عبد الرحمان فدا
جہاں علاقہ مراز سے تعلق رکھنے والے بہت سے بلند پایہ ادیبوں شاعروں عالموں اور فاضلوں نے کشمیری زبان ادب کی بھر پور خدمت انجام دی اور کشمیری زبان کو اعلی مقام دلانے میں اپنا ایک منفرد کردار ادا کیا۔ وہیں اس حوالے ادبی اعتبار سے بھر پور ذرخیزیت رکھنے والے اسی علاقہ سے تعلق رکھنے والی چند نسوانی وجودوں کا بھی ایک خاصہ اور اہم رول رہاہے جس کو کبھی اور کسی بھی حالت میں فراموش نہیں کیا جائے گا بلکہ اگر یوں بھی کہا جائے کہ کشمیری زبان میں شاعری کی ابتدا بھی ان کے ذریعہ ہوئی تو کوئی مبالغہ آرائی نہ ہوگی جس کے لئے پانپور کی للہَ عارفہ کا نام نہایت ہی عزت و احترام اور فخر سے لینا ہوگا اور ان کے بعد حضرت نور الدین نورانی علیہ رحمہ ہیں اور ان دونوں عہد ساز شخصیات نے اپنے ناصحانہ اور عارفانہ کلام سے کشمیری زبان و ادب کو مالا مال کیا اور صدیاں گزرنے کے باوجود بھی ان جیسی مثال کوئی اور قائم نہ کر سکا ۔ الحمد للہ ان کے بعد یہ سلسلہ روز بروز زور پکڑتا گیا اور ضلع پلوامہ اس لحاظ سے انتہائی مبار کباری کا مستحق ہے جہاں سے چوٹی کے ادباء اور شعراء آفرید ہوئے جو ادبی افق پر درخشندہ ستاروں کی مانند اپنی مثال برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
بحر الحال آج کا موضوع نسوانی شخصیات کے حوالے سے ہے اور شکر خداوندی ہے کہ اس ذرخیز زمین سے بہت ساری خواتین قلمکاروں نے جنم لیا اور حبہ خانون سے لے کر آج تک کوئی بھی زمانہ ایسا دیکھنے کو نہ ملتا ہے جہاں ان خواتین قلمکاروں نے اپنا بھر پور حصہ ادا نہ کیا ہے اور اپنی مادری زبان کو آگے لینے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ عصر حاضر میں بھی چند نمایاں نسوانی آوازیں ہیں جو مردوں کے شانہ بہ شانہ اپنی قابلیت کے جو ھر دکھانے میں کسی سے کم نہیں اور ان ہی معتبر شخصیاتمیں ایک معتبر اور باوقار آواز کا نام شاداب یاسمین جی ہیں ۔ شاداب یاسمین جی ضلع پلوامہ کے ایک خوبصورت دلکش اور پر فضاء علاقہ کیلر کے ـ’’ناو جن ‘‘” نامی پہاڑی سلسلہ کے دامن میں واقع ما شوارہ گاؤں کے ایک علمی گھرانے سید غلام قادر شاہ کے ہاں 5 اپریل 1975تولد ہوئی اور اب یہ علاقہ پہاڑی ضلع شوپیاں کے معرض وجود میں آنے سے اُسی ضلع کے ساتھ ملایا گیا۔
چونکہ شاداب یاسمین کی والدہ سولنہ سری نگر کے ہفت چنار محلہ سے ہے جو اپنے والدین کی لاڈلی بیٹی تھی اِس لئے انہوں نے اپنی پوتی شاداب یاسمین جی کی پرورش تین سال کی عمر سےہی بڑے نازونعم سے کی اور اُن کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بھی اپنے سرلی کیوں کہ اُن دنوں گاؤں دیہات میں پرائیویٹ سکولوں کا رواج عام نہ تھا اور ٹرانسپورٹ سہولیات بھی اس قدر بہم نہ تھیں ۔ تو پانچ چھ برس کی عمر میں شاداب یاسمین کو ماڈرن ہائی سکول سولنہ میں درج کیا گیا جہاں انہوں نے میٹرک پاس کیا اور بعد ازاں مزید حصول تعلیم کی خاطر گورنمنٹ ہائر سیکنڈری سکول کو ٹھی باغ کا رخ کرنا پڑا جہاں انہوں نے 1995 کو بارہویں کا امتحان پاس کیا اور اس کے بعد آگے کی تعلیم پانے کی خاطر وومنزکالج مولانا آزاد روڈ سرینگر میں داخلہ لینا پڑا اور وہاں 2000ء میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ اسی اثنا میں اپنے ہی گاؤں ماشوارہ کے ایک اچھے اور علمی گھرانےکے سید غلام محمد شاہ نے اپنے فرزند مشتاق احمد شاہ کی خاطر شاداب یاسمین جی کا رشتہ مانگنے کی خواہش ظاہر کی جس کی حامی یاسمین جی کے والدین نے بھی بھرلی اور اس طرح شاداب یاسمین جی کا رشتہ بھی اسی سال یعنی 2000ء میں سید مشتاق احمد شاہ کے ساتھ طے ہوا۔ چونکہ یا سیمین جی کو تعلیمی میدان میں کافی آگے بڑھنے کا شوق تھا اور ان کے شوہر نے اپنی بیوی کا حوصلہ اور محبت دیکھ کر انہیں آگے کا تعلیمی سفر جاری رکھنے میں بھر پور تعاون دیا اور وفادار شریک حیات ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی دریا دلی کا بھی ثبوت پیش کیا۔ خوش قسمتی سے شاداب یاسمین جی کو اسی سال 2000ء میں رہبر تعلیم سکیم کے تحت محکمہ تعلیم میں روز گار کا بندوبست بھی ہوا۔ شادی کے بعد یاسمین جی کی باضابطہ رخصتی تین چار سال بعد ہوئی تاکہ اعلیٰ تعلیم حاصل ہونے کی پاداش میں کوئی خلل واقعہ نہ ہونے پائے اور اس دوران انہوں نے ملازمت کے ساتھ ساتھ IGNO کے ذریعہ کشمیر یونیورسٹی سے B.Ed بھی کیا اور 2011میں انگریزی مضامین میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔
چونکہ شاداب یاسمین جی کو محکمہ تعلیم میں رہ کر اردو ادب کا مطالعہ ہوتا گیا اور ان کے دل میں شاعری کا بھی شوق اُبلنے لگا ۔تو 2017میں پہلی بار اردو لغت شریف لکھی جو وہ بار بار پڑھتی تھی کیوں کہ اُسے یقین نہ آتا تھا کہ یہ اُن کی ہی تخلیق ہے۔ یہ لغت شریف انہوں پڑوسی گاؤں ویشرو کے ایک منجھے ہوئے شاعر جناب عبد الرحمان دلبر کو دکھائی جنہوں نے یاسین جی کی حوصلہ افزائی کی اور ساتھ ہی اردو کے بجائے اپنی مادری زبان میں طبع آزمائی کرنے کا مشورہ دیا جو یاسمین جی نےقبول کیا اور اپنی شاعری کا آغاز اپنی مادری زبان میں ہی کیا ۔ اُن کی شاعری کا شہرہ پھیلا اور اب وہ مختلف ادبی محفلوں میں شرکت کرنے لگی اور ادبی دنیا میںاپنا نام رقم کرنے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے لگی اور دلبر صاحب کو اپنا اُستاد بناتے ہوئے مزید فنی صلاحیت حاصل کی اور اُن ہی کے مشورہ پر قلمی نام شاداب یاسمین اختیار کر بیٹھی۔ ورنہ تو اُن کا اصلی نام سید یاسمین اختر شاہ ہے ۔ شاداب جی کو علم عروض میں بھی مہارت ہے جو وادی کے بزرگ اور نامور شاعر شیر علی مشغول دلنہ بارہمولہ سے حاصل کی ۔ بحر الحالشاداب یا سیمین جی مختلف صنفوں میں طبع آزمائی کر رہی ہیں خاص کر غزل نظم اور لغت ۔ ابھی اُن کی کوئی تصنیف منظر عام پر نہیں آچکی ہے اور امید ہے کہ مستقبل قریب میں اس مقصد میں بھی کامیابی حاصل کرنے والی ہے جس پر کام ہو رہا ہے ۔ گذشتہ دو تین سال سے ڈسٹرکٹ کلچرل سوسائٹی پلوامہ سے وابستہ ہیں۔ وہ کافی ذہین ہیں اور شریف النفس بھی ۔ بزرگوں کی قدر کرتی کرتی ہیں اور ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتی ہیں ۔ جب بھی مشاعرہ میں کلام پڑھتی ہے پورے مجمع کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے ۔ اس وقت پورے جنوبی کشمیر میں معتبر نسوانی آوازبن کر ابھری ہے ۔