سیلفی 0

سیلفی

مشتاق چھلہ گنڈ کپواڑہ

ایک انڈا بنا عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز کیوں بنا؟؟؟؟؟

ایک انڈے کو ایک سو یا دو سو میں بکتے ہوئے ہم نے سنا پر یہ کھبی نہیں سنا کہ انڈا ڈھائی لاکھ میں بکا کیوں پچھلے سال ہم نے پاکستان کے مری گاؤں کو عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنتے ہوئے دیکھا کیونکہ کہ وہاں برف باری کا لطف اٹھانے کے لیے بےشمار سیاح گیے ہوئے تھے تو اچانک موسم نے کروٹ لی اور وہاں آنے جانے کے تمام راستے بند ہوئے اس وقت وہاں کےنا جائز منافع خوروں نے ایک کو دو سو تین سو روپیے میں بیجھ دیا۔ لیکن جموں وکشمیر کے ایک چھوٹے سے قصبے کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں کے انڈے کی کہانی کچھ مختلف ہے ہوا یوں کہ اس گاؤں میں مسجد کی تعمیر ہو رہی تھی دو منزلیں مکمل ہوئی اور اب چھت کا کام ہاتھ میں لینا تھا مگر پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ ایسا کرنے سے قاصر تھے چنانچہ انتظامیہ نے اب اس کی چھت کو مکمل کرنے کے لیے گھر گھر چندہ کرنے کا فیصلہ لیا اورہر کوئی اپنی بساط کے مطابق امداد کرتے رہا آخر پر یہ وفد ایک پسماندہ مفلوک الحال بیوہ کے در پر حاضر ہوئی کہا جاتا ہے جب یہ لوگ یہاں پہنچے تو وہ بیوہ شرم کے مارے پانی پانی ہوگئی اور چاہتے ہوئے بھی وہ کچھ دینے سے قاصر تھی لیکن کشمیری روایات کے مطابق اپنے در سے کسی کو خالی ہاتھ لوٹانا مناسب نہیں ہے تو موصوفہ نے روایات کو برقرار رکھتے ہو ایک انڈے کو منتظمین کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے اسے خوشی خوشی قبول کیا اور خاتون سے مخاطب ہو کر کسی نے کہا کوئی بعید نہیں کہ آپ کا یہ معمولی انڈا اللہ کے دربار میں قبول ہو۔اور چل دیے یہاں سے ہی انتظامیہ میں سے کسی صاحب کو خیال آیا کیوں نہ اس انڈے کو نیلامی کے لیے رکھا جائے اور یہ رائے زور پکڑتی گئی اور ایسا ہی کیا گیا اور اس انڈے کو تین دن تک نیلامی کے لیے رکھا گیا اس شرط کے ساتھ تیسرے دن جس کی بولی آخری ہوگی وہ انڈے کا وارث ہوگا۔ چنانچہ پہلے دن بولی دس روپے کے معمولی رقم سے شروع ہوئی اور آخری دن یہی بولی ستر ہزار روپیے پر بند ہوئی اور سا طرح خوش نصیب خاتون کا یہ خوش نصیب انڈا تقریباً اڑھائی لاکھ میں نیلام ہوا۔ یہاں میں قارئین کو کوئی معلومات دینا نہیں کرنا چاہتا ہوں بلکہ معلومات تو مجھ سے زیادہ قارئین کے پاس موجود ہوں گی۔ لیکن یہاں میں قارئین کی توجہ جس جانب مبذول کرانا چاہتا وہ اللہ کے یہاں قبولیت کے لیے موٹی سے موٹی رقم دینا شرط نہیں ہے بلکہ اس کے پاس قبولیت کے لیے شرط صرف خلوص نیت شرط ہے اگر دینے والے کی نیت خالص ہے پھر یہ معنی نہیں رکھتا کہ اس کا دیا ہوا ہدیہ کس قیمت کا ہے۔یہاں یہ بات ایک بار پھر ثابت ہوتی ہے کہ اللہ جسے چاہیے عزت دے سکتا ہے اور جسے چاہے ذلت کا شکار کرسکتا ہے یہاں مجھے اس مائی کا واقعہ ذہن میں آتا ہے جس نے صرف یوسف علیہ السلام کے خریداروں میں اپنا نام شامل کرنے کے لیے اس کی نیلامی میں شرکت کی حالانکہ اس کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ میں یوسف علیہ السّلام کو خریدنے کی سکت نہیں رکھتی ہوں۔ لہذا جب بھی آپ کے پاس کوئی سائل اللہ کے لیے مانگنے آیے تو اسے اپنی بساط کے مطابق عطا فرمائے کیونکہ اللہ آپ کے ہاتھ کو نہیں بلکہ آپ کی نیت کو دیکھتا ہے۔
( مضمون نگار گورنمنٹ گرلز ہائر سکینڈری سکول کپواڑہ میں ایک استاد ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی کارکن اور ایک ٹریڈ یونینسٹ بھی ہے)

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں