افسانہ ۔۔۔۔۔ایکس وائی ۔۔۔XY 0

افسانہ ۔۔۔۔۔ایکس وائی ۔۔۔XY

ڈاکٹر نذیر مشتاق


‌‌
۔۔۔۔اس جنم جلی ہے تیسری لڑکی کو جنم دیا ۔۔۔۔بس اب بہت ہوگیا۔۔۔۔اب تو اسے اس گھر سے نکالنا ہی پڑے گا۔۔۔ ارے ہمیں کیا لڑکیوں کا سکول کھولنا ہے۔۔۔ مجھے تو اس گھر کا چراغ چاہیے ۔۔۔ ۔کوئی تو ہو جو اس خاندان کا نام زندہ رکھے ۔۔۔۔۔ یہ کہتے کہتے زونہ ماسی کی سانس پھولنے لگی ۔۔۔کووڈحملے میں بڑی مشکل سے اس کی جان بچ گئی تھی مگر وہ دمہ بیماری میں مبتلا ہوگئی ۔۔تب سے پمپ اسکی جیب میں ہی رہتا ۔ہے۔اس نے جیب سے پمپ نکالا اور منہ میں رکھ کر اسے ایک طرف سے دبایا ۔۔۔چند لمحوں بعد وہ نارمل سانسیں لینے لگی ۔۔۔۔۔ اس کا بیٹا بیوی کے سرہانے بیٹھا خاموش سے سب کچھ سن رہا تھا بیچارہ سیدھا سادہ آدمی ایک مقامی اسکول میں چپراسی کے عہدے پر فائز ہے۔۔۔۔ اس کی بیوی درد سے کراہ رہی تھی ۔۔۔ایک مقامی اسپتال میں اس کی ڈیلوری ہوئی تھی اور وہ تیسری بیٹی کی ماں بن گئی تھی ۔۔۔اس کی دو نازک معصوم اور کمزور لڑکیاں دادی کے ڈر سے ماں کے بسترے میں گھس گئی تھیں ۔۔۔۔۔ان کا باپ ان کو پیار سے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ماں کے ڈر سے انہیں ہاتھ نہیں لگا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔میں کیا کروں جی جانہ زیر لب بڑبڑائی۔۔۔ تیسری بیٹی ہوئی۔۔۔ میں منحوس ہوں جنم جلی ہوں ۔بد نصیب ہوں ۔۔۔۔آپ مجھے زہر دے دیں ۔۔۔میں ماں جی اوررشتہ داروں کے طعنے برداشت نہیں کر سکتی ہوں ۔۔۔۔ آپ دوسری شادی کرلیں ۔تاکہ آپ کے خاندان کا نام زندہ رکھنے کے لیے آپ کو ایک بیٹا مل سکے ۔جانہ اپنے شوہر سے کہہ رہی تھی اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۔۔۔۔زونہ بیگم۔ کمرے میں دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھی تھی ۔۔۔۔ اس نے بہو کو شوہر کے ساتھ کھسر پھسر کرتے ہوئے دیکھاتو چلا اٹھی ۔۔۔ہاں ہاں ۔۔ تجھے چلو بھر پانی میں ڈوب مر جانا چاہیے ۔۔۔۔تین بیٹیوں کو جنم دیا ہے تو نے ۔۔۔ معمولی بات ہے کیا۔۔جا دیکھ سلام جو کی بہو نے اب تک چار لڑکوں کو جنم دیا ہے ۔۔۔۔اور تم لڑکیوں کی لمبی لاین لگانے پر تلی ہوئی ہو۔۔۔ اری۔۔۔تو عورت نہیں ڈاین ہے ڈاین۔۔۔۔۔
ماں ۔زونہ کا شوہر محمد رمضان تلملا اٹھا ۔۔ اس نے ذرا اونچی آواز میں ماں سے کہا۔۔ جانہ بیمار ہے وہ درد سے تڑپ رہی ہے اور تم اسے طعنے دے رہی ہو ۔۔۔۔
کر چپ ۔۔۔زن مرید ۔۔۔۔تو اس کی طرف داری کر رہا ہے ۔۔۔میں تو کہتی ہوں اسے ابھی گھسیٹ کر گھر سے نکال دے ۔۔۔۔۔ تیری عقل کا چراغ بجھ گیا ہے کل تیرا نام لینے والا کون ہوگا ۔۔۔۔محمد رمضان کا نام بیٹیوں کی شادی کے بعد ہی ختم ہو جائے گا ۔۔ ۔۔کون تیرے بڑھاپے کا سہارا بنے گا ۔۔کون تیرے جنازہ کو کاندھا دے گا ۔۔۔۔
تو اسے طلاق دے کر دوسری شادی کر لے۔۔۔۔
اچھا ماں وہی کروں گا مگر پہلے اس بےچاری کی صحت کے بارے میں تو سوچ ۔۔کل ڈاکٹر کے پاس جانا ہے ۔۔۔دیکھیں وہ کیا کہتی ہے ۔۔۔۔محمد رمضان نے کہا ۔۔۔۔
ہاں ہاں لے جا لے جا اسے ڈاکٹر کے پاس۔۔۔ اس کےلیے تیرے پاس خزانے ہیں ۔۔۔میرے لیے کچھ بھی نہیں۔
زونہ ماسی نے طعنہ دیا ۔۔۔۔۔محمد رمضان نے کچھ کہنا چاہا مگر بیوی نے اسے اشارے سے سمجھایا کہ وہ چپ رہے ۔۔۔۔۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی ۔۔۔زونہ ماسی اونگھنے لگی ۔۔۔۔محمد رمضان بیوی کے سرہانے بیٹھ کر اس کا سر دبانے لگا ۔۔۔جانہ نے اس کے ہاتھ کو چوما اور اپنے سینے پر رکھا ۔۔۔۔ اور شوہر سے کہنے لگی ۔۔۔۔۔کیا میں اتنی گناہ گار ہوں کہ خدا نے میری ایک نہ سنی ۔۔۔کتنے پیروں فقیروں درویشوں کے پاس گئی ۔۔۔سب نے تعویذ دئیے۔دم کیا ہوا پانی پلایا ۔۔۔۔مگر کسی کی دعا قبول نہیں ہوئی۔
میں نے مخدوم صاحب کے در پر حاضری دی۔ کتنی بار اس زیارت گاہ کی سیڑھیوں کی صفائی کی ۔۔۔۔اور گڑگڑا کر دعا مانگی مگر کچھ نہیں ہوا میں نے چرار شریف اور دستگیر صاحب کی زیارت گاہوں میں بھی حاضری دی بابا ریشی کی زیارت گاہ پر بھی وہ سب کیا جو کہا گیا تھا۔کتنےدھاگے باندھے صرف ایک بیٹے کے لیے مگر نہیں ملا ۔۔کیا میں اتنی گناہ گار ہوں۔
اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے ۔۔۔۔۔محمد رمضان کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں ۔۔۔۔۔۔۔اس نے پیار سے جانہ کے ماتھے کو چوما ۔۔۔۔اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے ۔۔۔۔جانہ سوچ رہی تھی کہ ۔ اس کی دعائیں قبول نہیں ہو گئیں ۔۔۔۔ کیوں۔۔۔۔اس سؤال کا جواب وہ کس سے پوچھے۔ اسے نہیں معلوم ۔۔۔۔
دوسرے دن شوہر اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانے والا تھا۔۔۔ماں نے کہا ۔۔میں بھی چلوں گی ورنہ لوگ کہیں گے کہ بہو لیڈی ڈاکٹر کے پاس گئی اور کوئی عورت ساتھ نہیں تھی ۔۔۔۔چھوٹی بچیوں کو ہمسایہ کے گھر لے جاکر محمد رمضان سومو میں سوار ہو کر ماں اور بیوی کے ساتھ لیڈی ڈاکٹر کے پاس چلا گیا ۔۔
لیڈی ڈاکٹر نے جانہ کا تفصیل سے معائنہ کیا ۔اور۔۔۔ کہا ۔۔سب ٹھیک ٹھاک ہے ۔ بس ذرا خون کی کمی ہے میں اسے خون بڑھانے کی گولیاں دیتی ہوں ۔۔۔یہ بالکل ٹھیک ہوجاے گی ۔۔
ڈاکٹر صاحبہ۔اسے ایسی گولیاں بھی دے دیں جن کو کھا کر یہ لڑکے کو جنم دے ۔۔۔ تیسری لڑکی کو جنم دیا ہے اس بدبخت۔ جنم جلی نے ۔۔۔۔۔
کیا کہا آپ نے ۔۔۔ڈاکٹر کا چہرہ غصے سے لال پیلا ہوگیا۔
بد بخت یہ نہیں تم ہو۔۔۔۔تمہارا بیٹا ہے ۔۔۔اگر یہ بیٹیوں کو جنم دیتی ہے تو ذمہ دار تمہارا بیٹا ہے ۔۔۔۔یہ نہیں ۔۔۔۔۔
کیا مطلب ۔۔۔۔زونہ ماسی حیرت کے سمندر میں ڈوب گئی ۔۔۔۔۔
ہاں ہاں قصور تمہارے بیٹے کا ہے ۔سنو میں آپ کو سمجھاتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔مرد کے خلیہ میں ایکس وائی کروموسوم ہوتے ہیں اور عورت کے خلیہ میں ایکس ایکس کروموسوم ۔۔۔۔اگر مرد کی طرف سے وائی کروموسوم آتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے اور اگر ایکس کروموسوم آتا ہے تو لڑکی پیدا ہوتی ہے ۔۔۔۔سمجھ گئی آپ ۔ اب بتاؤ قصور کسی کا ہے۔۔۔۔۔محمد رمضان کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔۔۔۔ جانہ اور زونہ ماسی ڈاکٹر کی طرف حیرت سے دیکھ رہی تھیں ۔۔۔۔۔
اس کا مطلب جانہ بے قصور ہے ۔۔۔۔اور میرا بیٹا ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر صاحبہ آپ نے میری آنکھوں پر پڑا پردہ ہٹایا۔
میں تو اپنی پیاری اور نیک بہو پر الزام لگارہی تھی۔۔۔۔۔۔آپ کا بہت بہت شکریہ ۔۔ اتنا کہہ کر اس نے اپنی بہو کو سینے سے لگایا صدقے جاؤں تم پر۔۔۔۔میری بیٹی مجھ ان پڑھ جاہل کو معاف کرنا میں نے تم کو ہر وقت ستایا مجھے کیا معلوم تھا کہ تم بے قصور ہو۔۔۔۔۔۔۔۔تینوں کے چہرے خوشی سے چمکنے لگے ۔۔۔۔۔ڈاکٹر کا چہرہ گلاب کی طرح کھل اُٹھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں