ہم کس سمت میں جارہے ہیں 0

ہم کس سمت میں جارہے ہیں

غلام محمد دلشاد
یہ بات روز روشن کی طرح ہمیشہ سے واضح ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ماہ رمضاں المبارک کے بے انتہا فضائل و برکات بیان کیے گئے ہیں ۔ دیگر انعاماتوں کے علاوہ خاصکر لیلتہ القدر کے بعد عیدالفطر یوم الجزاء کے طور پر منائی جاتی ہے ۔ خدا وند قدوس ماہ مبارک کی محنتوں اور فاقہ کشیوں پر اپنے بندوں کو فضل و کرم سے نوازتا ہے ۔ اسلامی علوم و تعلیماتوں کے پس منظر میں ہمیں ایسے مخصوص ایام اور موقعوں پر خاص نوافل و نمازوں کا ، تحیت ، تحسین و تشکر کے طور پر اہتمام کرنے کا حکم ہے۔خاصکر ان سطور میں اگر عیدالفطر کا تذکرہ کیا جائیے تو مخصوص نماز کا انعقاد، صدقات و خصوصی طور صدقہ فطر کی نماز عید سے پہلے پہلے ادائیگی ہمیں ان برکات و فضایل کا پورا پورا مستحق بناتا ہے جبکہ ہم نے اپنی حت الوسع بساط کے مطابق روزہ رکھنے اورزکواة ادا کرنے کا فریضہ ، بحسن و خوبی انجام دیا ہوا ہوتا ہے تو اب ہمیں رب الکریم کے فضل و عنایت سے ، ان نیک امورات کو انجام دینے کے بعد جزائے خیر کی امید ضرور رکھنی چاہے ہوتی ہے ، کیونکہ اس بارے میں رب العزت کا ارشاد ہے کہ میں اپنے بندوں کا کوئی بھی پر خلوص عمل ضایع نہیں کرتا ہوں ، بلکہ اس کو ایک ایک نیکی کا بھر پور بدلہ ضرور دونگا ۔ خاصکر عیدالفطر پر ۔
ہم پر امید ہوکر عید گاہوں میں آتے ہیں ، کہ اللہ کے فضل کرم سے انشاءللہ مستفید ہوئیے ہونگے ،اور ہوتے رہیں گے۔ مگر ہائے افسوس کتنے بد نصیب ہونگے وہ بالغ خواجہ وحضرات جو اپنے تمام نیک اعمال غیر شعوری یا شعوری طور ضائع و بر باد کرتے ہیں جب وہ اس عیدالفطر کے سعادت مند موقعہ پر صبح ہوتے ہی نماز کے دوراں اور اس کے بعد ، ایام میں گولہ بارود کے زور دار پٹاخے پھوڈ پھوڈ کے نہ صرف نمازیوں کو بلکہ گھروں میں علیل اور بیماروں کو بےچین کرتے ہیں ۔ ان غیر اسلامی حرکات کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ اسلامی نظریہ کے مطابق دس سال کا بچہ بالغ تصور کیا جانا چاہیے۔ قرآنی حکم ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آگ سے بچاو ۔ جبکہ والدین کے لیے یہ ضروری ارشاد ہے کہ سات سال کی عمر سے ہی بچے کو نماز کی طرف راغب کرنا چاہے پھر ان موقعوں پر پٹھاکے اڈھانے کا خیال اس کے دماغ میں آنے کا کویی امکان کبھی ہوگا ہی نہیں ۔ قصور والدین کا ہے ، جو بچے کو رات کے دس بجے تک گھر سے باہر ایسی بے راہ روی میں مبتلا ہونے پر ٹوکتا نہیں ہے ۔ شام ہوتے ہی بچوں کو گھروں سے باہر رہنے دینا بڑی غلطی ہے ۔ والدین کی لا پرواہی اس بچے کو مختلف مضر و بری عادتوں اور خطرناک برائیوں میں ملوث کر سکتاہے ۔ دیکھا گیا ہے کہ ایسے بچے مسجد وں میں گھسکر صفوں میں نا مناسب حرکاتوں سے نمازیوں کو پریشان کرتے ہیں ۔ اور ٹوکنے کے باوجود ایسی حرکات سے باز نہیں آتے ۔ جب ماں باپ کو بچے کے مستقبل کا خیال نہیں تو پھر کسی اور کو کیا پریشانی ، بلکہ اگر بچے کو پکڑا جائے تو عین ممکن ہے کہ والدین بچے کے حق میں حمایت کرتے ہوئے جھگڑوں میں ملوث ہو سکتے ہیں ۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ ایسے بچو ں کے والد بھی نماز میں حاضر ہوتے ہیں ، مگر اپنے بچوں کی ایسی نا پسندیدہ حرکات سے واقف ہوکر بھی نظر انداز کرتے ہیں ۔
ایک اندازے کے مطابق صرف ضلع پلوامہ میں کم و بیش 12 لاکھ روپے پٹاخوں پر ضایع ہوئے ، کتنی فضول خرچی ہے ،اللہ کی اس پر بیزاری ہے اور یہ کتنی سماجی بے راہ روی ہے ۔ سوچنے کا مقام ہے کہ ہم کس سمت میں جارہے ہیں۔ اب کون آئے اور ہمیں سمجھائے ، کہ ہوش میں آ کر ایسی غلط روش کو ترک کیجیے۔
اگر چہ اس میں ضلع حکام اپنی ذمہ داریوں سے خود کو بری الزمہ قرار نہیں پائیں گے ۔ ہر جگہ پولیس تھانے موجود ہے لیکن پٹاخے کی آوازیں سن سن کر تھانہ جات سے باہر آکر ایسے حرکات پر قدغن لگانے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے ۔ کیونکہ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ گھر سے باہر آکر دوسروں کے گھروں کے نزدیک یا کوچہ وبازار میں کھلے عام دھماکوں سے کمزور لوگوں۔ بیمار‌وں یا عام لوگوں کو پریشان کرے اور ان کا چین چھین لے ۔ ایسی حرکات سے مالی اور جانی نقصانات کا واضح احتمال ہے بلکہ ایسے واقعات پیش آئے بھی ہیں ۔ ہم سب کے لیے یہ ایک لمحہ فکر یہ ہے اور ایسے حرکات پر تنبیہہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم اللہ سے دعا مانگیں کہ ہمیں اور ہمارے عزیز بچوں کو نیک راہ پر چلنے کی ہدایت عطا کرے ۔ آمین ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں