افسانہ۔۔۔۔۔ تـحــفــہ‎ 0

افسانہ۔۔۔۔۔ تـحــفــہ‎

سبزار احمد بٹ

بیگم چلو کتنا وقت لگے گا ابھی۔ دیر ہوجائے گی. آپ کو پتہ ہے کہ آج ہماری شادی کی سالگرہ (merriage anniversary ) ہے۔ میں نے اپنے سبھی دوستوں کو بلایا ہے۔ وہاں ملک کے بڑے بزنس مین ہونگے۔۔ہاں بابا ہاں نکل رہی ہوں ۔ چند منٹ بعد ہاشم اپنی بیوی کے ساتھ وائٹ لینڈ نامی ہوٹل میں پہنچ گیا ۔ جہاں پر شادی کی اینورسری منانے کے لیے ہاشم نے ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا تھا ۔ ملک کے نامور بزنس مین، سیاست سے تعلق رکھنے والے چند نامی گرامی شخصیات اور بڑے آفیسرز بھی اس تقریب میں مدعو کئے گئے تھے ۔ ایک ایک کر کے لوگ ان دونوں کو گلدستے پیش کرتے گئے اور شادی کی بارویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتے رہے ۔ نصرت نے بھی آج ماڈرن ڈریس پہنی تھی اور وہ غضب لگ رہی تھی۔ ہاشم نے ایک ایک کر نصرت سے مہمانوں کا تعارف کرایا۔ ویٹر جونہی جوس لے کر حاضر ہوا تو وہ ٹکٹکی باندھے ہاشم کو دیکھتا رہا۔ ہاشم نے ویٹر کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا۔۔۔۔
بھئی کیا بات ہے آپ مجھے اس طرح سے گور کیوں رہے ہیں۔ سر کیا آپ خلیل محمد کے بیٹے ہیں ۔
ہاں لیکن تم کون ہو اور تم انہیں کیسے جانتے ہو ۔ جناب میں بھی آپ کے ہی گاؤں کا ہوں اور یہاں اس ہوٹل میں ویٹر کا کام کرتا ہوں ۔ خلیل محمد تو بہت غریب آدمی تھا۔
وہ بھی میرے ساتھ مزدوری کرتا تھا لیکن آپ اتنے بڑے بزنس مین ہیں ۔ یہ تو مبارک کی بات ہے پھر تو خلیل کاکا بڑے مزے میں ہونگے کیسی طبیعت ہے ان کی آجکل۔
کیوں پرانی باتوں کی یاد دلا کر موڑ خراب کر رہے ہو ۔ تمہیں دکھائی نہیں دیتا ہے کہ آج کتنا اہم اور خوشی کا دن ہے ۔ میری آج مریج انیورسری ہے۔ کیجئے اپنا کام۔۔۔۔۔
ویٹر نے سوری کہا اور ٹیبل سے گلاس سمیٹ کر وہاں سے نکل گیا۔
ہاشم دراصل ایک مزدور خلیل محمد کا بیٹا ہے ۔ خلیل محمد سخت سخت کاموں میں اکثر لگا رہتا تھا وہ دراصل اپنے بیٹے کو بہت بڑا آفیسر بنانا چاہتا تھا۔ اور اس کام میں اس کی بیوی بھی اس کا خوب ساتھ دیتی تھی۔ وہ بھی مزدوری پر جاتی تھی۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ لیکن اچانک ایک دن ہاشم کی طبیعت خراب ہو گئی۔ اور اسے ہسپتال میں بھرتی کرنا پڑا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ہاشم کا ایک گردہ خراب ہو چکا ہے لیکن گھبرانے کی کوئی بات نہیں ایک گردے پر انسان اپنی زندگی جی سکتا ہے۔ جب یہ بات ہاشم کی ماں کو پتہ چلی کہ ہاشم کی سرجری ہونے والی ہے تو اس نے ایک نہ مانی ۔وہ بضد رہی کہ اس کا گردہ نکال کر اسے کے بیٹے کو دے دیا جائے ۔ وہ ڈاکٹروں سے کہی پھرتی تھی کہ “میں نے تو اپنی زندگی جی لی ہے میرے بیٹے کی زندگی میں کوئی بھی کمی نہیں رہنی چاہئے” ۔ڈاکٹر اس بات کے لئے تیار نہیں تھے لیکن ماں کے پُر زور اصرار پر بالآخر دونوں کی سرجری کی گئی اور ماں کا گردہ نکال کر ہاشم کے ناکارہ گردے کی جگہ لگایا گیا۔ بس گردے کا نکلنا تھا کہ ماں کی طبیعت بگڑتی گئی ۔ لیکن بیمار ہونے کے باوجود وہ کام کرتی رہی اس کا خواب تھا کہ ہاشم کو ایک بڑا آفیسر بنائے۔ خیر ہاشم نے گریجویشن کا امتحان پاس کیا اور اپنے باپ سے کہا کہ میں بزنس منیجمنٹ کا کورس کرنے کے لئے ملک سے باہر جانا چاہتا ہوں خلیل محمد کی اقتصادی حالت بہتر نہیں تھی۔ لیکن دونوں میاں بیوی نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنا ایک ایک انگ بھی اگر بیچنا پڑا تو بیچیں گے لیکن ہاشم کا خواب پورا کریں گے۔زمیندار سے پچاس ہزار روپے ادھار لے کر اپنے بیٹے کو اس وعدے کے ساتھ روانہ کیا کہ ہم وقت وقت پر آپ کو پیسے بھیجتے رہیں گے۔ بیٹے کا نکلنا تھا کہ دونوں پھر دن رات مزدوری کرتے رہے اور بیٹے کو پیسے بھیجتے رہے۔ کبھی صبح کا کھانا کھاتے تھے تو کبھی شام کا ۔ ان پانچ سالوں میں شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جب انہیں دونوں وقت کا کھانا کھانا نصیب ہوا ہو ۔رات دن محنت کرنے کی وجہ سے دونوں کی صحت کافی بگڑ گئی اور اکثر بیمار ہی رہتے تھے۔ پانچ سال بعد بیٹا واپس آیا اور آتے ہی سٹی میں ایک اچھی نوکری ملی۔ ماں باپ کو امید تھی کہ اب انہیں آرام نصیب ہو گا۔ اور وہ اب دو وقت کا کھانا کھائیں گے ۔ لیکن نوکری ملتے ہی بیٹے نے ماں باپ سے پوچھے بغیر شہر کی کسی امیر زادی سے شادی کی۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہاشم نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا اور وہ ماں باپ کی قربانی کو بھول گیا۔اب ماں باپ چونکہ اکثر بیمار رہتے تھے ۔ نئی نویلی دلہن کو ان کی بیماری اور بیکاری سے سخت شکایت تھی۔ اس دن بھی جب ہاشم آفس سے آیا تو بیوی نے آسمان سر پر اٹھایا۔
میں کوئی نوکرانی نہیں ہوں کہ دن بھر ان بیکار انسانوں کی خدمت کرتی رہوں اور نہ میں کوئی نرس ہوں جو ان دونوں کی کھانسی کا علاج کرتی رہوں ۔میں اب ایک منٹ بھی اس گھر میں نہیں رہنا چاہتی۔ آج تم فیصلہ کر ہی لو تمہیں یہ بیمار چاہیے یا میں ۔
ہاشم نے بیوی کو گلے سے لگایا اس کے آنسوں پونچھے اور کہا بیگم کیسی باتیں کرتی ہو۔ انہوں نے اپنی زندگی جی لی ہے۔ میں نے تو ابھی ابھی اپنی زندگی کی شروعات کی ہے۔ اور تم نے کیسے سوچا کہ میں تمہیں چھوڑ سکتا ہوں ۔ تم میری پسند ہو میری زندگی ہو۔ میں تمہاری لیے سب کو چھوڑ سکتا ہو۔ بس چند دن انتظار کرو اس مصیبت کا علاج بھی ہو جائے گا۔
خلیل محمد اور اس کی بیوی ایک ایک چیز کے لئے محتاج ہو گئے۔ بہو تو بات کرتی ہی نہیں تھی اور بیٹے سے بات کرنے کی ہمت ہی نہیں ہو رہی تھی۔ انہیں یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ زندگی نے انہیں کس موڑ پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ان کی مایوسی اور بے بسی دیکھ کر زمین بھی کانپ جاتی تھی اور آسمان بھی۔
اگلے ہفتے ہاشم گنگناتا ہوا اندر آیا ۔ بیگم کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔
بیگم نے منہ بنا کر کہا۔ ایسے مسکرا رہے ہو جیسے میری پریشانی کا حل لے کر آئے ہو ۔
ہاں ہاں بیگم ایسی ہی بات ہے ہاشم نے کورٹ نکالتے ہوئے کہا۔
اب بیگم بھی مسکرانے لگی اور ہاشم کے پاس آئی۔
بیگم میں ان دونوں کو کل ایک تحفہ دینے والا ہوں
تحفہ !!!!!!
گھبراؤ مت بیگم میں کل ان دونوں کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آؤں گا۔ میں نے اولڈ ایج ہوم والوں سے بات کی ہے۔ اگلے دن ہاشم اپنے ماں باپ کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑ آیا۔۔۔۔
اور مزے سے اپنی بیوی کے ساتھ زندگی جینے لگا۔ ابھی دو مہینے بھی نہیں ہوئے کہ بیوی نے ہاشم سے ایک اور فرمائشی کی کہ وہ گاؤں کی ساری زمین بیچ کر شہر بسنے جائیں گے۔ بیوی کی فرمائش کرنی تھی کہ ہاشم نے اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا اور شہر میں سٹل ہو کر اپنی زندگی گزارنے لگا ۔ ہر دن کسی نہ کسی پروگرام میں حصہ لینے جاتے تھے۔ اور ہاشم یہ بات بالکل بھول ہی گیا کہ اس کی کوئی ماں بھی ہے اس کا کوئی باپ بھی ہے۔ وہ یکے بعد دیگرے بیوی کی فرمائشیں پوری کرتا رہا۔ آج اپنی میریج انورسری پر ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا تھا سبھی مہمانوں نے تقاریر کیں اور ہاشم اور اس کی بیوی کے لئے تعریفوں کے پُل باندھے بالآخر ہاشم کو سٹیج پر بلایا گیا۔ ہاشم جوں ہی سٹیج پر نمودار ہوا تو پورا حال تالیوں سے گونج اٹھا۔۔۔اور ہاشم نے اپنی تقریر شروع کر دی ۔
آپ سب کا بہت شکریہ کہ آپ نے اپنی شرکت سے اس تقریب کی شان بڑھائی ۔ آج کی اس میرج انورسری پر میں اپنی بیوی کو ایک حسین تحفہ دینا چاہتا ہے. ایسا تحفہ اپنی بیوی کو دوں گا جس کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا ۔۔ سب لوگ بڑے تجسس سے ہاشم کو دیکھنے لگے اور چمہ گوئیاں ہونے لگی کہ آخر ہاشم اپنی بیوی کو کیا تحفہ دینے والا ہے ۔اتنے میں ہاشم نے یہ اعلان کیا کہ وہ بیوی کو چاند پر ایک ایکڑ زمین گفٹ میں دے رہا ہے۔ یہ سن کر سب لوگ انگشت بدنداں ہو کے رہ گئے۔ پارٹی میں موجود ایک عورت نے اپنے شوہر کو کہنی سے مارا اور کہا دیکھا تم نے، لوگ اپنی بیویوں کو کیسے کیسے تحفے دیتے ہیں ۔ اور ایک آپ ہیں کہ۔۔۔۔
ہاشم نے جیب پر رجسٹریشن کے کاغذ نکالے ہی تھے کہ ان کا فون بجنے لگا۔ ہاشم نے اگر چہ ایک دو بار فون کاٹ دیا لیکن بار بار کسی انجانے نمبر سے کال آرہی تھی ۔ مجبوراً ہاشم نے فون اٹھایا اور اور کچھ سنے سے پہلے ہی فون کرنے والے پر برس پڑے۔
ہلو ۔۔۔
ہلو سر۔۔۔
ہاں کیا بات ہے کیوں فون کیا ہے۔ کوئی پارٹی بھی تم ٹھیک سے اٹینڈ نہیں کرنے دیتے ہو۔
سر دراصل بات یہ ہے کہ ہم اولڈ ایج ہوم سے ہیں اور آپ کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ آپ فارملٹیز پوری کر کے لاش یہاں سے لے جائیے۔۔۔اوو
یہ سننا تھا کہ ہاشم کے ہاتھ سے رجسٹریشن کے کاغذ گر گئے۔ اور چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔
������
سبزار احمد بٹ
اویل نور آباد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں