کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔.؟؟!! 0

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔.؟؟!!

اِکز اقبال

قوموں کا عروج و زوال تعلیم و ترقی پر منحصر ہوتا ہے ۔ زندگی کے ہر شعبے میں ربط و ضبط کے لیے تعلیم کا ہونا لازمی ہے ۔ ہمارے بچے ہمارے مستقبل کا سرمایہ ہے۔ اور انہیں بہترین تعلیمی زیور سے آراستہ کرانا ہمارا فرض بھی ہے اور ہماری ترجیحات میں بھی شامل ہونا چاہیے ۔
مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے سماج میں اگر کسی چیز پر سب سے کم توجہ دی جاتی ہے تو وہ ہے بچوں کی تعلیم ۔ والدین عدیم الفرصت ہونے کا بہانہ بناتے ہیں۔ استاد موجودہ تعلیمی نظام کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ حکام اور صاحبِ اقتدار لوگوں کا تعلیمی نظام پر توجہ نا کے برابر ہے۔ اور موبائل فونز اور انٹرنیٹ کی آمد سے بچے تعلیم اور مطالعے کی جانب بے ذوقی اور بے توجہی کے شکار ہیں۔
اس پر حد یہ کہ حکومتی سطح پر بھی اِس بے توجہی کی حد پار ہوئی ہے۔
نجی تعلیمی اداروں پر بے جا قدغن ‘ تعلیمی سال کی تبدیلی ‘ تعلیمی نصاب کو یکساں بنانے کی کاوشیں نصابی کتابوں کا فقدان اور غیر نصابی سرگرمیوں پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا۔
ایسا لگتا ہے کہ میرے قوم کے بچوں کو قصداً کسی خاص چیز سے محروم رکھا جا رہا ہے۔
اور ابھی حال ہی میں کتابوں میں نفرت انگیز اور قابلِ اعتراض مواد کی بات ہو یا پھر یہ خبر کہ طلباء کو صرف اسلئے پاس قرار دیا گیا کہ انہوں نے مذہب کی آڑ لی تھی۔
موجودہ نظام ہائے تعلیم بچوں کو ان پیچیدہ مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں کر رہا جن کا انہیں آنے والے مستقبل میں سامنا ہوگا۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس ، روبوٹک ٹیکنولوجی اور ورچوئل ریئلٹی کی آمد سے کیا ہمارے بچے دنیا کا تیزی کے ساتھ بدلنے والے رنگ ڈھنگ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے؟
یہاں تعلیمی سال کی ابتدا بچوں کے امتحانات سے ہوتی ہے نا کہ پڑھائی سے۔ جس سے بچوں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور پھر ابتدائی مہینوں میں کتابیں میسر نہ ہونے کا دکھ ۔ بچے بچارے پڑھیں بھی تو پڑھیں کیا ؟
حال ہی میں حکومت کی طرف سے کشمیر میں تعلیمی سال کی تبدیلی کی وجہ سے کام کرنے کے دِنوں میں خاطر خواہ کمی دیکھنے کو ملی۔ لمبی سرمائی تعطیلات ‘ گرمائی تعطیلات اتواراوردیگرسرکاری تعطیلات کو ملا کر دیکھا جائے تو سال کا اچھا خاصا حصہ صرف چھٹیوں میں ہی گزر جاتا ہے اور کچھ بچے کھچے دن رہ جاتے ہیں جو روٹین ورک کے حصّے میں آتے ہیں اور پھر اُن میں بھی زیادہ تر دِن پڑھائی سے ہٹ کر بچوں کو دوسری سرگرمیوں میں مشغول کرانے میں صرف ہوتے ہیں ۔ اور کل ملا کر تعلیم کے لیے گنتی کے کچھ بچے کھچے دن ہی رہ جاتے ہیں ۔ آخر یہ ہمارے بچوں کے مسقبل کے ساتھ کھلواڑ نہیں تو اور کیا ہے ؟
ایسے میں اکثر طلباء بھرپائی کے لئے زائد کلاسس لینے کے لیے کوچنگ سینٹرز کا رخ کرتے ہیں۔ مگر وہاں پڑھائی کم اور بے حیائی زیادہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ بیشتر کوچنگ سینٹرز بے حیائی کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ حال ہی میں ایک غیر نجی کوچنگ ادارے سے ایک ویڈیو وائرل ہوا ۔ جس میں ایک کلاس روم میں مبینہ طور کلاسز کے دوران ہی طلباء و طالبات کو ایک غیر اخلاقی اور غیر مناسب گانا دکھایا گیا تھا۔ جس میں تعلیم تو نہیں تھی مگر فحاشی ضرور تھی۔
سوال یہ ہے کہ بچے آخر جائیں تو کہاں جائیں؟ تعلیم کا معیار اِس قدر کیوں گرا دیا گیا؟
تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔ ایسے میں تمام اداروں حکام ‘ والدین ‘ اساتذہ ‘ تعلیمی اداروں ‘ کوچنگ سینٹرز ‘ میڈیا اور سماج کے دیگر تمام حساس طبقوں پر زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مل جل کر ایک ایسے تعلیمی نظام کی تجدید کریں تاکہ بچوں کو اُن کا بنیادی حق بہتر طریقے سے مل سکے۔ کہ میرے کل کی متاع ‘ میرا سرمایہ آج کے بچّے ہی ہیں اور یہ ہمارے پاس امانت ہے۔ تو خدا را اِن کو اُن کے حق سے محروم نہ کریں۔
کہ تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہوجائے اور ملائم تو جدھر چاہیے اسے پھیر۔۔۔!!
نوٹ: اِکز اقبال مریم میموریل انسٹیٹیوٹ میں ایڈمنسٹریٹر ہے
رابطہ: 7006857283
ایمیل: ikkzikbal@gmail.com
����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں