عشق کے امتحاں 0

عشق کے امتحاں

ملک‌ منظور

چوتھا پنّا

آخر بات کیا ہے ۔ارشید اتنا گم سم کیوں رہتا ہے ۔گھر کے سبھی افراد یہی سوچ رہے تھے ۔تمنا بھائی کے الجھنوں کو سلجھانا چاہتی تھی مگر اس میں حسین کا ہاتھ ہے سوچ کر وہ عجیب کشمکش میں مبتلا ہوجاتی ۔ایک طرف حسین کی محبت اور دوسری طرف بھائی کا رشتہ۔
اگلے دن پولیس کا ایک آفیسر ارشید کو گرفتار کرنے کے لئے ان کے گھر پہنچا ۔تمنا اور اس کے گھر کے سبھی افراد دھنگ رہ گئے ۔تمنا کے باپ اشرف صاحب نے باہر آکر آفیسر کو اندر آنے کے لئے کہا ۔آفیسر نے‌مکان کا بھرپور جائزہ لے کر کہا : عالیشان بنگلہ ہے ۔
اشرف صاحب نے کہا : جی خدا کا فضل و عنایت ہے ۔
خدا کا فضل یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آفیسر نے طنز کستے ہوئے کہا۔
کمرے میں بیٹھ کر اشرف صاحب نے آفیسر سے پوچھا: کیا لیں گے جناب ۔چائے یا ٹھنڈا ؟
آفیسر نے سخت لہجے میں کہا: ہم ارشید کو لینے آئے ہیں ۔
چائے یا ٹھنڈا نہیں ۔
لیکن کیوں ؟ اس نے کیا جرم کیا ہے جو آپ کو گھر تک آنا پڑا ۔اشرف صاحب نے دریافت کی نظریہ سے پوچھا۔
آفیسر ۔۔یہ آپ ارشید سے پوچھے کہ اس نے حسین صاحب کی فیملی کے ساتھ کیا کیا تھا ۔
میں سمجھا نہیں ۔اشرف صاحب نے سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
کچھ باتوں سے انسان جان بوجھ کر انجان بن جاتا ہے ۔لیکن وہ بھول جاتاہے کہ آنکھیں بند کرنے سے مصیبت نہیں ٹلتی ۔
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کے اکسانے پر ہی آپ کے بیٹے نے حسین صاحب کو آپ کی بیٹی سے دور کیا تھا ۔ اب اس کے بعد کیا ہوا اسکی پرواہ بھی نہیں کی ۔جس کا لازمی نتیجہ آج کا دن ہے ۔ پولیس آفیسر نے اشارہ دیتے ہوئے کہا ۔
تمنا نے جب یہ باتیں سنی تو وہ سمجھ گئی کہ اس کے بھائی نے ضرور حسین کے ساتھ کچھ غلط کیا ہے ۔حسین کے اچانک غائب ہونے کی وجہ ا س کا بھائی ‌تھا ۔لیکن‌اس نے کیا کیا ہے ؟ وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔
ادھر پولیس آفیسر نے گھر سے نکلتے وقت کہا۔ بہتر ہوگا اگر آپ ارشید کو خود سپرد کریں گے ورنہ بلا ضمانت وارنٹ نکلے گی اور پھر آپ کچھ نہیں کرسکتے ۔
پولیس آفیسر کے جانے کے بعد گھر کے سبھی افراد ایک ہی کمرے میں بڑے پریشان اور ڈرے ہوئے بیٹھ گئے ۔پھر خاموشی توڑتے ہوئے باپ نے تمنا سے کہا : بیٹا اب سب کچھ تمہارے ہاتھ میں ہے ۔تم ہی اپنے بھائی کو بچا سکتی ہو ۔
پاپا آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ۔میں سمجھی نہیں ۔تمنا نے حیرانی سے پوچھا۔
تم حسین سے بات کرو ۔اس معاملے میں وہی ہماری مدد کرسکتا ہے ۔بھائی نے بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
تمنا حیران رہ گئی آخر اس کے گھر والے چاہتے کیا ہیں ۔وہ کیسے بھائی کو بچا سکتی ہے اور کیوں ؟
اس نے باپ سے مخاطب ہوکر پوچھا: پاپا آپ صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ معاملہ کیا ہے ۔
معاملہ کچھ بھی ہو بیٹی ۔ہم نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی تمہاری پسند کو نکارا۔ہم تمہاری شادی حسین کے ساتھ کریں گے ۔وہ اچھا لڑکا ہے۔تم‌حسین سے بات کرسکتی ہو ۔ باپ نے بات گھماتے ہوئے کہا ۔
پاپا آپ کہہ کیا رہے ہو آپ کو اندازہ ہے کہ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟ آپ کو یاد ہے کہ آپ نے اس دن مجھ سے کیا کہا تھا ۔وہ مڈل کلاس لڑکا ہے اس کی آمدنی کم ہے اور سوچ چھوٹی ۔آپ نے اس کو مجھ سے دور کیا ۔تب آپ دولت کے ترازو میں اس کو تول رہے تھے اور اب رحم کے ترازو میں۔اب وہ بڑا آفیسر کیا بن گیا آپ کی سوچ ہی بدل گئی ۔
لیکن میں ایسا نہیں کروں گی ۔وہ مجھے آپ کی مرضی سے چھوڑ کر بھاگ گیا ۔اور اب میں آپ کی مرضی سے اس کو نہیں ملوں گی ۔ آپ خودغرض اور موقع پرست ہو ۔‌آپ اپنی‌عزت کے خاطر مجھے مہرا بنانا چاہتے ہیں ۔
بیٹیاں کھلونا نہیں ہوتیں جن کے ساتھ جب چاہیں کھلیں اور جب چاہیں بیچ دیں۔
تمنا کی باتوں نے سب کو جھنجھوڑ دیا ۔ماں بیچاری رورہی تھی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ اس کی بیٹی تکبر اور جھوٹی انا کے لئے بلی کا بکرا بن رہی ہے۔۔بڑاا بھائی چہرہ دیوار کی طرف موڑ کر خاموش کھڑا تھا ۔باپ من‌میں کہیں باتیں چھپا ۔
کر خاموش تھا ۔اسی اثنا میں چھوٹا بھائی ارشید کمرے میں داخل ہوگیا اور بہن کے سامنےگڑ گڑانے لگا ۔ بہن مجھے اس چنگل سے نکالو مجھ سے غلطی ہوئی ہے ۔مجھے جیل نہیں جانا ہے ۔تم بچا سکتی ہو مجھے ۔یہ تمہارا امتحان ہے ۔اور تمہارے عشق کا بھی ۔
کس عشق کا امتحان ارشید کس عشق کا امتحان ۔وہ عشق اسی دن ناکام ہوگیا تھا جس دن آپ نے اس کو مجھ سے ڈرا کر بھگا دیا تھا ۔اس کے بعد میں نے اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہا ۔یہ سب کچھ ہوگیا لیکن اس نے کبھی مڑکر میری خبر بھی کسی سے نہیں پوچھی ۔اب تو حسین اسی شہر میں ہے ۔وہ جانتا ہے نا کہ میں اسی شہر کی رہنے والی ہوں ۔کیا اس نے کبھی مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی یا کسی سے میرا حال دریافت کیا ۔نہیں نا ۔
تو آپ ہی بتاؤ کیا میرا عشق ذندہ ہے یا ختم ہوگیا ہے ۔
مجھے نہیں معلوم آپ نے اس کے ساتھ ایسا کیا کیا جو وہ میرا نام بھی نہیں لے رہا ہے ۔
تمنا نے زور زور سے روتے ہوئے گھر والوں سے پوچھا بڑے بھائی نے کہا : تمنا ٹھیک کہہ رہے ہے اس معاملے میں یہ کچھ نہیں کرسکتی ہے آخر سیلف رسپیکٹ بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔
پھر تو ارشید جیل جائے گا ۔اشرف صاحب نے گھمبیر انداذ میں کہا۔
تمنا نے پھر پوچھا: ارشید تونے‌ایسا کیا کیا ہے جو جیل جانے کی نوبت آگئی ۔
کچھ نہیں بہن ۔میں نے‌اس کو تمہاری زندگی سے ہٹانے کے لئے گھر جاکر دھمکایا تھا ۔مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس‌کا باپ دل کا مریض ہے ۔جب حسین نے‌میری‌بات نہیں مانی تو میں نے اس کے ماتھے پر غصے میں طمنچہ تانا ۔جس کی وجہ سے اس کے‌باپ کو دل کا دورہ پڑ گیا اور وہ۔۔۔۔ ارشید نے راز کھولتے ہوئے کہا ۔
اور وہ مرگیا ۔۔۔تمنا نے چلاتے ہوئے کہا وہ رو رو کے کہہ رہی تھی ۔۔حسین کے باپ نے آپ کا کیا بگاڑا تھا ۔میری سزا اس کو کیوں ملی ۔حسین کا باپ اس کی کائنات تھا۔
��
������
ملک منظور قصبہ کھل کولگام
قصبہ کھل کولگام 9906598163

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں