روغن شِفاء (افسانہ) 0

روغن شِفاء (افسانہ)

فاضل شفیع بٹ

” بھلا اپنوں نے بھی کبھی پیغمبر مانے ہیں؟ اللہ تعالی نے انسان کی رہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً ہم میں سے ہی پیغمبر بھیجے تاکہ لوگوں کی رہنمائی کر سکیں۔ لیکن لوگ ان کی باتوں کا مذاق اڑاتےتھے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح اکثر لوگ میری باتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ میں آپ لوگوں کا بھائی ہوں۔ میں آپ کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔ میں کوئی ڈاکٹر تو نہیں ہوں البتہ میرے پاس ایک انمول چیز ہے جس کا نام ‘روغنِ شفاء ہے۔ ایک ایسی دوائی ہے جس کی مالش سے جوڑوں کا درد، ہڈیوں کا درد، کمر درد وغیرہ چٹکی میں ختم ہو سکتا ہے”۔
بازار میں ایک نوجوان زور زور سے چلا کر بھیڑ کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں محو تھا۔ لوگوں کا ایک جمِ غفیر اس نوجوان کے ارد گرد دھیرے دھیرے شامل ہو رہا تھا۔ اس بھیڑ میں عبدالرحمن بھی تھا جو پیشے سے ایک پروفیسر تھا۔ عبدالرحمن کی بیگم کافی دنوں سے کمر درد سے بے حد پریشان تھی۔ حالانکہ شہر کے ایک مشہور ڈاکٹر صاحب سے ان کا علاج تو جاری تھا لیکن کمر کا درد اپنی جگہ قائم تھا۔ فی الوقت عبدالرحمن کی بیگم کو کوئی خاص راحت نصیب نہیں ہورہی تھی۔
بازار کے ایک کونے میں لوگوں کے دائرے کے بیچوں و بیچ وہ نوجوان پرجوش انداز میں لوگوں سے مخاطب ہو کر بول رہا تھا:
” آپ ایک بار اس دوائی کو آزما کر تو دیکھ لیں۔ میں ہفتہ میں تین دن آپ کو اسی جگہ پر ملوں گا۔ اگر تین دن میں آپ کی پریشانی دور نہیں ہوئی تو میں آپ سب کے پیسے واپس لوٹا دوں گا۔ یہ ایک ایسی انمول دوائی ہے جو حکیم لقمان کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ پر افسوس جو لوگ حضرت لقمان کا نام جاننے سے قاصر ہیں وہ بھلا ان کی حکمت سے کیسے آشنا ہو سکتے ہیں؟ یہ دوائی ہمالیہ کے اونچے پہاڑوں سے حاصل کی گئی جڑی بوٹیوں سے تیار کی گئی ہے۔”
نوجوان کی تقریر جا رہی تھی کہ اسی اثناء میں ایک آدمی آیا اور نوجوان کے پیر پکڑتے ہوئے بولنے لگا۔
” صاحب۔۔ آپ کسی مسیحا سے کم نہیں ہیں۔ میرا ضعیف باپ پچھلے چھ ماہ سے ساکت چارپائی پر لیٹا تھا۔ لیکن پچھلے ہفتے آپ کی دوائی کے استعمال کے چند دن بعد ہی میرا ضعیف باپ ایک دم تندرست ہو گیا اور آج کل گھر کے چھوٹے موٹے کاموں میں بھی ہاتھ بٹارہا ہے۔ آپ میرے لیے مسیحا ہیں مسیحا”
یہ منظر دیکھ کر مجمع ایک دم چونک گیا۔ یہ آدمی عبدالرحمن کے کالج میں چپراسی تھا۔پروفیسر عبدالرحمن بھی کچھ حد تک متاثر ہوئے۔
نوجوان کی تقریر جاری تھی۔
” یہ میرے اللہ کا کرم ہے۔ یہ کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ آپ کی انکھوں کے سامنے ایک انجان آدمی نے اپنے ضعیف باپ کی کہانی آپ کو سنا دی۔ میرے بھائیو۔۔۔۔!! اگر دیکھا جائے تو اس ‘ روغنِ شفاء کی قیمت بہت انمول ہے لیکن میں یہاں منافع کمانے کے لیے نہیں آیا ہوں۔ میں تو محض غریب اور لاچار بیماروں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ روغنِ شفاء کی ایک شیشی کی قیمت محض سو روپیہ، سو روپیہ، سو روپیہ”
پلک جھپکتے ہی لوگوں نے روغنِ شفاء کی شیشیاں خریدنی شروع کیں۔ آناً فاناً نوجوان کی ساری شیشیاں بک گئی۔ عبدالرحمن نے بھی اپنی بیگم کے لیے دو شیشیاں خرید لیں۔
گھر پہنچتے ہی پروفیسر عبدالرحمن گرم چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اپنی بیگم سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
بیگم صاحبہ بس کچھ دنوں کی بات ہے۔ بازار سے ایسی دوائی خرید کر لایا ہوں کہ آپ کو کمر درد سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا نصیب ہوگا”۔
شام کا کھانا کھانے کے بعد پروفیسر عبدالرحمن کی بیگم نے روغنِ شفاء سے اپنے کمر کی مالش کی اور یہ عمل مسلسل ایک ہفتے تک جاری رکھا۔
کچھ دن بعد عبدالرحمن کافی گھبرائے ہوئے تھے۔ اس کے چہرے کا رنگ ڈھل چکا تھا۔ اور اسی گھبراہٹ میں عبدالرحمن نے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا اور کہنے لگا:
ڈاکٹر صاحب۔۔ ڈاکٹر صاحب غضب ہو گیا۔ میری بیگم کی کمر میں بے انتہا درد ہو رہا ہے۔ اس کو کھڑا ہونے کے لیے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔ پلیز آپ جلدی سے میرے گھر تشریف لائیے۔ اس کا درد سے برا حال ہے۔ پلیز ڈاکٹر صاحب”
” ہائے میں مر گئی۔۔ میری کمر۔۔ ہائے اللہ۔۔ یہ کون سی دوائی لائی آپ نے” عبدالرحمن کی بیگم درد سے بے حال اناپ شناپ بولے جا رہی تھی اور اپنے خاوند کو بری طرح کوس رہی تھی۔ اسی بینچ ڈاکٹر صاحب کمرے میں داخل ہو کر عبدالرحمن کی بیگم کا معائنہ کرنے لگے اور عبدالرحمن نے روغنِ شفاء کا سارا پنڈارہ ڈاکٹر صاحب کے سامنے کھول دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور کہنے لگے:
آپ تو ایک پروفیسر ہیں۔ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں۔ عبدالرحمان صاحب۔۔۔ آپ نے کیسے بازار میں ایک فٹ پاتھ سے دوائی خرید لی؟ کیا آپ نے اس کی سرٹیفکیٹ چیک کی تھی؟ یہ تو اٌن کا بزنس ہے اور یہ لوگوں کو چونا لگا کر پُھر سے اڑ جاتے ہیں؟ آپ تو ماشاءاللہ ایک اسکالر ہیں۔ میں تو حیران ہوں کہ آپ نے کیسے اس نوجوان پر بھروسہ کیا؟ آئندہ اس بات کا خیال ضرور رکھیں۔ خیر۔۔۔ میں نے انجکشن لگا دیا ہے۔ آپ کی بیگم صاحبہ بہت جلد صحت یاب ہو جائے گی۔ مجھے اجازت دیں۔ اللہ حافظ”
پروفیسر عبدالرحمن کے دماغ میں چپراسی کا وہ ضعیف باپ کھٹک رہا تھا۔ اگلے دن کالج پہنچتے ہی پروفیسر عبدالرحمن نے اس چپراسی کو اپنے چیمبر میں طلب کیا اور روغنِ شفاء کے بارے میں دریافت کیا۔
چپراسی بڑی عاجزی سے بولا:
جناب میرا باپ تو دس سال پہلے ہی اس دنیا سے رخصت ہوا ہے۔ دراصل وہ نوجوان میرے ہی گاؤں میں رہتا ہے۔ بیچارہ بہت غریب ہے، ٹھیک میری طرح۔
میں نے اسی کے کہنے پر وہ ڈرامہ کیا تھا۔
جناب مجھے اس کام کے لیے پانچ سو روپے ملے تھے۔ میں ایک چپراسی ہوں،گھر کی ذمہ داریاں ہیں۔یہ میرا ایک سائیڈ بزنس ہے جناب۔ مجھے معاف کریں۔ چلتا ہوں”۔
�������
فاضل شفیع بٹ
اکنگام انت ناگ
رابطہ: 9971444589

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں