ڈاکٹر قاضی سراج اظہر
آج کل والدین اپنے بچوں کو اردو مدارس کے بہ نسبت انگریزی میڈیم اسکول میں داخلہ دلوانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اگر ذرا ٹھنڈے ذہن سے سوچیں، ہاں ٹھنڈے دل سے نہیں ٹھنڈے ذہن سے سوچیں تو پتا چلے گا اس کا کوئ فائدہ نہیں ہے۔ تعلیمی میدان میں جتنی بھی جدید تحقیق ہوئ ہے یہی کہتی ہے کہ بچوں کو مادری زبان میں تعلیم دینے سے بچے اپنے دانشوری کے جوہر دیکھا سکتے ہیں۔ اُن میں تحقیقی اور تخلیقی صلاحیتیں اُجاگر ہوتی ہیں۔ ہم بچوں کو غیرمادری اور غیر ملکی زبان یعنی انگریزی میڈیم اسکول میں تعلیم دلوارہے ہیں اس کا کوئ فائدہ نہیں۔ یاد رکھیں والدین ایسا کرکے آئندہ بہت پچھتائیں گے۔ مستقبل میں ہمارے بچوں کی کچھ انگریزی میں بات چیت کرنے والی نسلیں پیدا ہونگیں جو اپنی مادری زبان سے بے بہرہ ہونگیں، لیکن میں پھر سے آپ کو ذہن نشیں کرادوں تعلیم کا مقصد صرف انگریزی سیکھنا نہیں ہے۔ آنے والا وقت ہماری قوم کو سبق سیکھائے گا مگر جب تک بہت دیر ہو چُکی ہوگی۔ بُرا نہ مانیں یہ انگریزی مدارس ہمارے بچوں کو سوائے نقصان کے کوئ اور فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔ اس کے کئ وجوہات ہیں۔ مگر صرف دس نکات یہاں پیش کرونگا۔
۱- پہلی وجہ انگریزی اُن کی مادری زبان نہیں ہے۔ نہ ہی یہ محلے والوں کی، خاندان والوں کی، اور نہ ہی ان کے دوست احباب کی زبان ہے۔
۲- ابتدائ بنیادی تعلیم نہایت اہم ہوتی ہے جب کہ بچوں کا دماغ نشونما پاتا ہے۔ اگر تعلیم مادری زبان میں نہ ہو تو اُن کے عصبی جوڑ (neuronal connections) جو رحمِ مادر سے مرکزِ تکلم (speech center) میں بن گئے تھے اُلجھ جائینگے۔ جس سے ذہنی انتشار اور اکتسابی مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔ بچے اپنی دماغی نشونما پہلے چھ سال اپنی مادری زبان میں بول چال سے سیکھتے ہیں۔ اگر ہم اُنکو مکمل اجنبی زبان کے اسکول میں داخلہ دلوائیں تو اُنکی ذہانت پر بہت بُرا اثر ہوتا ہے۔
۳- ہندوستان کی نئی قومی تعلیمی پالیسی (2020 NEP) بھی یہی کہتی ہے۔ بچوں کی تحتانوی تعلیم پانچویں جماعت تک کسی بھی صورت میں صرف مادری زبان میں ہی ہونی چاہئے۔ ہائ اسکول تک اگر ہوتو بہت ہی بہتر ہے۔
۴- یونیسکو ( 3008b UNESCO) کا عالمی ادارہ اس بات کی تصدیق کرتا ہےکہ جو بچے اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ ذہنی طور پر کافی ہوشیار ہوتے ہیں۔ اُن میں تحقیقی اور تخلیقی صلاحیت کافی عروج پر ہوتی ہے۔ ایسے ممالک جو ترقی یافتہ ہیں بنیادی تعلیم اپنے بچوں کو مادری زبان میں دیتے ہیں۔
۵- دسویں جماعت کا امتحان ہو یا بارہویں جماعت کا امتحان ہو یہ نہیں دیکھا جاتا کہ وہ انگلش میڈیم کا طالبِ علم ہے یا اردو یا کوئ اور مقامی زبان کے میڈیم کا، بلکہ تمام مضامین کے جملہ نشانات دیکھے جاتے ہیں۔انہی نشانات کے بدولت طلبہ کو اچھے کالجوں میں داخلہ دیا جاتا ہے۔
۶- یہ جدید تحقیق سے معلوم ہوا کہ جوبچے اپنی مادری زبان کی کلاسوں سے نکال کر انگریزی میڈیم کی جماعتوں میں شریک کروائے گئے اور جب اُن کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہونے لگی اور ناکامی کے ڈر سے پھر اُنہیں مادری زبان کی جماعتوں میں واپس لایا گیا تو وہی بچے امتیازی نشانات سے کامیابی حاصل کئے۔ یہ تحقیق شدہ امر ہے۔
۷- غیرمادری زبان جیسے انگریزی میڈیم میں پڑھنے والے بچوں کا مقصد صرف انگریزی سیکھنا ہوتا ہے۔ دوسرے مضامین جیسے سائنس ریاضی، اور عمرانیات جیسے اہم مضامین غیر ملکی زبان میں سمجھنا اور اپنے الفاظ میں ان کا اظہارِ خیال کرنا اور لکھنا اُن کے لئے نہایت ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ اس لئے یہ ساری باتیں یا تو رٹوادی جاتی ہیں یا لکھوادی جاتی ہیں۔ اساتذہ کی بھی مادری زبان انگریزی نہیں ہے اس لئے انگریزی سوالات جوابات رٹنے رٹانے کے سوا اُن کے پاس کوئ چارہ نہیں ہوتا، جسے انگریزی میں rote learning کہتے ہیں۔ اس طرح کی تعلیم سے بچوں میں اکتسابی کمزوری، تحقیقی و تخلیقی صلاحیتوں کی پامالی ہوتی ہے۔
۸- اکثر ہندوستان میں لو گ یہ سمجھتے ہیں انگریزی مدارس میں معیاری تعلیم ہوتی ہے۔ یہ بہت بڑا دھوکا اور ڈھکوسلا ہے۔ بچے اسکول میں کیا سیکھتے ہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن گھر آکر سوالات جوابات رٹتے ہیں تو ماں باپ اُس کو معیاری تعلیم سمجھتے ہیں۔ یہ ایسا ہے جیسے بے سوچے سمجھے چند قرآن کی آیتیں حفظ کرلیں اور دوہرا دیں۔
۹- نرسری جماعت سے ہی رٹنا شروع ہوجاتا ہے۔ جیسے twinkle twinkle little star۔ نہ تو ماں باپ جانتے ہیں twinkle کیا ہے اور نہ محلے والے جانتے ہیں۔ کوئ مہمان گھر پر آئے اور ہمارے طوطے میاں سے کہا جائے چلو شروع ہوجاؤ بچہ کوئ رٹی ہوئ نظم سُنائے گا، اس پر ماں باپ خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے۔ جیسے انہوں نے اور بچے نے بہت بڑا تیر مارا ہے۔ سراسر ماں باپ کو فریب اور جھانسا دیا جارہا ہے۔ اب تک انگریزی میڈیم مدارس سے کئ نسلیں تباہ ہوگئ ہیں۔ صرف اس کا فائدہ انگریزی مدارس کے مالکان کو ہوا۔ آج انہوں نے والدین کو اتنا لوٹا ہے کہ مہنگی مہنگی کاروں میں گھومتے ہیں۔علیشان محلوں میں رہتے ہیں۔ کئ تو ان مدارس کے مالکان انگریزی میڈیم میں تعلیم پاکر انجنیرس تھے۔ اس کے باوجود اُنہیں انجنیرنگ میں نوکری نہیں مل سکی تو انگریزی اسکول کھول لئے ہیں ۔ کئ تو ٹیکسی یا UBER چلا کر انجنیرس سے زیاد کما رہے ہیں۔
۱۰- رہی بات حکومت کا فیصلہ اردو سرکاری مدارس میں انگریزی میڈیم اسکولوں کا کھولنا۔ یہ بہت بڑی سازش کا حصہ ہے۔ والدین کو اُنہی کے نفسیاتی جال میں پھنسایا جارہا ہے۔ ایک تو بچوں کا اس سے بہت بڑا نقصان ہوگا۔ کل تک جو طلبہ اردو میڈیم سے اعلی نشانات میں دسویں یا بارہویں کے امتحان میں امتیازی کامیابی حاصل کرتے تھے اب اُن کے لئے پاس ہونا بھی مشکل ہو جائیگا ۔ یہ سب میں بڑا نقصان ہے۔ دوسرا بڑا نقصان مسلم آبادی کو ہوگا۔ ان سرکاری مدارس میں جیسے ہی مسلم اساتذہ وظیفے پر سبکدوش ہوں گے اُن کو غیر مسلم اساتذہ سے بدل دیا جائیگا ۔ کیونکہ یہ انگریزی اسکول ہوجائینگے، یہاں مسلم ٹیچرس جو اردو جانتے ہوں اُن کی ضرورت نہیں رہیگی۔ جانتے ہیں کتنے ہزار اردو اساتذہ کی جائدادیں ختم ہوجائینگیں۔ پہلے ہی اردو اسکول کے صدر مدرس، کنڑی زبان، پی ٹی ٹیچرس، اور انگریزی زبان کے ٹیچروں کا تقرر غیر مسلم اساتذہ سے ہورہا ہے۔ اُس وقت تو ان مدارس کا پورا ماحول غیر مسلم تہذیب کا آئینہ دار ہوجائے گا۔ اِس سے بھی زیادہ نقصان مسلمان عوام کا ہوگا، اُن سے سرکاری تدریسی پیشے کی ملازمتیں چھن جائینگیں۔ جن کی تنخواہیں ایک لاکھ سے تجاوز کرگئ تھیں۔ مسلمانوں کیلئے صرف سرکاری اسکولوں کی ملازمتیں ہی نہیں بلکہ اس کا اثر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی دیکھا جارہا ہے۔ کئ اردو اور عربی کے شعبے (departments) بند ہوگئے ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ ماں باپ اپنے بچوں کو انگریزی مدارس میں داخلہ دلوا کر آئندہ خود اپنے پیر پر آپ کلہاڑی ماررہے ہیں۔ انگریزی مدارس نے ہر طرح سے مسلمانوں کو ہی نقصان پہنچایا ہے۔
وَمَا تَوفِیقِی اِلّا بِاللّٰہِ
ڈاکٹر قاضی سراج اظہر، بی ایس سی، بی ایڈ، ایم ڈی، ایف سی اے پی، ایف اے ایس سی پی۔
وائس چیف آف اسٹاف ہرلی میڈیکل سنٹر، فِلِنٹ، مشیگن۔ امریکہ
اسوسیٹ کلینکل پروفیسر، مشیگن اسٹیٹ یونیورسٹی، امریکہ
چیرمن ڈیپارٹمنٹ آف پیتھالوجی، ہرلی میڈیکل سنٹر،فِلِنٹ، مشیگن، امریکہ