کفارہ 0

کفارہ

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی
موبائل:8825051001

بیٹی! میں بڑی دیر سے تمہیںزار و قطار روتے ہوئے دیکھ رہا ہوں ۔ میں بڑا پریشان ہوا سوچا تم سے وجہ پوچھ ہی لوں ، کیا بات ہے ؟ کیوں زار و قطار رو ورہی ہو ؟ ایسی کیا افتاد پڑی۔
میں بھی بہت پریشان ہوں ، بے کس اور غریب ہوں اور گھر جانے کے لئے اب بس کا انتظار کر رہا ہوں ۔ کیا تم بھی اسی بس کا انتظار کر رہی ہو؟
نہیں بابا میں بس کا انتظار نہیں کر رہی ہوں ،میری کوئی منزل نہیں ہے ، کہاں جائوں کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔
بیٹی صاف صاف بتائوکیا بات ہے۔
بابا جی بات یہ ہے کہ میرے بھائی نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے،اس نے میری ایک نہ سنی ۔ صرف اتنا کہا کہ تم نے ہماری ناک کاٹی ہے اور ہماری عزت کو خاک میںملایا ہے۔
بیٹی مجھے بتائو اصل وجہ کیا ہوئی۔
بابا جی چندماہ قبل میں گھر میں اکیلی تھی ، شام ہو گئی اور چاروں طرف گھپ اندھیرا تھا ، کوئی انجان شخص ہمارے گھر کے اندر آیا اور اس نے میرے ساتھ زبردستی کی، میری عزت کو تار تار کیا ۔ میں نے شور مچانا چاہا لیکن اس نے میرے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا۔
میں گڑگڑاتی رہی مگر اس نے میری ایک نہ سنی اور مجھے اپنی ہوس کا شکار بنایا۔ اندھیرے کی وجہ سے میں اسے نہ پہچان سکی ، پھر اس واقعہ کے تقریباً دو ماہ بعد جب صبح صبح مجھے الٹیاں آنے لگیں تو میرا بھائی مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گیا ۔ ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد میرے بھائی کو بتایا کہ آپ کی بہن ماں بننے والی ہے۔
بھائی یہ سن کر آگ بگولہ ہو گئے اور اس نے مجھے گھر سے نکال دیا۔
میں نے پورا واقعہ سنانا چاہا لیکن اس نے میری بات نہ سنی ۔
سنو بیٹی میں خود غریب آدمی ہوں لیکن تم میرے ساتھ چلو ، جو روکھی سوکھی میں مزدوری کر کے لائوں گا آدھا آدھا کھا لیا کریں گے ۔
دونوں بابا جی کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔
ایک روز بابا جی سے ملنے ان کے دوست کا بیٹا آیا۔
اس غمزدہ لڑکی کو دیکھ کر اس نے بابا سے پوچھ لیا بابا جی یہ لڑکی کون ہے؟
بابا جی نے کہا…بیٹا یہ لڑکی مجھے بس اسٹیشن پر ملی ، بڑی دکھیاری ہے ، بچاری زار و قطار رو رہی تھی میں نے اس پر ترس کھایا اور اسے اپنے گھر لے آیا۔
کسی بدمعاش نے اس بچاری کی عزت لوٹ لی تھی اور اس کے بھائی کو جب معلوم ہوا کہ یہ ناجائز بچے کی ماں بننے والی ہے تو اس نے اسے اپنے گھر سے نکال دیا۔
اب یہ بچارری میرے رحم و کرم پر ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں اس کی کفالت کروں گا۔
بیٹا میں بھی اب اکثر بیمار رہتا ہوں ۔ میں سوچ رہا ہوں میرے بعد اس بچی کا کیا ہو گا کون اس دکھیاری سے شادی کرے گا۔
بابا جی جس نے بھی اس کے ساتھ یہ حرکت کی وہ بڑا ذلیل شخص ہوگا ۔ مجھے وہ مل جائے میں اس کی ایسی تیسی کروں گا۔
بابا جی آپ بے فکر رہیں میں اس سے شادی کروں گا اور اس کے بچے کو بھی اپنائوں گا۔
دراصل اس لڑکے نے اس لڑکی کو پہچان لیا تھا اور اسے فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا ۔ اب وہ اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرنا چاہتاتھا۔
ایسا کرنے سے بابا جی اور لڑکی کے دل میں لڑکے کی قدر و منزلت گھر کر گئی ۔ ان دونوں کو کیا خبر تھی کہ یہ اسی لڑکے کی کارستانی تھی۔

افسانچے

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی

مدرس ڈے

انور نے اقبال کو صبح سویرے بن ٹھن کر ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لئے دیکھ کر کہا
’’بھئی! کہاں جارہے ہو؟‘‘
’’بس اپنی والدہ صاحبہ کو سلام کرنے اور یہ پھولوں کا تحفہ دینے جارہا ہوں‘‘
’’کہاں؟‘‘
’’ ان کو میں نے اولڈ ایج ہوم میں کب کا بھرتی کروادیا ہے
آج مدرس ڈے ہے نا
’’اسی لئے جارہا ہوں‘‘

ایکسچینج آفر
بھائی صاحب! اپنی اہلیہ کو ساتھ لیکر اتنی صبح کہاں جارہے ہو۔ فلاں جگہ ایکسچینج آفر چل رہا ہے۔ اسی لئے جلدی جارہا ہوں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں