ملک میں مسلم سماج کی تعلیمی پسماندگی 0

ملک میں مسلم سماج کی تعلیمی پسماندگی

لحظہ ای برائے فکر کردن
معراج زرگر

بھارت کا شاندار آئین ملک کے ہر ایک باشندے کو تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرتا ہے۔ اور اسی آئین کی پاسداری کرتے ہوئے تعلیم اور روزگار سے منسلک ہر ایک ادارہ اور ان اداروں کی ذیلی شاخائیں بلا لحاظ مذہب و مسلک اور رنگ و نسل ہر فرقے کے ہر فرد کو نہ صرف مواقع فراہم کرتا ہے بلکہ مواقع کو حاصل کرنے میں ہر فرد کی مدد اور رہنمائی بھی کرتے ہیں۔
ملک کی موجودہ سرکار کے ایک مشہور وزیر جناب نِتِن گڈکری جو کہ روڑ ٹرانسپورٹ اور ہائی ویز کے مرکزی وزیر ہیں۔ وہ اپنی ایک دو تقریروں میں مسلمانوں سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ “مسلمانوں کو پچھتر سالوں میں کیا ملا۔۔۔۔۔؟ چائے کی دکان، پان کا ٹھیلا کباڑی کی دکان، ٹرک ڈرائیوری، کلینری، پنساری کی دکان، رکشا سائیکل۔۔۔۔وہ مزید کہتے ہیں کہ مسلمان کو تعلیم حاصل کرنے سے کس نے روکا۔ کیا مسلمان ڈاکٹر، سافٹ وئیر انجینیر، کرکٹ یا ہاکی کا کھلاڈی نہیں بن سکتا۔۔؟۔ کیا وہ ہمیشہ جھونپڑ پٹی میں رہے گا۔۔؟ کیا مسلم سماج تعلیم حاصل کرکے اور کمپیوٹر سیکھ کر دنیا بھر میں روزگار حاصل کرکے ڈالر نہیں کما سکتا۔۔۔؟” وہ شاید سچ کہہ رہے ہیں۔
ملک میں مسلمانوں کے حقوق اور تعلیم و روزگار کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں اور افراد کا بھی یہی واویلا ہے کہ مسلمان وقت کے تقاضوں کو بھانپ کر اور جدید تعلیم اور روزگار کے وسیلوں اور معیارات کو سمجھ کر اپنے بچوں کو پڑھائیں اور جو لوگ اس قابل نہیں کہ وہ پڑھائی کا خرچہ اٹھاسکیں ان کے لئے مسلم سماج کے امیر لوگ آگے آئیں اور پچھڑے ہوئے طبقے کے بچوں کے لئے تعلیم کا بندوبست کریں۔
ملک کے مشہور انگریزی اخبار ” دِی ہِندو” کی 30 نومبر 2023 کی ایک خبر جو یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن (UDISE) اور آل انڈیا سروے آف ہائیر ایجوکیشن (AISHE) کی ایک رپورٹ پر مبنی ہے۔ کے مطابق پورے ملک میں 18 سے 23 سال کے درمیان کے مسلمان طالبان علم کی ہائیر ایجوکیشن میں داخلے کی شرح میں پچھلے 5 سالوں میں بھیانک 8٠50 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ سروے کے مطابق 2019-20 میں 21 لاکھ مسلمان طلباء کالج سطح میں داخل تھے۔ اور سال 2020۔21 میں یہ تعداد 19 لاکھ 21 ہزار رہی۔
پروفیسر ارون مہتا جو نیشنل انسٹی چیوٹ آف ایجوکیشن پلاننگ اور ایڈمینسٹریشن سے وابستہ ہیں۔ نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ “دی سٹیٹ آف مسلم ایجوکیشن اِن انڈیا” میں لکھا ہے کہ 2016۔17 میں ہائیر ایجوکیشن میں مسلمان طلبا کی تعداد17,39,218تھی جبکہ 2019۔20 میں یہ بڑھ کر21, 00,860 تک پہنچ گئی۔ مگر 2020۔21 میں میں یہ تعداد گھٹ کر 19,21713 رہ گئی۔ یعنی 1,79,147 کی کمی واقع ہوگئی۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں مسلمانوں کی کالج سطح پر داخلے کی پچھلے سات سال میں کل شرح 4٠87 فیصد سے کم ہوکر 4٠64 فیصد رہ گئی۔
رپورٹ کے مطابق ملک کی ساری رہاستوں اور مرکز کے زیر انتظام یونین ٹیریٹریز میں مسلمانوں کی تعلیم کا یہی حال ہے۔ گیارہویں اور بارہویں جماعتوں میں ہر پچھلے سال کے مقابلے میں داخلے کی شرحوں میں کمی آرہی ہے۔ یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ مڈل جماعتوں سے ہی ایسا رجحان ہے۔ مگر داخلوں کی شرح میں سب سے زیادہ کمی گیارہویں اور بارہویں جماعتوں کے داخلے میں ہی پائی گئی۔
مسلمان طلباء اور طالبات کا پورے ملک کی آبادی میں پرائمری سطح پر کل داخلہ 6٠67 کروڑ یعنی 14٠42 فی صد ہے۔ سیکنڈری سطح پر یہ گھٹ کر 12٠62 فی صد رہ جاتا ہے۔ ہائیر اسکنڈری سطح پر مزید گھٹ کر یہ شرح 10٠76 فیصد رہ جاتی ہے۔ اور حیران کن اور تشویشناک حد تک یہ شرح کالج سطح تک آتے آتے 5 فیصد سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ بہار اور مدھیہ پردیش کی ریاستوں میں مسلمانوں کی تعلیمی اداروں میں داخلے کی شرح سب سے کم ہے۔
اسی طرح اسکولوں اور کالجوں سے مسلمانوں کا تعلیم چھوڑنے کی شرح باقی تمام مذاہب سے سب سے زیادہ ہے۔ مسلمانوں میں یہ شرح 18٠64 فی صد ہے جبکہ ملک میں یہ شرح 12٠60 فی صد ہے۔ ریاست آسام میں یہ شرح سب سے ذیادہ یعنی 29٠52 فی صد مغربی بنگال میں 23٠22 فی صد کیریلا میں 11٠91 فی صد ہے۔ خوش آئیند طور جموں و کشمیر میں اسکول چھوڑنے والے مسلمان طلبا اور طالبات کی شرح سب سے کم یعنی 5٠1 فی صد ہے۔
ملک میں نیشنل سروے سیمپل آفس(NSSO) کی مختلف مذاہب کی تعلیمی شرح پر ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی تعلیمی شرح سب سے کم ہے جب کہ عیسائیوں کی سب سے زیادہ ہے۔ مسلمان عورتوں یا لڑکیوں میں یہ شرح مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔ یہ اعداد و شمار تقریباََ ساڑھے چار لاکھ لوگوں کی سروے کرکے جمع کئے گئے۔
یہی حال ملک میں مسلمانوں کا روزگار حاصل کرنے کے اعداد و شمار کا ہے۔ نیشنل سیمپل سروے آف انڈیا (NSSI) کے پروگرام Periodic Labor Force Survey (PLFS) کے جولائی 2022 سے لیکر جون 2023 کے اعداد و شمار اور (Work Polulation Survey (WPS) کے مطابق مسلمانوں کا روزگار اور کام گاری میں حصہ داری کی شرح سب سے کم ہے۔ درجِ بالا سروے اور پروگرامز کا حدف ملک کے مختلف مذہبی گروہوں کا کام گاری اور روزگار میں حصے داری اور بے روز گاری کے اعداد و شمار دیکھنا تھا۔ ملک کے سب سے بڑے چار مختلف مذاہب , ہندو مت، اسلام، سکھ مذہب اور عیسائیت سے جڑے افراد کی کام گاری اور روزگار میں حصہ داری کے اعداد و شمار جمع کئے گئے۔
اس سروے سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں کام گاری میں مسلمانوں کی حصہ داری جو 2020۔21 میں 35٠50 فی صد تھی وہ گر کر 2021۔22 میں 35٠10 فی صد اور 2022۔23 میں مزید گر کر 32٠50 فی صد چلی گئی۔ جو کہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ اسی طرح ورک پارٹیسیپیشن سروے WPR سال 2020۔21 میں 33٠90 فی صد 2021۔22 میں 33٠50 فی صد اور 2022۔23 میں 32٠50 فی صد رہی۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ Labor Force Participation Ratio میں 2٠60 کی گراوٹ ہوئی اورWork Participation Ratio میں 1٠80 فی صد کی گراوٹ دیکھنے کو ملی۔
مندرجہ بالا اعدادو شمار سے یہی اخذ ہو رہا ہے کہ مسلم سماج ملک میں اب بھی تعلیم اور روزگار کو حاصل کرنے میں دیگر مذاہب کے لوگوں سے پیچھے ہیں۔ جس کی ذمہ داری براہ راست مسلمانوں پر عائد ہورہی ہے۔ ایک ایسے مذہب کے ماننے والے جن کے پیغمبر پر پہلی وحی تعلیم ہی کے ضمن میں نازل ہوئی تھی۔ اور جس کے ماننے والوں کو کسب کرنے اور حلال کھانے کی ترغیب دی گئی تھی۔ وہ اگر تعلیم اور روزگار میں ملک میں سب کے پیچھے ہیں تو یہ مسلمانوں کے زہنی، شعوری، معاشرتی اور معشیتی طرز عمل پر گھناونے سوالیہ نشان کھڑا کر رہا ہے۔ ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے وافر زرائع موجود ہیں۔ روزگار حاصل کرنے کی ہر ایک سہولت ہے مگر مسلم سماج اب بھی گھٹن اور دقیانوسیت کی زندگی کو ترجیح دے رہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان حالات اور مستقبل کے تعلیمی چیلینجز کو بھانپ کر سنجیدگی سے تعلیم کی طرف راغب ہوں جس کے نتیجے میں اعلی سے اعلی روزگار کے مواقع فراہم ہونگے۔ ساتھ ہی مسلم سماج سے جڑے امیر طبقے اور پڑھے لکھے طبقے کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ غریب اور مفلوک الحال طبقے کے لئے تعلیمی زرائع پیدا کرنے میں پیش پیش رہیں اور اپنی دولت اور وقت مسلم سماج کے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرکے کوئی دریخ نہ کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں