افسانہ ۔۔۔۔۔ ایک فیصدی کا انسان 0

افسانہ ۔۔۔۔۔ ایک فیصدی کا انسان

راجہ یوسف

اے ے ے ے۔۔۔ سن سن سن۔۔۔ میں نناوے فیصد شیطان ہوں۔ شیطان کیا میں شیطان کا گرو ہوں اور وہ میرا چیلا۔ ہرصبح کام پر نکلنے سے پہلے شیطان مجھ سے ملنے آ جاتا ہے۔ ہاتھ جوڑ کر مجھ سے آگیا مانگتا ہے۔ گرو مہاراج آج میں کہاں سے شروع کروں۔ کس کا بھیڑا غرق کردوں، کس کی نیا پار لگا دوں۔ جب میں اسے اجازت دیتا ہوں تبھی کام پر نکل جاتا ہے۔ اچھے اچھے انسانوں کے قدموں کے آگے کیلے کے چھلکے پھینکتا ہے اور اپنے جیسے لوگوں کی پیٹھ تھپتھپاتا ہے۔۔
اے میرے ناداں دوست میری بات غور سے سن ۔ میں بلاوجہ نہیں مار رہا ہوں تم کو ۔ جان بوجھ کر خون کر رہا ہوں تمہارا۔ ہاں ہاں جلتا ہوں میں تم سے ۔ تمہاری کامیابیوں سے میرا دل لہو لولہان ہے ۔ مجھے میری ناکامیوںسے نفرت ہے ۔ اپنی نا اہلی سے مجھے بیر ہے۔ مجھے معلوم ہے میں تجھ سے تیری ذہانت ، تیری قابلیت تم سے چھین نہیں سکتا۔ لیکن تجھے نیست نابود کرکے تیری کامیابیوں پر قدغن تو لگا ہی سکتا ہوں نا۔۔ ۔
اے ے ے ے۔۔۔ سن سن سن۔۔۔ میں نناوے فیصد شیطان ہوں۔ شیطان کیا میں شیطان کا گرو ہوں اور وہ میرا چیلا۔
سن لڑکی۔۔۔ مجھے جو چیز اچھی لگتی ہے، اسے میں حاصل کرکے ہی رہتا ہوں۔ اور میرے لئے تم بھی ایک چیز سے زیادہ کچھ نہیں ہو۔ تیرا اغوا کیسے کرنا ہے یہ مجھ سے بہتر کون جانتا ہے۔ تیرے کپڑے کھرچ کھرچ کے کیسے کھرچنے ہیں مجھے پتہ ہے۔ اس کے بعد تیرا کیا حشر ہونے والا ہے وہ تیرے لئے بہت ہی بھیانک ہوگا لیکن میرے لئے اس میں مزہ ہے، سواد ہے، موجا ہی موجاں ہے۔ تیری چیخیں بند کرنے کے لئے مجھے تیرا منہ بند کرنے کی ضرورت نہیں ہے ، میں سیدھا گلہ کاٹ دیتا ہوں۔
اے ے ے ے۔۔۔ سن سن سن۔۔۔ میں نناوے فیصد شیطان ہوں۔ شیطان کیا میں شیطان کا گرو ہوں اور وہ میرا چیلا۔
تیرا سرکاری کنٹریکٹ ہے نا۔ یہاں بہت بڑا اسپتال بنانا ہے نا تجھے۔ جہاں ڈاکٹر ہونگے ۔ نرسیں ہونگی ۔ مریضوں کا علاج ہوگا۔ پر تیرا علاج میرے پاس ہے۔ تیر ا ڈاکٹر میں ہوں۔ مجھے معلوم ہے تجھے کونسی بیماری لگی ہے۔ اسپتال کی دیواریں بنانے میں دو نمبر کی باجری ریت کے ساتھ دھول مٹی والا سیمنٹ ملائے گا۔ سرکاری کارندوں کے آشیرواد سے ستر فیصد رقم مل بانٹ کے کھائے گا۔۔۔ پہلے میرا حصہ نکال، باڑھ میں جائے تیرا اسپتال، مریض اور ڈاکٹر۔ تیرا کلیجہ چیر کے نکالوں گا میرا حصہ۔ اے ے ے بلیک میلر ہوگا تیرا ۔۔۔۔ میرا حصہ میرے اکونٹ میں ڈال دے۔ نہیں تو تیرا اکونٹ بند کر دوں گا ۔۔۔ خلاص۔
اے ے ے ے۔۔۔ سن سن سن۔۔۔ میں نناوے فیصد شیطان ہوں۔ شیطان کیا میں شیطان کا گرو ہوں اور وہ میرا چیلا۔
وہ ہمارے عقیدے کے لوگ نہیں ہیں۔ ان کا ہماری زمیں پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ کوئی ادھیکار نہیں ہے۔ بھون ڈالو سب کو۔ جہاں بھی موقعہ ملے بھسم کر دو ان کو۔ سنو تمہارے کارخانے میں جو یہ چھوٹے چھوٹے چوزے پل رہے ہیں نا یہ ہمارے سب سے بڑے ہتھیار ہیں۔ ایٹم بم ہیں ہمارے۔۔۔ ان کو مقدس کتاب سے اپنے مطلب کے پنے پڑھا لو ۔ ان میں مرنے کا شوق اور جنت کی چاہت بڑھا لو۔ تاکہ شہد کی نہروں کا مزا اور حوروں کا چسکہ ان کو دن رات بے قرار رکھے ۔ ان کی شریانوں کا خون بڑھا دیں۔۔۔ آج ایک ننھے بالک کو تیار کرلے۔اسے جمعہ کی عبادات کے ثواب سمجھا دینا۔ نہلا دھلا کے عطر و اد فر سے اس کا جسم مل دینا ۔ بچے کو پوری طرح سے سجا نا سنوار دینا۔ سفید لباس پہنا دینا تاکہ وہ خشوع خضوع اور مضبوط عقیدت کے ساتھ یہاں سے رخصت ہوجائے۔ کرتہ پاجامے کے اندر اس کے سارے جسم پر بارود باندھ کر رکھنا ۔ اسے جمعہ کے دن شہر کی سب سے بڑی جامع مسجد میں بھیج دینا ہے۔ اور ریموٹ میری گاڑی میں رکھ دینا ۔ اس کے غریب باپ کو گذارے کے لئے ایک لاکھ کے ساتھ بچے کے نام خیرات اور فاتحہ خوانی کے لئے بھی بیس تیس ہزار بھیج دینا۔ تاکہ اسے لگے کہ مرنے کے بعد بھی اس کا بیٹا سوا لاکھ کا۔
بیٹا۔۔۔ بیٹا دیکھنا باہر کون ہے ۔ ماں یہ کوئی مائی ہے جو کھانا مانگ رہی ہے ۔ کیا ۔۔۔ کھانا نہیں ہے۔ ماں میرے کھانے کی دو روٹیاں دے دے ۔۔ماں۔ بھوکی ہوگی بے چاری ۔۔۔
اے ے ے بابا کیا بات ہے ۔ ۔۔ اووو اتنا بیمار ہے ۔ کچھ مدد چاہئے نا ۔ لیکن بابا میں زیادہ مدد نہیں کرسکتا ۔ پیسے نہیں ہیں میرے پاس۔ غریب آدمی ہوں بابا۔ خون کی ضرورت ہے۔ ۔۔ ہاں خون کی ضرورت ہے تو جتنا چاہئے میری رگوں سے نکال دے ۔ تیرا بیٹا بچ جائے گا ۔ غم نا کر بابا ۔۔۔
لے بھائی ۔ بس دو کنگن ہیں ۔ میری ماں نے اپنی بہو کے لئے رکھے تھے ۔ وہ کیا ہے کہ میں ابھی شادی کرنا نہیں چاہتا ۔ تو رکھ لے بھائی۔ ابھی تیری بہن کی شادی ہوجانے دے۔ میری بیوی کے لئے نئے کنگن آجائیں گے ۔ لے بھائی رکھ لے ۔
اے ے ے بھاگوان یہ کیا کر رہی ہو تم۔ چھوٹی بچی ہے۔ پانچ پانچ دس دس روپئے کی کنگھی، چوڑیاں بیچ رہی ہے ۔ یہ دیکھ یہ بالوں میں باندھنے والا ربن کیسا لال لال ہے ۔ دیکھو نا بچی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتی ۔ اپنے ہاتھ سے کام کرکے کچھ کمانا چاپتی ہے ۔۔۔ کیا بولی۔۔۔ تم ایسی سستی چیزیں نہیں خریدتی ۔۔۔ ارے خرید لے یار۔ یہ سوچ کے خرید لے کہ بچی بھوکی ہوگی ۔ تیرے بیس تیس روپئے سے روٹی کھائے گی ۔۔۔ اے ے ے بیٹا دے سو روپئے کے ۔۔۔ ہاں یہ لال اور یہ نیلا ربن دے ۔ یہ کھنکتی چوڑیاں بھی دے دیں۔ یہ بالوں کو سنوارنے والی کنگھیاں بھی دے دیں۔
’’ یہ کیا کر رہا ہے ۔ایک پل میں شیطان ، دوسرے پل انسان ۔۔۔ یہ کیا ہے ۔‘‘
’’ یہ ایک فیصدہے ۔جو میں کرتا ہوں ۔ ‘‘
’’اور وہ باقی ننانوے فیصد ؟ اے ے ے ے۔۔۔ سن سن سن۔۔۔میں نناوے فیصد شیطان ہوں۔ شیطان کیا میں شیطان کا گرو ہوں اور وہ میرا چیلا۔۔۔ وہ کیا ہے ؟؟ ‘‘
’’ارے ے ے ے وہ ۔۔۔ وہ ننانوے فیصد میرا شیطان۔۔۔ میرا نفس ہے ۔۔۔ یہ ایک فیصد میرا زندہ ضمیر ہے۔۔۔ ارے بابا انسان ہوں آخر ۔ ‘‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں