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔۔مگر کوئی فیصلہ نہیں کرسکا ۔۔۔اس کے بغل میں بیٹھے ہوئے ایک نوجوان نے دبے الفاظ میں اس سے کہا ۔۔۔۔۔۔وہ دائیں طرف بیٹھے ہوئے شخص اسلامک سٹڈیز میں ماہر ہیں وہ امامت کے فرائض انجام دے سکتے ہیں ۔۔۔۔
وہ ۔۔۔۔صدر نے اس کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔میں نے اسے آتے ہوئے دیکھا ۔۔اس کی تو داڑھی بہت چھوٹی ہے ۔۔اس کا پینٹ ٹخنوں سے نیچے تھا ۔۔۔۔
تو کیا ہوا ۔۔عالم دین تو ہے ۔۔نوجوان نے کہا
مگر پہلے یہ تو پتہ چلے کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے اور کون سے مسلک کی پیروی کرتا ہے۔ہماری لائن کا ہے کہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ،،

افسانچہ ۔۔۔۔بلا عنوان

میاں بیوی کمرے میں بکھرے سامان کو ترتیب دے رہے تھے ۔۔۔ان کا چھوٹا معصوم بیٹا ابھی ان کی مدد کر رہا تھا ۔۔۔۔مرد مختلف موضوعات پر کتابوں کو الماری کے شیلفوں میں رکھ رہا تھا ۔۔اچانک بیٹے نے اس کی طرف قرآن مجید بڑھایا اور کہا ۔۔ڈیڈی اسے الماری کے سب سے اوپر والے شیلف میں رکھدیں
باپ خوش ہوا کہ بیٹا قرآن شریف کی عظمت اور حرمت جان چکا ہے ۔۔پھر بھی اس نے بیٹے سے پوچھا
کیوں الماری کے اوپر والے شیلف میں کیوں رکھوں ۔۔
بیٹے نے بیچ والے شیلف میں کوئی کتاب رکھتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔
کیونکہ اسے آپ پڑھتے نہیں۔۔۔۔۔

افسانچہ ۔۔۔ووٹ۔

ارے میں نوے سال کا ہوچکا ہوں میں نے زندگی میں کبھی ووٹ نہیں ڈالا ۔۔۔آج کیوں ڈالوں ۔۔۔خواجہ بدرالدین عنایتی نے اپنے بیٹے شاکر عنایتی سے کہا ۔۔۔ یہی تو بہت بڑی غلطی ہے ۔۔ہم اپنے ووٹ کا استعمال نہیں کرتے ہیں ۔۔۔ہم اپنے ووٹ کی طاقت سےبے خبر ہیں۔۔۔شاکر عنایتی نے باپ کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔
آج میں چنار پارٹی کی طرف سے لوک سبھا الیکشن کے لیے امیدوار ہوں ۔۔۔۔آپ کو کسی بھی صورت میں ووٹ ڈالنا ہی پڑےگا ۔۔۔۔۔شاکر عنایتی نے ایک ایک لفظ پر زور دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نتیجہ آگیا ۔۔۔۔تاریخ رقم ہوگئی ۔۔۔۔۔
شاکر عنایتی صرف ایک ووٹ سے الیکشن جیت چکا تھا۔۔
افسانچہ ۔۔۔۔دولت

چوروں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس عالیشان خالی حویلی میں ڈاکہ ڈالیں گے ۔۔۔۔سردار کی ہدایت کے مطابق چوروں نے حویلی کے نگہبان کو بے ہوش کرنے کے بعد ٹرک حویلی کے آنگن میں پارک کیا تاکہ اندر سے چرایا گیا سارا مال اس میں بھر کر فرار اڈے پر پہنچا یا جائے۔۔ سردار کے حکم کے مطابق چوروں نے حویلی کے اندر موجود ایک ایک چیز نکال کر ٹرک میں رکھدی۔۔۔اب حویلی بالکل خالی تھی انہوں نے ڈور میٹ ڈسٹ بن اور جوتے چپل تک چرائے ۔ اب وہاں کوئی چیز نہیں تھی۔۔چار گھنٹے کے آپریشن کے بعد۔۔۔ اب سردار ساتھیوں کے ساتھ نکلنے والا ہی تھا کہ ایک چور نے کہا ۔۔سردار ایک کمرہ ابھی بچا ہے۔۔۔۔۔۔
کمرے کا دروازہ توڑا گیا تو پتہ چلا کہ وہ لایبریری ہے ۔۔۔۔۔ایک چور نے کہا ۔۔سردار یہاں تو ہزاروں کتابیں ہیں ۔کتنی بڑی بڑی کتابیں ہیں ۔۔۔۔چلو لوٹو جمع کرو ان کتابوں کو۔۔۔۔۔خوب مال ملے گا ۔۔۔۔
سردار نے ان کو روکا ۔اور کہا۔۔۔اس کمرے میں جو دولت ہے وہ دنیا کا کوئی چور چرا نہیں سکتا ۔۔

افسانچہ ۔۔۔۔ببلو

گھر میں سبھی اسے ببلو کہتے ہیں ۔۔گول مٹول ۔ خوب رو اور صحت مند ہر وقت مسکراتا ہوا ۔
مگر کئی دن سے وہ مسکرانا بھول گیا تھا ۔گم صم اور اداس رہتا ۔کسی چیز میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔ سکول جانے سے بھی انکار مولوی صاحب کے پاس جانے سے بھی انکار ۔۔ٹیوشن جانے سے بھی انکار ۔۔۔ماں باپ بہت زیادہ پریشان ہوئےاور اسے ایک ماہر امراض نفسیات کےپاس لے گئے ۔۔۔پتہ چلا کہ وہ شدید ڈیپریشن میں مبتلا ہے ۔۔۔دس پندرہ دن دوایاں کھانے کے بعد وہ اپنی حالت میں واپس آیا اس کے لبوں پر مسکراہٹ لوٹ آئی ۔۔۔اب وہ سکول جانے لگا ٹیوشن بھی جانے لگا ۔لیکن مولوی صاحب کے پاس جانے سے اس نے صاف انکار کیا ۔۔
اس کی ماں نے اسے کریدا تو اس نے اشاروں سے ماں کو سب کچھ سمجھایا ۔۔ماں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے اس نے اسے سینے سے لگایا ۔۔۔
رات دیر گئے اس کی ماں نے اپنے شوہر سے سب کچھ کہا۔۔۔۔
دو دن بعد مولوی صاحب کو مقامی پولیس نے گرفتار کرکے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا ۔۔
����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں