ترا پیغام آیا ہے دسمبر کے مہینے میں 0

“شیخ سجاد پونچھی کی یاد میں “

پرویز مانوس

آپ کے گھر کی لابی میں پہروں بیٹھ کے ہم دونوں
چائے پیتے پیتے اکثر کتنی باتیں کرتے تھے
لیاقت کی،خالد کی باتیں، شوکت، شنکر، اعظم کی
آفریدی، کھنہ کی باتیں ،انور، مہدی چاچا کی
گویا اپنی باتوں کا مرکز پونچھ ہی ہوتا تھا
چائے ختم کرتے ہی پھرتم اپنی ڈائری کھول کے جب
نئی غزل دکھلاتے تو پھر بحث نئی چھڑ جاتی تھی
میں کہتا یہ بحر سے باہر اور تم کہتےاندر ہے
اک اک مصرعے پر ہم دونوں بے حد شور مچاتے تھے
تم سے جیت کبھی نہ پایا نہ تم مجھ سے ہارے تھے
بچوں کی مانند تم اکثر ضد پر پھر اڑ جاتے تھے
اتنے میں بھابی آکرکےکہتی کیا تم بچے ہو؟
آج مجھے تم کچھ مت ،بولو میرا بیٹا آیا ہے
کُھل کر مجھ کو جینے ،دوکیونکہ اس کے آتے ہی
میرے اندر آجاتی ہےایک عجب سی توانائی
چھوڑ کے آج ادھوری غزلیں تم اس دُنیا فانی سے
حسرت اور مسعود کی محفل میں اب جاکر بیٹھ گئے
وہ لابی اب سُونی ہوکر غم میں ڈوبی رہتی ہے
سوچ رہا ہوں بحث کروں گا اب میں کس سے مصرعوں پر
کس کو اب بھابی بولے گی ،کیا تم چھوٹے بچے ہو؟
اب تو میں اور بھابی مل کر، تیری لکھی ڈائری کو
ورق ورق اُلٹائیں گے اور کھل کے اشک بہائیں گے
ظاہر میں ہم ہنستے ہونگے اندر سے مرجائیں گے
مل کر اشک بہائیں گے
����
پرویز مانوس
نٹی پورہ سرینگر
9419463487

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں