ردّی کاغذ۔۔۔۔۔ (افسانہ) 0

ردّی کاغذ۔۔۔۔۔ (افسانہ)

فاضل شفیع بٹ

خزاں کا موسم اپنے شباب پر تھا۔ درختوں کے سبز پتے پوری طرح سے زرد ہو چکے تھے۔ ہر سمت زمین پر زرد پتوں کا قالین بچھا ہوا تھا۔ کاشف چوتھی جماعت کے سالانہ امتحان سے فارغ ہو چکا تھا۔ سال بھر کتابوں سے دوستی کے بعد کاشف نے کتابوں کو الوداع کہہ کر اپنے گاؤں کے دوستوں کے ہمراہ وقت گذارنا شروع کیا تھا۔ امتحانی نتائج کا اعلان ہونے میں چند ماہ کا فاصلہ تھا۔ کاشف صبح تڑ کے ہی اپنے دوستوں کے ہمراہ گھر سے نکل کر گاؤں کےگلی کوچوں میں گلی ڈنڈے سے خوب لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اسکول اور کتابوں کا خیال اس کے دل و دماغ سے کوسوں دور تھا۔ وہ اپنے بچپن کو خوبصورت اور یادگار بنانے میں مگن تھا کیونکہ یہی وہ دن تھے جن کی حسین اور معصوم یادیں تا عمر کاشف کے دل و دماغ کے نہا خانوں میں جگمگاتی رہتیں۔
سوموار کو امتحانی نتائج کا اعلان ہونا تھا۔ کاشف کو نتائج کی کوئی فکر نہ تھی کیونکہ وہ ایک ذہین طالب علم تھا۔ سارے بچے اپنے والدین یا بھائی بہن کے ہمراہ اسکول آئے تھے۔ بچے نئی نئی جماعتوں میں منتقل ہو رہے تھے۔ کاشف نے چوتھی جماعت میں امتیازی پوزیشن حاصل کی اور یہ خوشخبری سنانے کے لیے اپنی گھر کی جانب چل پڑا۔
گھر پہنچتے ہی کاشف چوتھی جماعت کی کتابوں کو ٹٹولنے لگا کیونکہ اب وہ پانچویں جماعت کا طالب علم تھا اور چوتھی جماعت کی کتابوں کو بیچنے کا وقت آیا تھا ، ایسا وقت جس کا کاشف کو بے صبری سے انتظار تھا۔ اب وہ اپنی پرانی کتابوں کو بیچ کر اپنے لیے نئی کلاس کی کتابیں خرید سکتا تھا۔ کاشف نے اپنی کتابیں سنبھال کے رکھی ہوئی تھیں اور خاص کر جہاں کتابوں کی قیمت لکھی رہتی ہے، اس حصے کو کاشف نے سلیقے سے سنبھال کے رکھا تھا۔ کاشف کتابوں کی قیمت کو ہاف ریٹ پر جمع جوڑ کرنے لگا۔ اس نے پچھلے سال ان کتابوں کو ہاف ریٹ پر خرید لیا تھا اور آج ان کتابوں کا تخمینہ ایک سو پچاس روپے ہو رہا تھا۔ بہت سے بچے کاشف کے گھر ہاف ریٹ پر کتابیں خریدنے کے لیے وارد ہوئے۔ بالآخر کاشف نے اپنے ایک ساتھی کو ایک سو پچاس روپے کے عوض اپنی چوتھی جماعت کی کتابیں فروخت کیں اور اپنے لیے پانچویں جماعت کی کتابیں خریدنے کے لیے دوستوں کے گھروں کے چکر لگانے لگا اور جلد ہی پانچویں جماعت کی کتابیں ہاف ریٹ پر خریدنے میں کامیاب رہا۔ پانچویں جماعت کی کتابوں کی قیمت ایک سو اسی روپے طئے ہوئی اور کاشف نے ایک سو پچاس روپے ادا کر کے باقی کے تیس روپے جلد ہی لوٹانے کا وعدہ کیا۔
اپنی تعلیم مکمل کرنے تک کاشف نے ہمیشہ ہاف ریٹ پر کتابیں خریدنے اور فروخت کرنے کا عمل جاری رکھا اور تعلیم مکمل ہوتے ہی کاشف کو ایک اچھی سرکاری نوکری حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ کاشف کی شادی ہوئی اور اللہ نے کاشف کو ایک خوبصورت بیٹے سے نوازا۔ کاشف کا بیٹا نوید آٹھ سال کا ہو چکا ہے اور پہلی جماعت کا طالب علم ہے۔ پچھلے سال کاشف نے نوید کے لیے نرسری کی کتابیں دو ہزار میں خرید لی تھی اور آج نوید کے لیے پہلی جماعت کی کتابیں چھ ہزار روپے میں خرید کر گھر واپس آیا تھا۔
گھر پہنچ کر کاشف نوید کی نرسری کی کتابوں کی ہاف ریٹ کا تخمینہ لگا رہا تھا، اس کے بچپن کے وہ سہانے دن آنکھوں میں خوابوں کی طرح سمائے ہوئے تھے۔ وہ ان خوابوں کو بار بار دیکھنا چاہتا تھا۔ آج ہاف ریٹ کتابیں خریدنے اور فروخت کرنے کا عمل ختم ہو چکا تھا کیونکہ ہاف ریٹ پر کتابیں خریدنے والا بچہ خود کو کمتر سمجھنے لگا تھا اور اسکول میں بھی ایسی چیزوں کی اجازت نہیں تھی۔ زمانہ انسان کو ہمیشہ اپنا آدھا ہی چہرہ دکھاتا ہے۔ کبھی یہ چہرہ ایک خوبصورت عورت کے حسن کی طرح بڑا حسین اور دلفریب ہوتا ہے اور کبھی یہ چہرہ ایک بد نما داغ کی طرح ہوتا ہے جسے انسان کو گِھن آتی ہے۔ ایک ایسی عورت کا چہرہ جس کے آدھے حصے پر کسی نے تیزاب چھڑک دیا ہو اور وہ اس آدھے چہرے کو ہمیشہ دوسروں سے چھپا کے رکھتی ہو۔ کاشف نے بچپن میں زمانے کا وہ دلفریب آدھا چہرہ دیکھا تھا اور آج وہ زمانے کا وہ چھپا ہوا آدھا مکروہ چہرہ دیکھ رہا ہے۔
کاشف نے نوید کی پچھلے سال کی کتابیں، جو نہایت ہی سلیقے سے سنبھال کے رکھی ہوئی تھیں، ایک ردّی کاغذ خریدنے والے کباڑی کے ہاتھ محض تیس روپے کے عوض فروخت کیں۔
��������
فاضل شفیع بٹ
اکنگام ،انت ناگ
رابطہ:9971444589

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں