ملک منظور
گرمیکےموسم میں اکثر لوگ دن بھر کی گرمی سے بچنے کے لئے گھر کے اندر اے سی ،کولر یا پنکھوں کو چلا کر بیٹھ جاتے ہیں۔پھرسہانی شام کے وقت باہر نکلتے ہیں۔گرمی کی لو سے بچنے کے لئے یہ لازمی ہے ۔ سالک بھی شام کے وقت چھت پر چڑھ جاتا تھا اور دیر تک درخشاں ستاروں کے جھرمٹ کو بڑے شوق سے دیکھتا رہتا ۔ایک دن ایک تارے نے سالک کو جھرمٹ کی سیر کرنے کی دعوت دی ۔سالک خوشی خوشی چل پڑا ۔کچھ دیر بعد وہ ستاروں کی دنیا میں پہنچ گئے ۔ نورانی ستاروں کے جھرمٹ کو دیکھ کر سالک بہت خوش ہوا ۔اس کو یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ تاروں کوروبرو دیکھ رہا ہے۔ تاروں کےجھرمٹ میںکچھ تارے بہت چمکدارتھے اور کچھ دھندلے دھندلے سے ۔ سالک نے اپنے دوست تارے سے پوچھا” یہ تارا زیادہ تاباں کیوں ہے ؟ ”
دوست تارے نے کہا، ” وہ سب سے زیادہ چمک دمک والا تارا اس لڑکے کا تارا ہے جو سب سے اچھے کام کرتا ہے ۔ فضول خرچی نہیں کرتا ہے۔فضول خرچی کرنے والے شیطان کے دوست ہوتے ہیں ۔جومحنت سے جی نہیں چراتا ہے اور جو والدین کا فرمانبردار ہوتا ہے ۔”
“پھر تو یہ ثمر کا تارا ہے ۔ وہ کسی کا دل بھی نہیں دکھاتا ۔
سب اس کو دعائیں دیتے ہیں ۔ سالک نے فوراً کہا۔
” اسی لئے یہ تارا دن بہ دن روشن ہورہا ہے” تارے نے کہا
وہیں پاس میں ایک اور تارا تھا جو ناراض لگ رہا تھا ۔
“اس دوسرے تارے پر مایوسی کے بادل کیوں ہیں ؟” سالک نےپوچھا۔
“وہ آپ کےدوست کا تارا ہے ” ۔
سالک ہنسپڑا ” ہا ہا ہا !۔میں سمجھ گیا ۔ وہ جامد کا تارا ہے۔جامد جھوٹوں کا سردار ہے ۔جس کے پاس بیٹھ جاتا ہے۔ اس کو کوئی نہ کوئی جھوٹی کہانی سناتا ہے ۔ایک دن اس نےٹیچر سے کہا , ٹیچر ٹیچر میرا ٹفن گرگیا۔مجھے بہت بھوک لگی ہے ۔میں آپ کے ساتھ لنچ کروں ۔میم نے کہا کیوں نہیں آجاؤ۔ اس نےاپنا لنچ پہلے ہی کھایا تھا ”
“آپ نے اس کا جھوٹ پکڑوادیا” تارے نے پوچھا ۔
“نہیں” سالک نے کہا ۔
” پھر تو آپ بھی جھوٹے ہو ” تارے نے کہا ۔
“پتہ ہے اس نے ایک دن کیا کیا۔” سالک نے بات بڑھاتے ہوئے کہا۔
کیا کیا ؟ تارے نے پوچھا ۔
“اس نے ماں سے جھوٹ کہا کہ اسکول میں ایک غریب بچے کے لئے سو روپیہ ڈونیشن دینا ہے ” ۔
*ماں نےدیئے ۔” تارے نےپوچھا۔
“ہاں وہ تو بھروسہ کرتی تھیں” سالک نےکہا۔
“پھر اس نےکیا کیا ” تارے نے پوچھا ۔
“اس نے دو آئیس کریم لاکر چاٹ لیں۔ ” سالک نے کہا ۔
“اچھا سمجھ گیا تبھی تو وہ موٹا سانڈ جیسا بن گیا ہے۔زیادہ میٹھا کھانے سے وزن بڑھ جاتا ہے۔ تارے نے کہا ۔
“ہا !ہا! ہا! ۔وہ دوڈ بھی نہیں پاتا ہے ۔اس کے گھٹنوں میں درد ہوتا ہے ۔اس کو سب چھوٹا ہاتھی کہہ کر چڑاتے ہیں ” سالک نے ہنستے ہنستے کہا۔
“کیا آپ بھی چڑاتے ہو ؟ ”
“ہاں کبھی کبھی “۔
“لیکن کسی کو غلط نام سے پکارنا تو اخلاقی اقدار کے خلاف ہے۔ آپ کی وجہ سےمیری چمک کم ہورہی ہے “۔
“ٹھیک ہے میں آج سے ایک اچھا لڑکا بنوں گا۔”
“وہ تیسرا کانا تارا کس کا ہے ؟ ” سالک نے پوچھا ۔
“وہ تارہ ایک شرارتی لڑکے کا ہے ؟ ” تارے نے جواباً کہا ۔
“شرارتی لڑکا تو میراث ہے ۔میراث لوگوں کو ڈراتا ہے ۔ وہ اچانک پٹاخہ پھوڑ دیتا ہے ۔جب دھڑام ہوتا ہے تو آس پاس جو لوگ ہوتے ہیں وہ سہم جاتے ہیں ۔ایک دن پتہ ہے کیا ہوا؟
کیا ہوا ؟
سمیحا کے دادا جی بچوں کو ستاتے تھے ۔میراث نے ان کے پاس پٹاخہ پھوڑا تو وہ گر کر بیہوش ہوگئے۔ اس دن میراث بہت گھبرایا ۔”
“بزرگوں کی عزت کرنا ہمارا فرض ہے۔ اس نے بزرگ کا دل دکھایا۔ اسی لیے اس کا تارا کانا ہوگیا ہے۔” تارے نے سمجھاتے ہوئے کہا ۔
“اچھا ، پھر وہ تارا لال کیوں ہے ؟” سالک نے پوچھا ۔
“یہ تارا غصے سے لال ہوگیا ہے ۔جب کوئی لڑکا پرندوں اور جانوروں کو پتھر پھینکنے سے لنگڑا بناتا ہے یا دکھ پہنچاتا ہے۔تو اس کا تارا لال ہوجاتا ہے ۔ ” تارے نے کہا ۔
“یعنی یہ رافز کا تارا ہے ۔اس نے پتھر مار کر ایک مرغے کی ٹانگ توڑی اور ڈنڈے سے ایک پلے کو مار ڈالا ۔”
صبح جب امی نے سالک کو نیند سے جگایا ،تو اس نے کہا ،” امی جان میں کتنا اچھا خواب دیکھ رہا تھا ۔آپ نےمیرا سپنا ہی توڑ دیا ۔” سالک نے ناراض لہجے میں کہا ۔
“سب بچے سویرے جاگتے ہیں اور میرا لاڈلا سپنےدیکھتا ہے ۔” ماں نے کہا۔
” امی جان میں نے تارے دیکھے ۔”
“اس کا مطلب کیا ہے ؟” سالک نے بستر سے باہر نکل کر پوچھا۔
“بیٹاآپ کے نانا جان کہتے تھے کہ تارے دیکھنے کا مطلب مقدر دیکھنا ہوتا ہے۔وہ یہ بھی کہتے تھےکہ اچھے کام کرنے سے مقدر تاباں ہوتا ہے اور غلط کام کرنے سے مقدر برے ہوجاتے ہیں۔پھر چاہیے لڑکا ہو یا لڑکی ۔اچھے کرموں سے ہی خوشیاں ملتی ہیں اور مقدر کے تارے چمک جاتے ہیں ۔”
“اس کا مطلب یہ ہوا جو میں نے دیکھا وہ خواب نہیں خبر تھی۔اگر ہم سب دوستوں نے گندے کام نہیں چھوڑے تو ہمارے مقدر پر نحوست چھا جائے گی ۔” سالک نے ماں سے کہا ۔
“بالکل صحیح فرمایا میرے بیٹے نے ” ماں نے پیار سے گلے لگاتے ہوئے کہا ۔
����
ملک منظور کولگام جموں و کشمیر