ہر فکر کو دھوئیں میں اڑا۔۔۔۔۔قیوم بدر 0

ہر فکر کو دھوئیں میں اڑا۔۔۔۔۔قیوم بدر

نسیم اشک

زندگی کی رنگینیوں سے محروم آنکھوں میں دنیا کی خوبصورتی کوئی معنی نہیں رکھتی۔تجربہ ہی اظہار کا پیکر تراشتا ہے۔سورج کی کرنوں سے دھلی صبح جہاں خوبصورتی کا مظہر ہوتی ہے وہیں ایک نئی آزمائش کا میدان بھی سجاتی دکھائی دیتی ہے۔ حیرانی تو تب ہوتی ہے جب حیات و کائنات کے بلند فیصلوں کے درمیان ایک درمیانہ قد ان سے ہمکلام ہوکر فیصلے کی نظرثانی کی درخواست نہیں کرتا بلکہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی ہمت و استقلال کا مظاہرہ کرتا ہے۔یہ درمیانہ قد کتنا دراز قد ہے یہ اس کا انکشاف اس وقت ہوتا ہے جب وہ اکھڑتی سانسوں اور شدت کرب کے کڑوے گھونٹ کو چائے کی طرح شیریں بنا کر پی لیتا ہے اور اپنی دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کے درمیان دبی سگریٹ نما مسائل کے بدن سے تمام کڑواہٹ کو سینے میں اتار لیتا ہے اور اسے بھی ادھ جلا پھینک دیتا ہے اور ان چنگاریوں کو یوں دیکھتا ہے جیسے یہ چنگاریاں اس کے اپنے دل کی ہیں جو اب تک بجھی نہیں۔ایسی صورتحال میں اپنی ہنسی کا گم ہوجانا کوئی سانحہ نہیں مگر اس کرب میں ظرافت کا پہلو ڈھونڈ کر غم زدہ دلوں کو ہنسانا اور انہیں سلگتے ،چبھتے سوالوں کا سامنا کرانا واقعی دل گردے کی بات ہے۔
روز مرہ کے پھسلتے راہوں پر دل جمعی سے قائم رہنے والے قیوم بدر اس ادیب کا نام ہے جو اپنے عہد کی ادبی تصاویر میں ایک دیوقامت تصویر ہے۔اس تصویر میں ان کی خالص ادبی خدمات کے رنگ بھرے ہیں۔طالب علمی کے زمانے سے شاعری کے دلدادہ ہیں اور یہ خیال اغلب ہے کہ تخلص “بدر” بھی شاعری کی کسی حسین دیوی کے خیالوں کا عکس ہو۔چشمۂ رحمت سے تعلیم حاصل کی اور اس علم تعلیم کو اتنی وسعت دی کہ دنیائے ادب میں اپنی شناخت اپنے قلم کے زور پر بنائی یقیناً حروف سےلفظ اور لفظ سے جملے اور جملوں میں دل کی بات رکھ دینا آسان کام نہیں مگر اس کام کو ایک زمانے سے قیوم بدر کرتے آرہے ہیں۔گرچہ ان کا میدان طنز ومزاح ہے مگر ساحر کی شاعری کے اسیر ہیں۔کبھی کبھی ان کے گفتگو میں نہ جانے کیوں مجاز کا رنگ آجاتا ہے مزاح کا آتا تو کسی طور پر حیرانی کی بات نہ تھی۔ زندگی کے نشیب وفراز میں قیوم بدر نہیں بدلے ایک زمانے سے وہ جسمانی مریضوں کے نبض پکڑ کر بیماری کی تشخیص کرتے کبھی ٹیبلیٹ اور کیپسول سے ٹھیک کرتے تو کبھی انجیکشن رگوں میں سرایت کر دیتے اور یہ سلسلہ بدستور آج بھی قائم ہے۔اب بھی دوا ہی تجویز کرتے ہیں مگر زیادہ تر کڑوے سیرپ ہی۔ کچھ دنوں معلمی کے فرائض بھی انجام دی جس کی جھلک آج بھی ان کی جہاں دیدہ آنکھوں میں اور تحریر کی دلکشی میں ملتی ہے مگر یہ گردش فلک کسےچین دیتی ہے جو قیوم بدر کو دیتی ہاں ! مگر اس گردش فلک کو انہوں نے ادب میں ملا کر ملک اور بیرون ملک کی خوب سیر کرائی اور دیار غیر میں بھی اس وقت رسائی حاصل کی جب دنیا مٹھی میں قید نہیں تھی اور لوگ انٹرنیٹ سےنہیں اپنی قابلیت سے وہاں پہنچ پاتے تھے۔دوستوں میں بہت پسند کئے جانے والے کے دوستوں میں رئیس اور مہیندر دونوں شامل رہیں اور جیون کے پگ پر کسی کے ہاتھ کاندھے پر رہیں تو کسی کے ہاتھ ہاتھ میں۔
ادبی لگن اس نہج پر تھی کہ موتی نکالنے کے لئے صدف نکالا اور ادارت کے فرائض بھی نبھائے۔کچھ دنوں کےلئے “آزاد ہند” کو بھی اپنی خدمات دی۔ناریل کے پیڑ سے سیب لٹکانے والے اس مزاح نگار کے ہاتھوں کئی آئینے بھی گر کر ٹوٹے اور کبھی “خس کم ” کرنے کی کوشش بھی کی۔زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اس میں مزاح کا پہلو ڈھونڈ لیتے ہیں ان کی مزاح کی متلاشی نگاہوں کو دیکھ کر بخوبی پتا چلتا ہے کہ ان نگاہوں میں حیات کئی پرتوں میں لپٹی سو رہی ہیں۔جیسے ان کی “ایک بات ” میں کئ باتیں پنہاں ہوتی ہیں۔زندگی زندہ دلی کا نام ہے وہ اس بات کے پرچارک معلوم ہوتے ہیں۔موقع کوئی بھی ہو ان کی موجودگی محفل کو زعفران زار بنانے میں کبھی نہیں چوکتی۔دنیا کا بڑا سے بڑا بولنے والا شہر خموشاں میں چپ ہو جاتا ہے مگر یہ وہاں سے بھی بولتے ہیں۔نظریں نیچی کئے ہوئے خراماں خراماں اپنی مگن میں رہتے ہیں۔چائے سے ایسی انسیت ہے کہ چائے نہ ہوا خدا کی قسم ہوئی جس پر ہر حال لبیک کہنا ہی ہوتا ہے۔خیر چائے ایسی ظالم چیز ہے ہی اچھے اچھوں کو بیٹھا دیتی ہے۔میں خود اس کا کٹر حمایتی ہوں اور اس کے بغیر جینا بھی کیا جینا ہے۔ان کا ڈیرا وہی جمتا ہے جہاں احباب جمے ہو۔قیوم بدر کی ظاہری اور باطنی پہلو چائے کے پہلے اور چائے کے بعد نمایاں ہوتی ہیں۔واقعات کی روداد ایسے بیان کرتے ہیں جیسے یہ کل کی بات ہو کبھی کبھی سامنے والے کو بھی یہ روداد ازبر ہوجاتے ہیں۔پتلون ،قمیض اور کوٹ کے ساتھ گلے سے لپٹے مفلر جس کا ایک سرا پیچھے اور دوسرا آگے کی جانب لٹکا رہتا ہے انہیں خوب زیب دیتا ہے۔عموما پڑھنے کے دوران یا نشستوں میں وہ چشمے کا استعمال کرتے ہیں باقی اوقات میں چشمے کو یوں جھڑک دیتے ہیں جیسے کہہ رہے ہو میں نے بہ چشم خود دنیا کی حقیقت دیکھ لی ہے اب تو مزید دیکھنے کا بہانہ کرتا ہوں۔
طبعیت میں ایسی جولانی ہے کہ جب خاموش بیٹھےہو تو بھی ہاتھ کی انگلیاں متحرک رہتی ہیں بیٹھنے کی جگہ پر ہی ہاتھ قلم ہوجاتے ہیں۔میں نے ایک چیز بڑی شدت سے محسوس کیا ہے کہ شاعر یا ادیب جب بڑھاپے کی دہلیز میں قدم رکھتا ہے تو جوان ہوتا ہے اور اس بنا پر میرا اپنا ماننا ہے کہ فن کار ہمیشہ جوان ہوتا ہے کیونکہ جوانی کیفیت ہے، جذبات ہیں ،احساسات ہیں جن کی عمر کبھی نہیں ڈھلتی ،جوانی عمر کی کوئی منزل نہیں بس ایک پڑاؤ ہے۔
قہقہوں میں گم ہوتیں غم کی لکیریں چہرے پر عیاں نہیں ہوتی ہیں مگر اس کی ٹیس کا احساس جابجا ہوتا ہے۔قیوم بدر اس ٹیس کو ٹینس کابال بناتے ہوئے ایک شارٹ کھیل دیتے ہے۔ زندگی نے کیا دیا ،کیا لیا ،کیوں لیا؟ ان تمام باتوں کو منہ نہیں لگاتے اور اچھا ہی کرتے ہیں دکھوں سے بھری اس دنیا میں اپنا ہی ایک دکھ تو نہیں ہے۔قیوم بدر اپنے مضامین میں کثرت سے اشعار کا استعمال کرتے ہیں جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ بھلے سے طنز ومزاح نگار ہوں مگر دل کے کسی کونے میں ایک شاعر ضرور آسن جمائے بیٹھا ہے ورنہ اشعار سے ایسی رغبت نثر نگاروں کے یہاں شاذونادر ہی پائی جاتی ہے۔کپڑے کبھی چست نہیں پہنتے مگر جملے چست ہی استعمال کرتے ہیں۔
ابتدائی دنوں میں قیوم بدر افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوئے اور گچھ افسانے لکھے۔ اور پھر اپنے منتخب کئے میدان عمل کو چن لیا۔ہر انسان اپنی پسند اور ناپسند رکھتا ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے قیوم بدر کی بھی اپنی پسند اور ناپسند چیزیں ہیں جن سے وہ بیزار رہتے ہیں اور کبھی کبھی کچوکے بھی لگاتے رہتے ہیں۔جراحی تو ان کا پیشہ نہیں رہا مگر وقتاً فوقتاً یہ بھی کرلیتے ہیں۔اب آپ ہی سوچئے گرم چائے کو پلک جھپکتے حلق سے اتار لیتے ہیں مگر ٹھنڈیے پانی کو سر سے پاؤں تک انڈیلنے میں گھنٹوں لگا دیتے ہیں جب تک پوری بالٹی نہیں بھرتی اس کا انتظار کرتے ہیں اور گھنٹوں نہایا کرتے ہیں غالباََ کسی واقعے کا حصہ بن جاتے ہوں گے اور تصورات کے آئینے میں اس میں ظرافت تلاش کرتے ہوئے وہ کئی بالٹیاں خود پر انڈیل لیتے ہوں گے ان کو بھی خبر نہیں ہوتی ہوگی یا یہ بھی ممکن ہے اسکول کے دنوں کو یاد کرتے ہوں۔یہ یادیں دیوانہ بنا دیتی ہیں بھول کر بھی یادوں کو اور وہ بھی خوشی کی یادوں یاد نہیں کرنی چاہئے ورنہ عمر ڈھلنے پر ایسی یادیں بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں وہ بھی جب محترمہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ہوں۔
طبیعت کی جولانی عمر کے ڈھلان پر جوان ہوتی ہے۔وقت اور حالات کے نشیب وفراز انسانی ذہن و فکر کو تھوڑے وقت کے لئے اپنے حصار میں لے سکتے ہیں مگر لمبے وقفے تک فنکار کو پابند سلاسل رکھنا گردشِ دوراں کے بس کی بات نہیں۔دیوانوں کا زنجیروں سے عاشقانہ بہت پرانا ہے لہذا فن کار ہر روز فن کار ہوتا ہے اور ہر گھنٹے فن کار ہی ہوتا ہے۔زندہ دلی فن کاروں کی میراث ہے اور یہ میراث قیوم بدر سنبھالے ہوئے ہیں۔حالیہ دنوں میں ان کے آنگن میں ایک چھوٹے قیوم بدر نے جب سے اپنا رعب جمایا ہے ان کی اپنی سلطنت کھونے لگی ہے مگر ان کو اپنی سلطنت کے کھونے کا ملال نہیں بلکہ حد درجہ خوشی ہے۔
اپنے پوتے میں خود کو دیکھ کر ان کی داداگیری اپنے عروج پر رہتی ہے اور ہو بھی کیوں نہ جب پوتے کی توتلی زبان سے دادا کا لفظ سنتے ہوں گے تو جذبات کی حدیں عمر کی سرحدیں ایک ان میں پھلانگ جاتی ہوں گی۔زندگی کی پر خار راہوں کو زعفران زار بنانے والے قیوم بدر کا قلم روزمرہ کے ناہمواریوں کے بیچ گل کاری کر رہا ہے اور مسلسل کرنے کا عزم رکھتا ہے۔
���������
نسیم اشک
جگتدل ،24 پرگنہ (شمال)
مغربی بنگال

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں