کشمیر کے انتخابات اور ۔حال احوال 0

کشمیر کے انتخابات اور ۔حال احوال

رشید پروین ؔ سوپور

چوتھے مر حلے میں ۱۰ ریاستوں اور مر کزی زیر انتظام علاقوں کی ۹۶ نشستوں کے لئے وؤٹ ڈالے جاچکے ہیں سینکڑوں امیدواروں کی تقدیریں ای وی ایم مشینوں میں بند ہو چکی ہیں ، اس بار جس بات کا شور ہے وہ اپنی نوعیت اور ماہیت میں بلکل منفرد اور الگ ہے کیونکہ جہاں بی جے پی کانگریس پر یہ الزامات لگا رہی ہے کہ وہ مندروں کی ارضیات ، ہندوؤں کی جائدادیں اور یہاں تک کہ ماؤں بہنوں کے منگل سوتر تک چھین کر در اندازوں کو دے دیدیں گے وہیں کانگریس اور سارا الائنس اس بات پر متفق ہے کہ یہ انتخابا ت جمہوریت کی بقا اور آئین کی بالا دستی کے لئے لڑے جارہے ہیں ،اس لئے شاید یہ جمہوریت کے لئے آخری جنگ بھی سمجھی جاسکتی ہے ،یہ دونوں دعوے نہ صرف زبردست اہمیت کے حامل ہیں بلکہ ان کے سامنے جیسا کہ ظاہر ہے تمام چھوٹے چھوٹے مدعے پس، پشت ہوچکے ہیں ، یعنی اصل مدعے اور عوام کی بنیادی ضرورتوں پر مودی سرکار کی توجہ بلکل نہیں ہے ۔اگر چہ کانگریس نے اپنے مینی فیسٹیو کو بڑی حد تک متوازن رکھا ہے اور عوام کے لئے بہت سارے بلکہ ڈھیر سارے فلاحی پروگرام رکھے ہیں ۔ اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عوام کس کا انتخاب کرے گی ۔ دعوے دونوں طرف سے آتے رہے ہیں اور نتائج تک آتے رہیں گے لیکن اصل حقیقت یہی ہے کہ ان بند ڈبوں کے اندر اسوقت جھانکنا ناممکن ہی ہے اور اکثر و بیشتر قیاس آرائیاں درست ثابت نہیں ہوتی ، جموں و کشمیر کے ایک حلقے سرینگر میں وؤٹنگ ہوچکی ہے اور ظاہر ہے بہت سارے امیدوار محبوب کی گلیوں میں دھونی رما کے بیٹھ چکے ہیں اور منتظر ہیں کہ’ وہاں سے حکم کس کے نام آئے گا ‘یہ اس لئے لکھا ہے کہ کشمیر کے انتخابات شروع سے ہی الگ اور منفرد حیثیت کے حامل رہے ہیں ، ستر برس کی تاریخ میں سوائے ایک بار کے کبھی یہاں کے انتخابات نے فیصلے نہیں سنائے ، وہ اسمبلیاں ہوں یا پارلیمان،، یہ محبوب کی مرضی پر ہی منحصر ہوتا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے اور وہی ہوتا ہے ۔اس کے باوجود کہ عوام ایک دن کا جشن ضرور مناتے ہیں ، بہر حال جموں و کشمیر سرینگرمیں بڑی مدت کے بعد ۳۷فی صد وؤٹ ریکارڈ ہوئے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ دہائیوں بعد یہ پرسنٹیج ریکارڈ ہوئی ہے ، نیشنل کانفرنس نے یہاں سے آغا روح اللہ کو منڈیڈیٹ دیا ہے ،اگر چہ میرا خیال ہے کہ سیاسی حلقوں میں یہ نام لگ بھگ بے نام سا ہے یا ہمیں ہی کہیں سیاسی افق پر کبھی نظر نہیں آیا ہے ، اس سے منڈیڈیٹ دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ این سی نے اس طرح سے اہل تشیع کا وؤٹ بینک اپنے لئے محفوظ بنادیا ہے، دوسری طرف پی ڈی پی کے وحید الرحمان پرہ مقابلے میں ہیں یہ صاحب جانے پہچانے ہیں اور شروع سے ہی پی ڈی پی کے ساتھ منسلک رہے ہیں اور پی ڈی پی کے اچھے ورکر کے علاوہ خاصے معاملہ فہم ہیں اور آگے ایک اچھے ویٹرن سیاست داں کی حیثیت سے سیاسی حلقوں میں اپنی پہچان بنائیں گے ،، سرینگر حلقے سے ہی سید الطاف بخاری کی اپنی پارٹی سے محمد اشرف میر میدان میں ہیں ، سید الطاف جیسا کہ آپ جانتے ہیں بزنس کے لحاظ سے سے معروف رہے ہیں اور اب سیاست میں بھی اچھی خاصی پہچان اور مقام رکھتے ہیں لیکن ان کے یہ نامزد امید وار بھی بہت ہی کم جانے مانے جاتے ہیں ، میرے خیال میں یہ پیشگوئی بڑی آسانی کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ یہاں میدان این سی مار لے گی ، میں نے ان ہی کالموں میں پچھے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ کشمیر ی عوام کا وؤٹ رد عمل کے طور پر اس پارٹی کو پڑتا ہے جس کی بھر پور مخالفت مرکزی سر کا ر کرتی ہے ،یہ ایک آزمودہ فارمولہ ہے اس لحاظ سے جتنی مخالفت بی جے پی نے این سی یا عبداللہ خاندان کی ، کی ہے اس لحاظ سے یہ آسانی سے کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر کی تینوں سیٹوں پر این سی کے امیدواروں کی جیت کے مواقع بہت زیادہ بنتے ہیں ،، بی جے پی ایسا جانتی ہے اور اس کے باوجود نادانستہ ،یا دانستہ این سی کو سپورٹ کرنا ،، یہ بڑے سیاسی پنڈت ہی بتا سکتے ہیں۔ سرینگر میں اور بھی درجنوں امیدوار میدان میں تھے ۔شاید شوقیہ یا ان کے پیچھے کسی اور ہاتھ تھا یا نہیں ۔اس پر تبصرہ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ الیکشن کی شام کو ہی سمجھ چکے تھے کہ ان کی امیدیں شام کے سائیوں کے ساتھ ڈھل چکی ہیں ، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وؤٹنگ شروع ہونے سے چند گھنٹے پہلے ایڈ منسٹریشن کی طرف سے چناوی سر گرمیوں پر کچھ پابندیاں بھی لگائی گئیں ،، اس کی وجوہات بہر حال ایڈ منسٹریشن ہی بتا سکتی ہے لیکن کشمیر نشین سیاسی پارٹیوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کے ورکروں کی پکڑ دھکڑ ہوئی ہے اور انہیں تھانوں میں بند کردیا گیا ہے ، ، یہ دعویٰ مشترک طور پر این سی ، پی ڈی پی سجاد غنی لون اور سید الطاف بخاری نے بھی کیا ہے ، پولیس ترجمان نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ ’پولیس امن و قانون بر قرار رکھنے میں عہدہ بند ہے ،، ظاہر ہے کہ ان ورکروں کو امن امان کی صورتحال بر قرار رکھنے کے سلسلے میں بند کیا ہوگا اور اب یہ پولیس ہی جانتی ہے کہ ان ورکروں سے امن و اماں بگڑنے کا کیسے احتمال تھا ؟، سرینگر حلقے سے وحید الرحمان پرہ نے اس سلسلے میں ایک پولیس آفیسر کا نام بھی لیا ہے اور ان کے مطابق وہ ان گرفتاریوں کے لئے ذمہ دار ہیں ،شاید بی جے پی کے ایک ترجمان نے بھی اسی پسِ منظر میں یہ کہا ہے کہ’’ بالا زمین ورکروں کی گرفتاری ہوئی ہے جو بائیکاٹ مہم میں ملوث تھے ‘‘ انہیں کس طرح معلوم ہوا تھا کہ یہ افراد بالا زمین ورکر ہیں اور الیکشن بائیکاٹ مہم چلارہے ہیں ،، یہ ان کے اپنے ذرائع ہی ہوسکتے ہیں ، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان افراد کی گرفتاری کے احکامات کلیدی عہدے داروں کی جانب سے ہی دئے گئے ہوں گے ۔ پی ڈی پی امیدوار وحید الر حمان پر ہ نے دو قدم آگے بڑھ کر بی جے پی کی قیادت کو انتباہ دیا ہے کہ’’ وہ ۱۹۸۷ کے طرز پر الیکشن فراڈ کا راستہ اختیار نہ کرے، کیونکہ اس کے نتائج خطرناک نکلیں گے ‘‘شاید آپ نہ جانتے ہوں کہ ۱۹۸۷میں جمہوری دلہن کو بر سر بازار برہنہ کیا گیا تھا جب وؤٹ کسی کے حق میں تو صرف اعلان کسی اور کی جیت کا کیا گیا تھا ، اور واقعی اس طرح بر ملا اور دن دھاڑے کی چوری اور سینہ زوری کے نتائج ملی ٹینسی کی لہر میں بر آمد ہوئے تھے ، جس سے یہ سارا پیریڈ لہو لہاں تو ہے ہی بلکہ اب بھی کشمیر اس کے نتائج بھگت رہا ہے ، مجھے بھی لگتا ہے کہ ایک بار کشمیری عوام کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق دیا جانا چاہئے اور پھر ان کے چنے ہوئے نمائندے ہی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں نظر آئیں تو یہ جمہوری اقدار کی نہ صرف پاسداری ہوگی بلکہ سارا بھارت بھی ا ن شکوک اور شبہات سے نجات پائے گا جو کشمیری عوام سے متعلق ان کی نیندیں چرائے ہوئے ہے، اس کا دوسرا اور سب سے بڑا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ دونوں طرف سے ایک دوسرے پر اعتماد کی فضا بحال ہو جائے گی جو پچھلے ستر برس میں نہیں ہوسکی ہے ، سید الطاف بخاری نے بھی اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ ورکروں کو ہراساں اور گرفتار کرنے کا مطلب یہی بنتا ہے کہ الیکشن نتائج کے ساتھ فراڈ کیا جاسکتا ہے ،، بخاری کا دعویٰ یہ بھی تھا کہ این سی اور پی ڈی پی نے ایڈ منسٹریشن کے ساتھ مل کر ساز باز کرکے ہمارے ورکرس کو ہراساں کیا ہے ، صاف ظاہر ہے کہ وہ اپنے خلاف کسی سازش کا عندیہ دے رہے ہیں ، حالات اور واقعات تو ایسا کچھ اشارہ نہیں دے رہے ،سوائے اس کے کہ ، بی جے پی نے این سی کی مخالفت اور عبداللہ خاندان کے خلاف اپنی خاصی بھڑاس نکالی ہے جس کا براہ راست فائدہ این سی کے لئے ناگزیر بنتا ہے ،، بہر حال چناو کیمشن نے ان سب شکایات پر اپنے لب سی لئے ہیں اور کسی قسم کا کوئی بیان نہ جاری کیا اور نہ شکایات کا ازالہ فوری طور کیا ہے ، یوں بھی کشمیر کے اب تک کے تمام انتخابات اس بات کے گواہ ہیں کہ چناؤ کیمشن یہاں کشمیر کی حد تک کبھی غیر جانبدار نہیں رہا ہے بلکہ ماضی کے تمام انتخابات میںوہ سرکار کی مرضی اور منشا ہی کو اپنا لائحہ عمل قرار دیتا آیا ہے اور یہ انتخابات کسی طرح اس پالیسی سے جداگانہ نہیں ہوسکتے ، کشمیر کے تینوں حلقوں سے پارلیمانی نشستوں پر کون براجمان ہوگا ، اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن میں اس بات کو بعید بھی نہیں سمجھتا کہ این سی تینوں حلقوں میں اپنی جیت درج کرے گی ، کیونکہ میں پھر یہی کہوں گا کہ موجودہ سرکار نے بھی این سی کے خلاف کافی بیانات دئے ہیں جس کے ردِ عمل میں وؤٹ اس جماعت کو پڑنا لازمی ہے ، اب یہ نادانستہ بات ہے یا دانستہ اس فارمولہ کو اپنایا گیا ہے ، اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا اگرچہ اس بار خاصی ووٹنگ ہوئی ہے یعنی سرینگر میں ۳۷ فیصد جو ۸۷ کے بعد سے ایک ریکارڈ بنتا ہے لیکن ماضی میں یہاں کے وؤٹ کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں رہی ہے بلکہ وؤٹ سے زیادہ سنگ آستاں پر سجدہ ریزی کے انعام ہی میں اقتداری دلہن مختلف اوقات میں مختلف اشخاص کی بانہوںمیں آگری ہے اور یہ سب نظر کرم کا فیض ہی ثابت ہوتا تھا ،،، بہر حال تین حلقوں سے کون کون پارلیمنٹ پہنچ جاتا ، کشمیری عوام کیلئے یہ کوئی خاص اہمیت کی بات نہیں ، کیونکہ یہ ہمارے نمائندے اپنی ذات اور پارٹی مفادات کی تھوڑدی سی نگہبانی کے علاوہ اور کر کیا سکتے ہیں ؟، یہ لوگ وہاں پہنچ کر پانچ سال کے دوران کبھی عوام کے مسائل ، بجلی پانی سڑکیں ،ہسپتالوں کی بات نہیں کریں گے ، اور کبھی ان باتوں کو زباں پر لانے کی ہمت بھی نہیں کریں جن سے انتخابا ت کے دوران یہ عوام کو گمراہ کرتے ہیں ، ۳۷۰، ۳۵ اے ریاست کی بحالی ، زمینوں اور ملازمتوں کی حفاظت ، اور بہت سارے مسائل جنہیں ابھی یہ پارلیمانی اور اسمبلی انتخابا ت میں نریٹیو بنائیں گے ، لیکن پارلیمان میں پہنچ کر یہ کبھی ان مسائل کے بارے میں زباں کھولنے کی ہمت نہیں جٹا پائیں گے ،یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ کشمیر کے تین حلقوں سے حصہ لینے والی پارٹیوں نے زمین اور آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے حیرت انگیز اور ناقابل فہم بیانات دے کر وؤٹر کا من لبھانے کی کوششیں کی ہیں ، جس میں سو فیصد روز گار ،،ریاستی درجے کی بحالی ، تین سو یونٹ تک بجلی کی مفت فراہمی ،پاور پروجیکٹوں کی واپسی وغیرہ جیسے ناقابل فہم دعوے بھی کئے گئے ہیں ’’ کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا ‘‘ پتہ نہیں عوام اتنی سادہ ،جاہل اور ان پڑھ ہے کہ وہ ان خوابوں کو خرید لیتے ہیں یا ہماری سیاسی جماعتیں اپنے ساتھ کوئی جادو ٹونا بھی رکھتی ہیںجس سے ان دعوؤں کو سمجھنے کی صلاحیت ہی صلب ہوجاتی ہے ،،،،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں