اللہ کی شریعت اور اللہ کے رسولوں سے بیزاری انسانیت کی تبائی کا پیش خیمہ 0

اللہ کی شریعت اور اللہ کے رسولوں سے بیزاری انسانیت کی تبائی کا پیش خیمہ

شوکت بڈھ نمبل کشمیری
بڈھ نمبل کپوارہ کشمیر

حضرت مُحَمَّد مسطفٰے ﷺ اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں۔ وہ تمام رسولوں اور نبیوں کے سردار ہیں۔ اُن کی رسالت کو ماننا ایمان کا بنیادی جُز ہے۔ وہ اللہ کی شریعت کو جاننے ،ماننے اور نافذ کرنے والے ہیں۔اگرچہ انہیں رسولوں اور نبیوں میں ایک منفرد و اعلی مقام حاصل ہے تاہم تمام رسول اور انبیاء اکرام اللہ کے برگزیدہ اور چنیدہ ہوتے ہیں۔ اللہ تعلی نے بنی نوع انسان کی رہنمائی کیلئے رسول اور انبیاء اکرام بھیجے تاکہ لوگوں کو اللہ کی شریعت سکھائیں اور انہیں اللہ کی احکام سے روشناس کریں۔ قرآنِ مبین میں اللہ تعلیٰ کا ارشاد ہے
وَجَعَلْنَاهُـمْ اَئِمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَاَوْحَيْنَـآ اِلَيْـهِـمْ فِعْلَ الْخَيْـرَاتِ وَاِقَامَ الصَّلَاةِ وَاِيْتَـآءَ الزَّكَاةِ ۖ وَكَانُـوْا لَنَا عَابِدِيْنَ
(سورة الانبياء:٧٣)
ترجمہ: اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا جو ہمارے حکم سے رہنمائی کیا کرتے تھے اور ہم نے انہیں اچھے کام کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا تھا، اور وہ ہماری ہی بندگی کیا کرتے تھے۔
رسول، اللہ کی طرف سے مقرر کردہ ہادی اور امام ہوتے ہیں۔ اللہ کا رسول امر و نہی کا اختیار رکھتا ہے اور شارع ہوتا ہے۔
کسی بھی شے کی حقیقت اُس کے مالک کو معلوم ہوتی ہے۔ اللہ تعلی تمام جہانوں اور ان میں رہنے والی مخلوق کے خالق و مالک ہیں۔ اللہ تعلی خوب جانتے ہیں کہ اس کے بندوں کیئے کیا ٹھیک ہے اور کیا غلط ہے۔ اللہ تعلی نے ہر چیز ایک خاص انداز میں پیدا کیا ہے۔ اللہ تعلی کا ارشاد ہے
اِنَّا كُلَّ شَیْءٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍ (سورة القمر: ٤٩ )
ترجمۂ :بے شک ہم نے ہرچیز ایک اندازہ سے پیدا فرمائی۔
اللہ کے احکام جاننےاور لوگوں تک پہنچانے والے اللہ کے رسول و پیغمبر ہوتے ہیں۔ لہذا رسول ہی خوب جانتے ہیں کہ اللہ کے ہاں کیا مقبول ہے کیا نہیں. لہذا رسولوں کی ذات صفات اور اعمال پر شک کرنا یا اعتراض جتانا مخلوق میں کسی کی بساط نہیں۔ بلکہ رسولوں کا ہر عمل اُمْت کیلئے قاعدہ و قانون ہوتا ہے۔ نیز ہر ایک شخص رسولوں کے ذریعے نافذ شدہ شریت الہٰی کا پابند ہوتا ہے۔ اللہ تعلی کا قرآن کریم میں واضح فیصلہ ہے
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُـوْنَ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا بِاللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ ثُـمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَجَاهَدُوْا بِاَمْوَالِـهِـمْ وَاَنْفُسِهِـمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۚ اُولٰٓئِكَ هُـمُ الصَّادِقُوْنَ (سمرہ :15)
ترجمہ: بے شک سچے مسلمان تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہ کیا اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا، وہی سچے (مسلمان) ہیں۔
کوئی چیز جائز یا ناجائز اور صحیح یا غلط ہے یہ جاننے والے یا متعین کر دینے والے اللہ اور اللہ کے رسول ہی ہیں۔ وہی خوب علم رکھتے ہیں۔
اللہ تعلی ہی کو ہمارے خیر و شر کا علم ہے اور اللہ ہی نے انسان میں خیر و شر میں امتیاز کرنے کا مادہ پیدائشی طور الہام فرما دیا ہے۔ اور پھر خیر و شر کی راہ سمجھا دی۔
جیسے اللہ تعلی کا ارشاد ہے
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا
( سورۃ الانسان: آیت ٣)
ترجمہ: بے شک ہم نے اسے (حق و باطل میں تمیز کرنے کے لئے شعور و بصیرت کی) راہ بھی دکھا دی، (اب) خواہ وہ شکر گزار ہو جائے یا ناشکر گزار رہے
اور دوسرے مقام پر اللہ تعلی فرماتے ہیں
وَهَدَيْناهُ النَّجْدَيْنِ
( سورۃ البلد: ایت ١٠)
ترجمہ: اور ہم نے اسے دونوں راستے دکھائے۔
غرض اللہ نے جو رسول اور انبیاء اکرام مبعوث فرمائے اور ان پر کتابِ شریعت و ھدایت نازل فرمائی اور اس کے ذریعے انسان کو سیدھا راستہ بتلایا ہے اُسی میں انسان کی فلاہ و بقا مضمر ہے ورنہ انسان خود سے کچھ نہیں جانتا۔ اللہ تعلی قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتے ہیں ۔
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْن ( سورة آل عمران )
ترجمہ: بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے ۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اورانہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقیناکھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔
اور پھر جو کام انسان اللہ کے حکم کے خلاف کرتا ہے وہ اس کی صریح نادانی کج فہمی اور سرکشی ہوتی ہے۔ لہذا یہ بات آشگاف طور واضح ہوجاتی ہے کہ رسولوں کے اعمال پر شک کرنا یا اپنی ذاتی آراء دینا شریعت الہی کے منافی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وَما كانَ لِمُؤمِنٍ وَلا مُؤمِنَةٍ إِذا قَضَى اللَّهُ وَرَ‌سولُهُ أَمرً‌ا أَن يَكونَ لَهُمُ الخِيَرَ‌ةُ مِن أَمرِ‌هِم
( سورة البقرة:٣٦ )
ترجمہ: “کسی موٴمن مرد اور کسی موٴمن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کردے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے”۔
رسول کی مُبارک زندگی مُبارک سیرت اور احکام امْت کیلئے کامل نمونہ ، ضابطہ حیات اور پیمانہ ہے۔ لہذا جانچ پڑتال کی ضرورت ہمارے کردار کی ہے۔ معاز اللہ رسولوں کی نہیں۔ وہ اللہ کے محبوب، چنیدہ، اور اعلی و بے نزیر اوصاف کے مالک ہوتے ہیں اور اعلٰی مرتبت و منزلت پر فائض ہوتے ہیں۔ آئے روز ہم اپنی خوائشات اور اپنے مزاج و خیالات کے مطابق اپنے ہی اصول و ضوابط اور اپنے ہی نئے نئے نظام گھڑ لیتے ہیں۔ اور خود کو انسانیت کے نام لیوا خیر خواہ گردانتے ہیں اور معاذ اللہ اللہ کی حق شریعت کو فرسودہ سمجھ کر پس پشت چھوڑ دیتے ہیں۔ اور اللہ کے رسولوں میں عیب اور نقص ڈھونڑنے لگتے ہیں جوکہ انسانوں کی سراسر حماقت اور لاحاصل ہرث اور صریح گمرائی ہے۔ اللہ تعلٰی ایسی سرکشوں کے بارے میں فرماتے ہیں
أَفَغَيرَ‌ دينِ اللَّهِ يَبغونَ
( سورة آل عمران:٨٣)
ترجمہ: “کیا وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے سوا کسی اور دین کی تلاش میں ہیں”
اور پھر ایسے لوگوں کیلئے اللہ تعلی کی طرف سے قرآن کریم میں بھرپور وعید ہے۔
وَمَن يَبتَغِ غَيرَ‌ الإِسلـٰمِ دينًا فَلَن يُقبَلَ مِنهُ وَهُوَ فِى الءاخِرَ‌ةِ مِنَ الخـٰسِر‌ينَ (سورة آل عمران:٨٥)
ترجمہ: “جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے ، اس کا وہ دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اُٹھائے گا”۔جہاں تک آخری اُمْت یعنی اُمْتِ محمدﷺ کا تعلق ہے اللہ تعلی نے اس کو تمام امتوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے اور انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا عظیم کام سونپا ہے۔ اور حضرت مُحَمَّد ﷺ کو تمام رسولوں اور نبیوں کا سردار بنایا ہے۔ آپﷺ کو دنیا پہ رحمت الالعالمین بناکر مبعوث کیا۔ بلکہ اس کائنات کی تخلیق کا محور و مرکز ہی نبیﷺ کی ذات ہے۔
خیمہ افلاک کا اِستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
ترجمہ: یہی پاک نام( یعنی مُحَمَّد) ہے جس کی برکت سے آسمانوں کا خیمہ کھڑا ہے اور اسی کی برکت سے زندگی کی نبض چل رہی ہے۔
نبیﷺ کی ذات صرف مسلمانوں کیلئے ہی مقبول و معروف نہیں ہے بلکہ ان کی ذات و صفات کے غیر بھی معترف ہیں اگرچہ کہ وہ لوگ دین میں داخل نہیں۔ اُن کی مبارک زندگی سے دشمنانِ عرب بھی متاثر تھے۔ آپﷺ انسانیت کے ہر شعبے ہر گوشے میں مکمل اور بہترین نمونہ اور لاثانی ہے۔ اللہ تعلی قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
(سورة الاحزاب )
ترجمہ: ’’فی الحقیقت تمہارے لیے رسول اﷲ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂِ (حیات) ہے۔‘‘
رسولﷺ کی مبارک زندگی قرآن پاک کی عملی تفسیر ہے اور آپﷺ کے مبارک فرمودات امْت کیلئے تاقیامت شہ رگ کے مانند ہے۔
قلبِ مومن را کتابش قوت است
حکمتش حبل الورید ملت است
ترجمہ: رسول اللہﷺ جو کتاب لائے وہ مومن کے دل کےلئے قوت کا سامان ہے۔جو حکیمانہ ارشادات حضورﷺ کی زبان پر جاری ہوئے انہیں ملت کی زندگی میں شہ رگ کی حیثیت حاصل ہے۔
دنیا کے عظیم لوگوں نے آپﷺ کی شان کو بیان کرنا چاہا لیکن سبھی نے عاجز ہوکر بس یہی اخذ کیا۔
؎ کہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصرلیکن افسوس کا مقام ہے کہ آج غیروں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی شیطانی وساوس کے شکار ہوتے جارہے ہیں اور آپﷺ کی مُبارک ذات سے بدظن ہورہے ہیں۔ آج ہماری نوجوان نسل آپﷺ کی مُبارک سیرت سے دور ہوکر غیر اسلامی افکار سے متاثر ہوکر صریح گمرائی میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں۔
,آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان ہرجگہ ذلیل و خوار اور پسپا ہورہے ہیں۔ وہ شکم سیری میں گرفتار ہوکر دین کا سودا کر رہے ہیں۔ اور قرآن مبین جیسے عظیم معجزے کے اعجاز سے محروم ہورہے ہیں اور تاریکیوں کے دلدل میں پھنسے جارہے ہیں۔ اور پھر اپنی بے بسی و بے چارگی کیلئے وقت کو موردِ الزام ٹھہرارہے ہیں۔
خوار از مہجوری قرآن شدی
شکوہ سنج گردش دوران شدی
ترجمہ: تیری ذلت کا اصل سبب یہ ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا۔ اور زمانے کی گردش کے شکوے کرنے لگا۔
علمِ حق را در قضا انداختی بہر نانی نقد دین در باختی
ترجمہ: تو نے وہ علم پسِ پشت ڈال دیا جو حق تک پہنچانے والا تھا۔ محض روٹی کی خاطر تو دین کی پونجی ہار دی۔
مسلمان آج غیروں کے طور طریقے میں بھرپور غرق ہوئے ہیں اور دوسروں کے در کے سوالی بن گئے ہیں۔ ورنہ حق تو یہ تھا کہ اس امْت کو سرداری کا مقام حاصل تھا۔ یہی امت دنیا کو نظام دینے کا شرف رکھتی تھی اور ہر چیز سے بے نیاز تھی کیوں ان کا رجوع اللہ کے ساتھ تھا اور یہ دنیا پہ اللہ کے ترجمان تھے۔ لیکن انہوں نے ہی تعلق باللہ چھوڑ کر مجبوری و محکومی کی زندگی مول لی۔اور دوسروں کے در کی جبیں سائی کو پسند کیا۔
مسلم استی بی نیاز از غیر شو اہل عالم را سراپا خیر شو
ترجمہ: اگر تو مسلمان ہے تو خدا کے سوا ہر شے سے بے نیاز ہوجا۔ اور دنیا کے لئے خیر و برکت کا سر چشمہ بن جا۔
بی نیازی رنگ حق پوشیدن است
رنگ غیر از پیرہن شوئیدن است
ترجمہ: بے نیازی کا مطلب یہ ہے کہ حق کا رنگ اختیار کیا جائے۔ اور غیر کا رنگ پیراہن سے دھو ڈالیں۔
حیف صد حیف آج ہم ہی غیر شرعی نظام کے پیروکار بن گئے ہیں اور ہم وہ نہیں رہے جو ہمارا مقام کو منلزت تھی بلکہ آج ہمارے ادوار سے معلوم ہی نہیں پڑتا کہ آیا ہم مسلمان ہیں یا غیر مسلم۔
ارجمندی از شعارش می بری
من ندانم تو توئے یا دیگری
ترجمہ: میں نہیں جانتا کہ تُو تو ہے یا غیر ہے، یعنی تیری حیثیت۔ غیر کی نقالی میں گم ہوگئی ہے اور یقیناً تُو تو نہیں رہا۔اس بیزاری و بے حسی نے دنیا ہی میں جس پستی کے بھنور میں ہمیں غرق کردیا ہے اس کا علامہ اقبالؒ نے آج سے قبل سو سال کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود
لیکن اگر علامہ اقبالؒ جیسی عظیم ہستی آج زندہ ہوتی اور موجودہ دور کے مسلمان کو دیکھتا تو شاید اس کے قلم سے یہ شعر لکھتے فقط سیائی نہیں بلکہ خون جاری ہوجاتا۔ علامہ اقبالؒ نے اس آفت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ وہ محض شاعر نہ تھے بلکہ وقت کے بہترین مفکر ، فلسفی ،قانون دان اور اعلی پائے کے عالم گزرے ہیں۔ انہوں نے بھرپور اس تبدیلی میں امتیاز کیا تھا۔ اور نوجوانوں سے افرنگی افکار و نظام سے بچنے کی بھرپور وکالت کرکے گزرے ہیں۔ لیکن آج ہمارے نوجوان دو چار حروف کیا پڑھ لیتے ہیں خود کو عالم سمجھنے لگتے ہیں۔ اور افرنگی نظام سے متاثر ہوکر ذہنی تاریکی میں پڑ جاتے ہیں اور دینِ اسلام سے مرتد ہورہے ہیں ۔
الحاصل ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ انسان اللہ کی شریعت، اللہ کے دین اور اُس کے رسول سے بدظن ہوکر فلاہ پائے۔ بلکہ ایسے میں انسان کے مقدر میں خالص خسارہ اور رسوائی ہوگی۔ شیخ سعدیؒ نے اس حقیقت کو شعر کے پیرائے میں کس خوبصوتی کے ساتھ بیان کیا ہے
خلاف پیمبر کسی ره گزید که هرگز به منزل نخواهد رسید
ترجمہ: جس نے پیغمبر یعنی حضورﷺ [کی راہ] کے خلاف [کوئی] راہ مُنتخَب کی، وہ ہرگز منزل پر نہ پہنچے گا۔
اللہ کے ھدایت سے محروم انسانوں کا روزِ اول سے ہی یہی معاملہ رہا ہے۔ لیکن اس چیز سے اللہ کی شریعت ہرگز عاجز نہیں بلکہ یہ صریحاً انسانوں کی گمرائی و تبائی کا پیش خیمہ رہا ہے۔
نوٹ:- اس تحریر کے لکھنے میں راقم کو اپنی علمی یا تحریری صلاحیت کو منظر عام پر لانا ہرگز مقصود نہیں بلکہ قرانی آیات پر مبنی اس تحریر کے ذریعے راقم کو خالصتاً نوجوانانِ ملت میں غور و فکر کا مادہ اُجاگر کرنا مطلوب ہے۔
����

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں