اشفاق حسین
عطیہ ربانی کا تعلق لاہور سے ہے۔دو بھائیوں کی بڑی بہن ہیں۔بی اے کرنے کے بعد وہ بیلجیئم چلی گئیں جہاں سرکاری زبان فرانسیسی ہے۔پہلے تو بڑی مشکل پیش آئی لیکن وہ ثابت قدمی سے نئی زبان سیکھنے کی کوشش کرتی رہیں اور بالآخر انھیں کامیابی نصیب ہوئی۔اب وہ اردو میں لکھتی ہیں تو جیسے ہمارے ہاں کے لکھاری انگریزی کے الفاظ اور محاورے اپنی تحریر میں استعمال کرتے ہیں وہ بھی فرانسیسی زبان کے الفاظ استعمال کرتی ہیں جس سے ان کی تحریر میں تنوع پیدا ہوا ہے۔
ان کے ناول کی وجہ تسمیہ تو ان کے لکھے ہوئے دیباچے سے واضح ہو جائے گی ہمیں صرف یہ کہنا ہے کہ تکنیکی لحاظ سے ان کے پلاٹ کی بُنت سڈنی شیلڈن کی ناولوں جیسی ہے۔ان کے ہاں پلاٹ کا کینوس اتنا وسیع ہو جاتا ہے کہ قاری حیران ہوتا ہے کہ یہ ناول سمٹے گا کیسے۔ عطیہ کے اس ناول میں بھی شروع میں الجھن پیدا ہوتی ہے کہ مصنفہ بات کو کہاں سے کہاں لے جا رہی ہیں اور آخر میں بات سمٹے گی کیسے لیکن پھر وہ انتہائی چابک دستی سے کہانی کے اختتام کی طرف بڑھتی ہیں اور قاری کے ذہن میں اٹھنے والے سارے سوالوں کے جوابات ملتے چلے جاتے ہیں۔اگر قاری کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات اور ان کے جوابات کا یہاں ذکر کیا جائے تو ناول کا تجسس جاتا رہے گا اور تجسس کا عنصر ہی تو ناول یا کسی ڈرامے کی جان ہوتا ہے۔
ناول کی ایک انفرادیت جیسے ہم نے شروع میں ذکر کیا فرانسیسی زبان کے الفاظ اور محاوروں کا استعمال ہے۔ ہم مغربی طرزِ تعلیم کو چاہے کتنا برا کہیں ان کی ایک بات بہت اچھی ہے کہ وہ اپنے طلباء کو اپنی مادری زبان کے علاوہ کم از کم دو زبانیں ضرور سکھاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اچھے سکولوں میں آرٹس کے طلباء کو عربی یا فارسی پڑھائی جاتی تھی۔اب دونوں زبانوں کو دیس نکالا دے دیا گیا ہے۔ برصغیر میں مغلوں کے دور حکومت میں سرکاری زبان فارسی تھی۔ عام لوگ فارسی خوب سمجھتے تھے اسی لیے شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے قرآن مجید کا فارسی میں ترجمہ کیا۔ قرآن مجید کا یہ پہلا ترجمہ تھا جو قرآن کے نزول کے تقریباً تیرہ سو سال بعد کیا گیا۔پھر ان کے بیٹوں نے اردو میں ترجمہ کیا۔ فارسی کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ علامہ اقبالؒ کے کل پندرہ ہزار اشعار میں سے نصف سے زیادہ فارسی میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا اصل کلام وہ ہے جو فارسی میں ہے۔اردو نوزائیدہ زبان ہونے کی وجہ سے میرے خیالات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ خلافت عثمانیہ کے دنوں میں بھی سرکاری زبان فارسی تھی۔ استنبول کے توپ کاپی محل کے داخلی دروازوں اور محرابوں کے اوپر جو کچھ لکھا ہوا ہے، فارسی زبان میں ہے۔ جو آج کل کے گائیڈ پڑھ سکتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں۔
عطیہ کا یہ ناول ایک طرح سے ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہے جو اردو زبان میں ایک نئی زبان کو متعارف کروا رہا ہے۔موضوع کے لحاظ سے عطیہ ربانی کا یہ ناول عمیرہ احمد کے ناولوں سے ملتا جلتا ہے جیسے عمیرہ احمد کا ناول’’پیر کامل‘‘ختم نبوت کے عقیدے کے گرد گھومتا ہے۔ ایک اور ناول’’حاصل‘‘میں توجہ اور محبت کا طالب ایک لڑکا دو لڑکیوں کے عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ایک اسے اسلام کے خلاف بغاوت پر اکساتی ہے اور دوسری اسے اسلام کی طرف لانا چاہتی ہے۔ عطیہ ربانی کا ناول محض فکشن نہیں ہے بلکہ ان مسائل کا احاطہ کرتا ہے جو پردیس جانے والے مسلمانوں کو پیش آتے ہیں۔ان مسائل کو انھوں نے ناول کی بُنت میں سمو کر دلچسپ بنا دیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ پردیس میں بسنے والے لوگ اس ناول کو شوق سے پڑھیں گے اور پاکستان اور انڈیا میں بھی یہ ناول ادبی حلقوں میں مقبول ہوگا۔
����