عبدالرحمان فدا
جنوبی کشمیر جس کو مراز کے تو ار یخی نام سے بھی جانا جاتا ہے گذشتہ کئی صدیوں سے علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے اور ضلع پلوامہ بھی اس اعتبار سے پیش پیش رہا ہے کیوں کہ ضلع پلوامہ کی سر زمین سے ان گنتعہد ساز شخصیات پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی مادری زبان کی خوب آبیاری کی ہے جس کا اعتراف پوری وادی کو ہے ۔ اسی ضلع کا ایک پرگنہ شاہورہ ہے جہاں سے بھی کئی ایک نامور ادبی شخصیات نے ادبی میدان میں مختلف ادوار میں مہکتے گل کھلوائے ہیں جن میں بلند قامت صوفی شاعرمومن صآب شنوی نگار کبیر میر اور انقلابی شاعر پیر زادہ غلام نبی ظہور کا نام لینا ضروری ہے جب کہ کئی ایک شخصیات گمنامی کی نظر ہوچکے ہیں جن کا کلام بھی اب دستیاب نہیں ہے ۔ البتہ ان گمنام شعر اء میں قادر میر یا ڈیر کا قلیل کلام موجودہ دور کے شاعر جناب رشید صدیقی کے ساتھ لگا ہے جس نے اس بار یافت کلام کو کتابچہ کی شکل میں چھاپ کروایا ہے ۔ آج کے اس مادی دور میں بھی اس پرگنہ میں چند کہنہ مشق شعراء اس مشن کو چار چاند لگانے میں سرگرم عمل ہیں جن میں قصبہ نما گاؤں لیتر کے بالکل قرب و جوار میں ایک چھوٹا سا گاؤں چودھری باغ ہے جہاں یکم جنوری 1956 ء کو زمیندار پیشہ غلام محمد بٹ کے ہاں ایک لڑکا تولد ہوا ۔جس کا نام یوسف رکھا گیا جو اب اپنا قلمی نام یوسف دلدار اختیار کر رہا ہے ۔ یوسف دلدار کو گورنمنٹ ھائی سکول لیتر میں بغرض تعلیم داخل کیا گیا اور 1972-73 میں میٹرک پاس کیا اور مزید تعلیم حاصل کرنے کا ارمان پورا نہ کر سکا کیوں کہ دس گیارہ برس کی عمر میں ہی اُس کے سر سے والدہ کا سایہ اُٹھ گیا اور مرحومہ خود بھی جوان سال تھی ۔ ان حالات کے پیش نظر بعد مشکل دسویں تک تعلیم حاصل پانے کے بعد یوسف دلدار کی شادی کم عمری میں ہی طے ہوئی کیوں کہ ان کی والدہ کے وفات کے بعد گھر میں کوئی متبادل انتظام نہ تھا جو گھر کی نسوانی ذمہ داریاں اپنے سر لیتی اور اُسے خود بھی گھر کا انتظام سنبھالنا پڑا اور والد کا ہاتھ بٹانا پڑا ۔ دوسری طرف اُن کا والد عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ فن موسیقی سے کافی لگاو رکھتا تھا اور اس وقت کے استاد موسیقی کاروں میں شمار کئے جاتے تھے۔ جس کا اثر براہ راست یوسف دلدار پر بھی پڑا اور وہ بھی موسیقی کے من کے ساتھ جڑ گئے۔ جس کی تربیت اُسے اپنے ہی گھر میں ملی ۔ یوسف دلدار اس فن کے ساتھ اس قدر جڑ گئے کہ انہوں نے بھی اپنی جماعت تشکیل دی اور وادی کے اطراف واکناف میں شادی بیاہ کے موقعوں پر مدعو کیا جاتا تھا اور درویشانہ محفلوں میں خاص کر مجذوب قلندر وقت سلطان صآب بد سگامی کی خدمت میں وقتاً فوقنا حاضری دیتا رہا اور محفل سماع کا اہتمام کتا تھا اور ان کی خوشنودیوں سے مالا مال ہوتا گیا ۔ اُدھر بیچ بیچ میں حضرت سعید احمد قریشی رحمت اللہ علیہ جو بانی اسلام حضرت امیر کبیر رحمت اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں کے آستان عالیہ جو چو دھری باغ میں واقع ہے محفل سماع سجاتا تھا اور یوسف دلدار کا مانناہے کہ اِن ہی پُر خلوص مجالس سے اُسے روز گار بھی مل گیا اور جو شاعری کا شوق تھا وہ بھی پورا ہوا ۔
جہاںیوسف دلدارنے مختلف ساز بجانے میں مہارت حاصل کی وہیں بہترین رقاص Dancer کے طور بھی عوامی مقبولیت حاصل کر گیا اور اقبال ڈراسٹک کلب لیٹر Iqbal Dramatic club کا قیام بھی عمل میں لایا مگر والد محترم کی وفات ہوئی اور اس فن کو خیر باد کہ دیا ۔ یہی یوسف دلدار اب راہ سلوک کے رہبر کی تلاش میں لگ گیا اور فقیر محمد شعبان شیخ فلورہ کا دامن تھام لیا مگر وہ جلد ہی انتقال کر گئے اور اُن کے بعد فقیر غلام حیدر نجار چند گام کا ہاتھ پکڑا مگر وہاں دل نہ لگا اور تھوڑے عرصہ کے بعد ہی غلام رسول آخون المعروف لسہ بب پانپور کی صحبت میں داخل ہوا وہ بھی انتقال فرما گئے اور اب احد صاب گور بمنہ سرینگر کے حلقہ ارادت میں شامل ہوا۔ مگر وہ بھی رحلت کرگئے اور اب فقیر قادری گُل پازال پورہ بیجبہاڑہ کی تربیت میں راہ سلوک کے نمنازل طے کرتا جارہا ہے۔
شاعری کے میدان میں بھی یوسف دلدار اپنا شوق پورا کرتا رہا اور ادبی مجالس میں شرکت کرنے لگا اور وہاں کہنہ مشق شعرا کا کلام سن کرا استفادہ حاصل کرتا گیا اور اُن سے اپنے کلام کی تصحیح کے لئے رجوع کرتا تھا۔ رشید صدیقی نلوره، سکندر ارشاد پا ہو اور راقم الحروف قابل ذکر ہیں ۔ آج تک ان کے چھ شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں جو ان کی صوفیانہ اور عقیدتی شاعری کی گواہی خود دے رہے ہیں ۔ جہاں تک یوسف دلدار کی ذات کا تعلق ہے وہ قول کے سچے نرم مزاج کے مالک ہیں اپنے بزرگوں اور استادوں کی زبردست قدر کرتے ہیں ۔ وہ کئی ایک ادبی تنظمیوں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں اور آج ڈسٹرکٹ کلچرل سوسائٹی پلوامہ کے ساتھ منسلک ہیں۔