جرمنی میں پیشہ وارانہ خدمات کے شعبے میں ایک تہائی سے بھی زائد کارکن اپنا کام کم از کم جزوی طور پر گھر سے کرتے ہیں۔ اسی سہولت نے کووڈ کی عالمی وبا کے دنوں میں ’ورک فرام ہوم‘ یا ’ہوم آفس‘ کی اصطلاحات کو جنم دیا تھا۔ایک تازہ مطالعاتی جائزے کے مطابق جرمنی میں اکثر کارکنوں کے لیے گھر سے کام کرنا یا ہوم آفس اتنا نیا بھی نہیں ہے۔ اس لیے کہ پروفیشنل سروسز کے شعبے میں ایک تہائی سے بھی زیادہ کارکن ہر ہفتے کم از کم چند روز کے لیے تو گھر سے ہی کام کرتے ہیں۔
جرمنی کے ایک اقتصادی تحقیقی ادارے آئی ایف او (Ifo) کے مطابق روزگار کے کچھ شعبوں میں تو گھر سے کام کرنا اب پیشہ وارانہ زندگی کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ خاص طور پر سروس سیکٹر میں تو ہوم آفس کا رجحان کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد سے اور بھی رواج پکڑ چکا ہے۔
جرمن کارکنوں سے متعلق نئی تحقیق
جنوبی جرمن شہر میونخ میں قائم اقتصادی تحقیقی ادارے آئی ایف او کے مطابق جرمنی میں 24.1 فیصد یا تقریبا ایک چوتھائی کارکنوں نے فروری کے مہینے میں کم از کم جزوی طور پر اپنے پیشہ وارانہ فرائض گھر سے کام کرتے ہوئے انجام دیے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ اعداد و شمار کووڈ کی عالمی وبا کے دوران اس تناسب کے تقریبا برابر ہی ہیں، جب ملک بھر میں لاک ڈاؤن تھا اور گزشتہ چند برسوں کے دوران یہ بدلے ہوئے نظر نہیں آئے۔
آئی ایف او کے ایک محقق ژاں وکٹر علی پور کے مطابق، یہ تناسب گزشتہ تقریبا دو سال سے اتنا ہی ہے۔‘‘ انہوں نے بتایا، گھر سے کام کرنے کا نظریہ اب جرمنی میں ایک مسلمہ پیشہ وارانہ طرز عمل بن چکا ہے۔‘‘
تازہ مطالعاتی جائزے کے مطابق گھر سے کام کرنے کا رواج چھوٹے اور درمیانے درجے کے آجر اداروں میں مقابلتا کم دیکھا گیا۔ ایسے جرمن اداروں میں اوسطا20.5 فیصد ملازمین باقاعدگی سے ہوم آفس سے کرتے ہیں۔ اس کے برعکس بڑے آجر اداروں میں ایسے کارکنوں کا تناسب 32.1 فیصد رہا جبکہ سب سے اونچی شرح سروس سیکٹر میں ریکارڈ کی گئی، جہاں 34.1 فیصد کارکن گھر سے کام کرتے ہیں۔
کچھ شعبے ایسے بھی ہیں، جہاں کارکنوں کے کام کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ زیادہ تر اپنی جائے روزگار پر ہی اپنی خدمات بہتر طور پر انجام دے سکتے ہیں۔ مثلا اس سال فروری میں جرمن صنعتی شعبے میں صرف 16 فیصد کارکن ایسے تھے، جنہوں نے جزوی طور پر گھر سے کام کیا۔ تجارتی شعبے میں یہ شرح 12.2 فیصد اور تعمیراتی شعبے میں تو صرف 5.4 فیصد رہی۔
ژاں وکٹر علی پور کہتے ہیں، ‘اس بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ کئی شعبوں میں کارکنوں کا دفتر میں ایک ہی جگہ آمنے سامنے بیٹھ کر کام کرنا ہوم آفس سے بہتر ہوتا ہے۔ اس طرح ان کے درمیان معلومات کا تبادلہ بھی ہوتا ہے، تخلیقی صلاحیتیں بھی نمو پاتی ہیں اور ان کے آپس میں سماجی رابطے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔‘‘