مشتاق برق
کر کے تنکا تنکا نہ موڈ دو
مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو
بھٹکا ہوا ایک خیال ہوں
لٹکا ہوا ذلال ہوں
جھٹکا کے نہ مجھ کو جوڈ دو
مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو
آکاش کا میں مقال ہوں
پرکاش کا بھی مجال ہوں
تراش کے مجھ نہ کو توڈ دو
مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو
تاج ہوں میں زوال بھی
داج ہوں میں مجال بھی
محتاج کر کے نہ اوڈھ دو
مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو
رِواج کے میں مثال ہوں
سماج پہ بھی سوال ہوں
لاج بن کر نہ مروڈ دو
مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو
برق بھی گٹھا بھی میں ہوں
غرقِ مرتباں بھی ہوں
فرق جان کے نہ پھوڈ دو
مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو