وہی سڑک، وہی جگہ۔۔۔۔ 0

وہی سڑک، وہی جگہ۔۔۔۔

وانی مشتاق

معمول کی طرح ہم اس روز بھی ایک جگہ جمع تھے۔ وہی سڑک، وہی جانے پہچانے لوگ، وہی روز مرہ کی باتیں، وہی پرانی گفتگو، وہی ڈھلتی شام، وہی کڑاکے کی ٹھنڈ، وہی پرانی تہذیب۔۔۔۔۔۔ ہر کوئی اپنی دھن میں مست، بچے دوڑ دھوپ میں مشغول، عورتیں کھانے پکانے میں مصروف، نوجوان لڑکے گمراہی کی دہلیز پر گامزن، دوشیزائیں بنا کسی خوف و ڈر کے سڑک پر ٹولیوں میں بیٹھی حیا کی چادر کو پیروں تلے گھسیٹتی ہویی زور زور سے قہقہے لگانے میں محو۔۔۔ اور بوڑھے آدمی ایک دوسرے کی چاپلوسی کرنے میں مگن۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ایک شے اور ہر ایک فرد تو معمول کی طرح اپنے اپنے کام میں مست و مگن نظر آ رہا تھا۔ پھر کیا تھا جس کو میں نے محسوس کیا۔ میں کیوں اداس ہو رہا تھا۔ من ہی من میں رو رہا تھا۔ جانے یہ کیا ہو رہا تھا۔ کچھ تو تھا جو کھو رہا تھا۔ دھڑکن جیسے رک گئی، آنکھیں بھی جھک گیی، مجبور دل، آنکھیں سہمی سی، لب خاموشی کو اختیار کیے ہوئے۔۔۔۔ پھر اچانک ایک زندہ دل کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ۔۔۔۔۔
آلسی، اداسی، مفلسی، خود غرضی، بے حیائ، چاپلوسی، بے ایمانی، گمراہی، بے ہوشی، مستی اور پستی کو دور کرو۔۔۔۔ وقت بھی ہے، موقع بھی، نزاکت بھی، دستور بھی، ضرورت بھی، غنیمت بھی اور منتظر بھی تو ہی ہے،،،،
اے منتظر اٹھ کھڑا ہو اور کمر کسو اور حق پرستی، انسان دوستی، آخرت پسندی، ایمانداری اور نیک نیتی کو قائم کر۔۔۔مت کر دیر، نہ سمجھ کھیل، ہو گیی جو دیر، ہو جاؤگے ڈھیر، کیا ہے کویی دلیر، جو دور کرے اندھیر، ارے اے نوجوان تو کیوں ہے مست، قوم ہو گیی پست، اب نہ کر اور انتظار، ورنہ تو جایے گا مار، پھر ہوگا ذلیل و خار، کیا سہن کر پائے گا خدا کا مار، مہلت تجھے دیتا ہے بار بار، ہر بار تونے تو کیا انکار، سچ میں ہوگیا ہے تو سب سے بیکار۔۔۔۔۔
یہ سب باتیں، سبق آموز باتیں کہہ کر وہ ایک دم میری آنکھوں سے اوجھل ہوگیا اور میں۔۔۔۔۔ پھر کچھ دن گزرتے ہی آسمان پر سیاہ بادل، کالے بادل، موسلادھار دھواں دار بارش شروع۔ میں اس طوفان کو اس خطرے کو بھانپ چکا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی پر کوئی اپنے کرتوتوں سے باز نہ آیا۔ پھر کیا تھا آخر کار کالا دھواں سب کو اپنی لپیٹ میں لے چلا اور چھوڑ کے گیا مجھے یہاں۔۔۔
پیچھے جو رہ گیا۔۔۔
کیا تھا۔۔۔۔
وہی سڑک، وہی جگہ۔۔۔۔
���
وانی مشتاق
دانگام شوپیان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں