افسانہ۔۔۔پہلا مریض۔۔۔ 0

افسانہ۔۔۔پہلا مریض۔۔۔

ڈاکٹر نذیر مشتاق

پہلے یہ کہنا ضروری ہے کہ ایم بی بی ایس کی ڈگری ساڑھے چار سال میں مکمل ہوتی ہے اس کے بعد ایک سال انٹرن شپ کا ہوتا ہے اس ایک سال میں نوجوان ڈاکٹر مختلف اسپتالوں میں کام کرکے سب کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ ہر فن مولا ہرفن ادھورا کے مصداق اپنے آپ کو کسی وسیع وعریض سمندر میں ڈوبتا ہوا محسوس کرتا ہے اسی لئے اسے فوری ہاؤس جاب دیا جاتا ہے یعنی وہ جس شعبہ میں تخصص حاصل کرنا چاہتا ہے اس کے لیے ھاؤس جاب ایک دروازہ ہے۔۔۔۔ میں نے ایم بی بی ایس کا فائنل امتحان پاس کیا۔۔انٹرن شپ مکمل کی اور علم نفسیات میںہاؤس جاب اختیار کیا۔۔۔۔۔آج اس شعبے میں میرا پہلا دن تھا۔میں نے کالا سوٹ سفید قمیص اور سرخ ٹائی کو اپنے بدن کی زینت بنایا اور ڈیپارٹمنٹ کے کمرہ نمبر6جو مجھے الاٹ کیا گیا تھا۔ کی طرف قدم بڑھانے لگا۔۔۔ میرا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اور مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میرا جسم پسینےمیں شرابور ہو رہا تھا۔۔۔میں ایک عجیب قسم کی بے چینی محسوس کر رہا تھا کاریڑور میں نپے تلے قدم اٹھاتے ہوئے مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے ہر کوئی میری طرف دیکھ رہا ہو؛
مجھے ایسا لگا جیسے کمرہ نمبر 6 تک پہنچنے میں مجھے کئی صدیاں لگیں۔۔۔۔کمرے کے باہر دربان اسٹول سے کھڑا ہوا اور سلیوٹ بجاکر دروازہ کھولا۔۔۔۔میں نے کوئی جواب نہیں دیا سیدھا اندر داخل ہوا۔۔۔۔۔ اندر جاکر میں نے کوٹ اتار کر نیا سفید اپرن پہنا اور دیوار پر لگے آینے کے سامنے کھڑا ہوکر ٹائی کا ناٹ درست کیا اور بالوں پر ہاتھ پھیرے اور پردہ ہٹا کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔۔۔۔۔۔باہر سرمئی اندھیرا چھایا تھا آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے اور بارش ہونے کے پورے امکانات تھے۔
میں نے دونوں ہاتھوں کو آپس میں رگڑا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔۔ مجھے یوں محسوس ہونے لگا کہ میں کوئی بہت بڑی ہستی ہوں مجھے اپنے آپ پر غرور آنے لگا میں کچھ سوچنے لگا کہ دربان میرے لیئے گرم گرم تازہ کافی لیکر داخل ہواْ
میں نے کافی کی چسکی لی اور دربان سے پوچھا ۔۔۔۔۔کوئی مریض آیا۔۔۔جی ہاں ایک مریض باہر انتظار کر رہا ہے آپ کافی پی لیجیے میں اسے باہر بٹھائے رکھتا ہوں۔۔۔۔ دربان نے کہا۔
نہیں اسے اندر بھیج دو۔ میں نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ دربان باہر گیا میں نے کافی کی چسکی لی اور سر اٹھاکر دروازے کی طرف دیکھا۔۔۔۔اور دیکھتا ہی رہ گیا۔۔۔۔میں فرط عقیدت سے اچانک اپنی کرسی سے کھڑا ہوا جیسے کسی انجانی اور غیر مرئی طاقت نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا ہو۔۔۔مریص مجھے بجھی بجھی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔مجھے یوں لگا جیسے وہ آسمان سے اترا کوئی فرشتہ ہو۔۔۔۔سر پر ایک گول سفید ٹوپی۔۔۔داڑھی لمبی برف جیسی۔۔۔۔چہرہ نورانی۔ آنکھوں میں ایک عجیب سی اداسی۔۔۔سفید قمیص اور شلوار پر سیاہ رنگ کا ویسٹ کوٹ۔۔۔۔۔۔اور پیروں میں سفید رنگ کے چپل جن میں سے سفید رنگ کے صاف وشفاف پیر نظر آرہے تھے۔۔۔۔میں اسے دیکھ کر بہت متاثر ہوا۔۔۔ تشریف رکھیے ۔۔۔ میں نے ادب سے کہا۔۔۔ وہ کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ مجھے مریض کی ہسٹری لینا تھی نہ کہ اس کا علاج کرنا تھا۔
علاج کے لیے اسے سینئرمعالج کے پاس بھیجنا تھا۔۔۔ میں نے ہسٹری شیٹ سامنے رکھا اور اس سے سوالات پوچھنے شروع کیے۔۔۔نام۔۔۔۔سیدجمال الدین نورانی۔۔۔ عمر 65سال۔۔۔پتہ۔۔۔۔دردہ پورہ۔۔۔غیر شادی شدہ۔۔۔۔جوانی میں کچھ گھریلو تنازعہ کی وجہ سے شادی نہیں ہو سکی۔۔۔۔ فارم پر ضروری سوالات کے جوابات لکھ کر اب میں نے اس سے ڈایریکٹ سوال پوچھا۔۔۔۔۔اچھا یہ بتائیے آپ یہاں کس لیے آئے ہیں۔
اس نے گلا کھنکارتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔میں خود نہیں آیا مجھے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان نے یہاں بھیجا ہے۔۔۔تین ماہ سے میں بہت کمزوری محسوس کر رہا ہوں۔۔۔۔کسی کام میں دل نہیں لگتا ہے۔۔۔پریشان رہتا ہوں۔ نیند بالکل نہیں آتی ہے ۔منفی خیالات نے ذہن کو گھیرے رکھا ہے۔۔بھوک بالکل نہیں لگتی ہے۔
اور اب مریدوں کے لیے نہ تعویذ لکھ سکتا ہوں اور نہ دم کر سکتا ہوں ۔۔۔۔اب تو خود کشی کرنے کو جی چاہتا ہے مگر وہ تو گناہ عظیم ہے ۔مرنے کے بعد ہمیشہ دوزخ کی آگ میں جلنا پڑےگا۔۔۔اس کی آنکھوں کے کنارے بھیگ گئے اس نے جیب سے صاف وشفاف سفید رومال نکال کر دونوں آنکھوں کو صاف کیا اور میری طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔میرا علاج کریں ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔میری زندگی بچالیں۔۔۔ میں نے اسے غور سے دیکھا۔اتنا بڑا عالم۔۔۔۔وہ بھی ڈیپریشن کا شکار پہلے مجھے اس کے ساتھ زبردست عقیدت ہوئی تھی۔ اب اس پر رحم آنے لگا۔
اچھا نورانی صاحب یہ بتائیے کہ آپ کس قسم کی کمزوری محسوس کرتے ہیں۔۔۔میرا مطلب ہے کہ۔۔۔میری بات کاٹ کر وہ سر جھکائے ہوئے بولا۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔۔در اصل مجھے جسمانی کمزوری کے علاوہ مردانہ یعنی جنسی کمزوری بھی ہے اور مجھے اسی کی فکر لاحق ہے۔۔۔میں نے اس کے چہرے کا بغور جائزہ لیا اور اس سے وہ سوال پوچھا جو اس نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا۔۔پیر صاحب آپ نے شادی نہیں کی ہے پھر آپ اپنی جنسی خواہشات کو کیسے پورا کرتے ہیں۔۔۔۔۔میرا سوال سن کر وہ سٹپٹا گیا مگر اس نے پہلو بدل کر الٹا مجھ سے سوال کیا۔۔۔کیا اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔۔۔۔جی ہاں۔۔میں نے بالوں پر ہاتھ پھیرے اور میز پر جھک کر اس کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔
نورانی صاحب یہ امراض نفسیات کا شعبہ ہے یہاں مریض کو ہر سوال کا جواب دینا پڑتا ہے تاکہ ہم اس کی بیماری کی تہہ تک پہنچ کر اس کا صحیح علاج کر سکیں۔۔۔۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بیماری کا صحیح تشخیص ہو اور پھر صحیح علاج ہو تو آپ ہر سوال کا بالکل صحیح جواب دیں۔۔۔سمجھے آپ۔۔۔۔۔۔
اس نے سر ہلایا اور کہا۔۔۔۔۔میری جنسی خواہشات دو خوب صورت عورتیں پوری کرتی ہیں۔۔وہ دونوں میرے مریدوں میں شامل ہیں۔۔۔وہ ہفتے میں چار راتیں میرے ساتھ گزارتی ہیں۔۔
ایک ساتھ یا الگ الگ۔۔۔میں نے از راہ تجسّس پوچھا۔۔
کبھی الگ الگ اور کبھی میرے حکم کے مطابق دونوں ایک ساتھ بھی میرے ساتھ پوری رات گزارتی ہیں مگر جب سے میں۔مردانہ۔کمزوری کا شکار ہوا انہوں نے میرے پاس آنا ترک کیا۔۔۔ اس نے اداس لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔اب مجھے وہ فرشتہ نہیں شیطان کا چیلہ لگ رہا تھا۔۔۔۔۔میں نے ایک اور کافی منگوائی۔۔۔۔۔دربان کافی کا مگ لے کر باہر گیا کہ ماہی داخل ہوئی۔۔۔وہ میری ہونے والی شریک حیات ہے ہم نے ایم بی بی ایس کے دوسرے سال میں ہی ایک دوسرے کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھائی تھیں اور اب اگلے ماہ ہماری شادی ہونے والی ہے۔۔۔وہ بڑی خوبصورت چنچل اور باتونی لڑکی ہے میرا ہر طرح سے خیال رکھتی ہے۔۔۔۔اس نے مریض کی طرف دیکھ کر کہا۔۔پیر بابا جاتے وقت اس پاگل ڈاکٹر کو ایک تعویذ دینا یہ میرے ساتھ ہر وقت لڑتا رہتا ہے۔۔اس نے مریض کی طرف دیکھ کر کہا۔ پیر بابا ضرور ایک تعویذ دینا۔۔۔اور ہاں ڈاکٹر صاحب ایک بجے میں کینٹین میں انتظار کروں گی آج تمہارے لیے ایسی ڈش پکا کر لائی ہوں کہ نہ صرف انگلیاں چاٹو گے بلکہ انگلیاں چباو گے سمجھے ڈاکٹر صاحب میں انتظار کروں گی۔۔اوکے بائی۔ ٹیک کیر۔ اچھا پیر بابا تعویذ ضرور دینا۔۔۔ وہ چلی گئی میں نے اطمینان کا سانس لیا اور اسی وقت دربان کافی میز پر رکھ کر چلا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے کافی کی چسکی لی اور مریض سے سوال کیا۔۔۔
اچھا نورانی صاحب یہ بتائیے کہ آپ کی مردانہ کمزوری کب اور کیسے شروع ہوئی۔۔۔۔۔اس نے سر جھکایا اور دبے دبے الفاظ میں کہا۔۔کیا اس سوال کا جواب دینا ضروری ہے۔۔۔ جی ہاں اگر آپ اپنا صحیح علاج کروانا چاہتے ہیں تو ہر سوال کا بالکل صحیح جواب دینا پڑے گا۔۔۔۔۔
اس نے پہلو بدل کر کہنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔بات در اصل یہ ہے کہ میں ایک مشہور روحانی بزرگ ہوں میرے مریدوں اور معتقدین میں بے شمار لوگ شاملِ ہیں۔۔۔۔میرے مریدوں میں ایک بہت بڑا تاجر ہے وہ ایک ارب پتی ہے اسے مجھ پر حد سے زیادہ اعتماد اور اعتقاد ہے وہ کوئی بھی کام میرے مشورے کے بغیر نہیں کرتا ہے۔۔۔۔۔۔تین ماہ پہلے اس کی اکلوتی جوان اور خوبصورت بیٹی پر بے ہوشی کے دورے پڑنے لگے۔۔۔انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ ان کی بیٹی کو کسی کی نظر لگ گئی ہے یا پھر اس پر کسی جن یا پری کا سایہ پڑا ہے کیونکہ ڈاکٹر کے علاج سے اس کے بے ہوشی کے دوروں میں کوئی فرق نہیں پڑا اس لیے اب آپ اپنا روحانی علاج شروع کریں۔۔۔۔۔لڑکی کی ماں میرے ہمراہ کمرے تک آئی اس کے میرے ساتھ قریبی تعلقات رہ چکے تھے اس لیے اس نے مجھے لڑکی کے کمرہ تک رہنمائی کی اور ۔مسکراتے ہوئے کہا چلئے مریض کا علاج کریں۔۔مجھے لگتا ہے کہ اس کا کسی جن کے ساتھ یارانہ ہے۔میری اپنی بیٹی ہوتی تو اس کا گلا گھونٹ دیتی۔مگر سوتیلی ہے نا کیا کروں۔۔۔ چلیے نکالیے اس کا جن۔۔۔۔۔ خیال رہے لڑکی بہت خوب صورت ہے اور آپ ماشاءاللہ ۔۔۔ جوان۔ ۔۔۔۔۔اس نے ہنستے ہوئے کہا اور دروازہ بند کرکے چلی گئی۔۔۔۔۔۔
میں نے دیکھا ایک انتہائی خوبصورت بہت بڑا گول پلنگ ہر طرف گلابی رنگ کے مہین پردوں سے ڈھکا ہوا۔۔ایک عجیب نظارہ پیش کر رہا تھا لڑکی نیم برہنہ بیہوش تھی ۔۔۔۔میں نے لڑکی کا سر تا پا جایزہ لیا۔۔۔۔۔میں نے آج تک ایسی حسین لڑکی نہیں دیکھی تھی۔۔۔۔۔میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔۔۔میں پلنگ کے ایک طرف بیٹھا اور لڑکی کے سنگ مرمر جیسے بدن پر ہاتھ پھیرنے لگا میرے ہاتھ تھر تھرا رہے تھے۔۔۔ میں اس پر جھک گیا اور دھیرے دھیرے اپنا ہاتھ اس کی شلوار تک لے گیا ۔۔۔جوں ہی میں نے شلوار کو چھو لیا اس نے ایک پاگل گھوڑی کی طرح ایسی دو لتی ماری کہ میں پلنگ سے دور گر پڑا اور میرا سارا بدن ۔بالکل ٹھنڈا پڑ گیا اور میری مردانگی جاتی رہی۔۔۔ اسی دن سے میں نامردی کا شکار ہو گیا اس بیماری کے لیے میں نے ڈاکٹروں سے علاج کروایا مگر کوئی فرق نہیں پڑا آخر میںمجھے ڈاکٹر خان صاحب نے یہاں ریفر کیا۔۔۔ میں دھیان سے اس کی روداد سن رہا تھا اور دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ کیا ایسا ممکن ہے۔۔۔میں نے اس کی طرف دیکھا کافی کی چسکی لی اور کہا۔۔۔۔۔۔نورانی صاحب آپ کی ہسٹری مکمل ہوگئی آپ کی بیماری کا لگ بھگ تشخیص بھی ہو گیا اور اب بڑے ڈاکٹر صاحب آپ کا علاج بھی کریں گے۔۔۔۔کیا کریں گے کس طرح کریں گے وہ مجھے نہیں معلوم کیوں کہ میں ابھی صرف ہسٹری لینے پر معمور ہوں۔۔۔ اور میرےڈاکٹری کیریر میں آپ میرے پہلے مریض ہیں۔۔۔۔مجھے آپ سے پوچھنے کا حق تو نہیں مگر میرے ایک سوال کا جواب ضرور دیں۔۔۔۔۔۔آپ کی عمر اب بہت زیادہ ہے اور آپ کی دونوں رکھیلیں آپ کو چھوڑ کر چلی گئی ہیں پھر آپ اپنی مردانہ کمزوری کا علاج کیوں ڈھونڈرہے ہیں۔۔۔۔اس نے پہلے سر جھکایا اور پھر میری طرف ملتجیانہ نظروں سے دیکھا اور کہا۔ آپ میری کمزوری کا علاج کریں میں کوئی بھی رقم دینے کے لیے تیار ہوں۔۔۔۔
مگر آپ اپنی مردانہ کمزوری کے لیے کیوں اتنے فکرمند ہیں۔۔۔میں نے کافی کی آخری چسکی لی ۔۔۔۔۔
اس لیے کہ میں اس لڑکی سے بدلہ۔لینا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔
����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں