جیسا کروگے ویسا بھرو گے 0

جیسا کروگے ویسا بھرو گے

وسیم نذیر بٹ

کمزوریاں اور کوتاہیاں کس میں نہیں ہوتیں۔ ظرف والے لوگ دوسروں کی کمزوریوں پہ پردہ ڈال کر ان کا بھرم رکھ لیتے ہیں۔یہ سوچ کر کہ قیامت کے دن اللہ پاک ان کا بھرم رکھ دے گا۔ وہ دوسروں کے عیب نہیں اچھالتے۔ وہ دوسروں کو انکی کمزوریوں سے توڑنے کا گناہ نہیں کرتے۔ وہ تو غلطیوں کا اعتراف کرنے والوں کو دل سے معاف کرتے ہیں۔ وہ تو فراخ دل بن کر ٹوٹے ہوئے لوگوں کو سمیٹنے کا کام کرتے ہیں۔ وہ تو کسی میں منفی پہلو دیکھ کر بھی اس سے نفرت نہیں کرتے۔ وہ کسی پر بیجا تنقید نہیں کرتے۔ وہ تو برے لوگوں سے بھی احسن طریقے سے پیش آتے ہیں۔ انکی اصلاح کرتے ہیں انکی مدد کرتے ہیں انکو درست راستہ دکھاتے ہیں انھیں سمجھاتے ہیں کہ انسان لوٹ آنا چاہے تو تباہی کے آخری کنارے سے بھی لوٹ آ سکتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ کوئی بھی انسان برا نہیں ہوتا۔ انسان کے حالات برے ہوتے ہیں جو اسے غلط قدم اٹھانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے عمل سے کر کے دکھاتے ہیں کہ کسی کے برے حالات میں اگر مدد کی جائے تو اسکو برا ہونے سے بچایا جا سکتا ہے اسے راہ راست پر لایا جا سکتا ہے۔ اعلیٰ ظرف لوگ ہمیشہ بہترین مظاہرہ کرتے ہیں۔ لوگوں کی بھلائی اور خیر خواہی کا کام کرتے ہیں۔ لوگوں سے نرمی سے پیش آتے ہیں۔ اپنے تلخ رویوں سے کسی کا دل نہیں توڑتے۔ اپنی تلخیوں کو پی لیتے ہیں خاموش ہو جاتے ہیں مگر لوگوں کو جلی کٹی باتیں نہیں سناتے۔ وہ لوگوں کے لئے رول ماڈل بن کر پیش آتے ہیں۔ جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ دنیا میں اچھے لوگ اب بھی باقی ہیں۔
غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں۔ لوگوں کو معاف کر دیا کریں۔ انہیں ہزار رنجشوں کے باوجود گلے سے لگا لیا کریں۔ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ سے یہ سبق ملتا ہے۔ کہ صرف زبان سے معاف نہیں کرنا، بلکہ دل سے بھی اس انسان کے لیے کوئی بھی کینہ یا بغض ہے تو ختم کر دینا ہے۔ یعنی زبان و دل دونوں کو اس انسان کے لیے مثبت رکھنا ہے۔ اور اسے ہی عفو و در گزر کہتے ہیں۔ اور پھر معاف اپنے لیے تھوڑی کرنا ہوتا ہے۔ اللہ کے لیے اجر کی امید رکھتے ہوئے معاف کیا کریں۔ دنیا کا ہر وہ مثبت کام جو انسان کو مشکل لگتا ہے۔ جب وہ یہ سوچ کر کرے گا کہ مجھے اللہ کے لیے کرنا ہے۔ تو ان شاء اللہ وہ بہت ہی آسان ہو جائے گا۔زندگی میں جب بھی کوئی شخص معافی مانگتا ہے تو پہلے وہ ہار تسلیم کرتا ہے۔ اپنے ضمیر کی ہار، اپنی انا کی ہار، اپنی ہار اور وہ معافی آپ سے مانگتے ہوئے اپنے رب کو خوش کر رہا ہوتا ہے۔ جب انسان اپنی غلطی مان کر کسی سے معذرت کر رہا ہوتا ہے تو وہ رب کو خوش کر رہا ہوتا ہے۔ اور جب کوئی رب کو خوش کر رہا ہوتا ہے تو کوئی مشکل اسکے راستے میں نہیں آتی۔ اور جب رب ناخوش ہو جائے، تو آپ کے پاس کچھ نہیں بچتا۔ دل بڑا کیجئے، کوئی اپنی غلطی مان رہا ہے تو اسے معاف کیجئے۔ کیوں کہ معاف کرنے کا نام ہی محبت ہے۔کسی کو معاف کر دینے کا مطلب ہوتا ہے اسے دوبارہ موقع دینا اور نئے سرے سے پھر سے بہترین آغاز کرنا۔ مگر ہم لوگ معاف تو کر دیتے ہیں لیکن دوبارہ موقع دینے کے حق میں ہرگز نہیں ہوتے۔ پرانے گلے شکوے دل میں رکھتے ہیں۔ پرانی باتوں کو دوبارہ دوہراتے رہتے ہیں۔ دل میں رنجشیں رکھ کر کسی کو معاف کر دینا یہ ہرگز کسی کو معاف کرنا نہیں ہوتا۔ کسی کو معاف کرنا تو یہ ہوتا ہے کے دل درد میں مبتلا ہو، آنکھوں میں آنسو آ جائیں پرانی باتوں کو یاد کر کے، مگر دل پھر بھی کہے کہ میں نے اسے معاف کیا ہے، تو اسکی سب پرانی باتیں بھی معاف کی ہیں۔ اب نیا آغاز کیا ہے اسے دوبارہ موقع دیا ہے کہ انشاللہ وہ اس پر پورا اترے گا۔
ویسے بھی لوٹ کر آنے والوں سے شکوے شکایتیں نہیں کی جاتی۔ انھیں معاف کر دیا جاتا ہے، تو ماضی کا کوئی گلا شکوہ نہیں کیا جاتا۔ تاکہ وہ مزید بہتری اور خوبصورتی سے اس رشتے کو نبھا سکیں۔ اللّه بھی تو ایسا ہی کرتا ہے نا، وہ واپس پلٹنے والوں سے کوئی سوال و جواب نہیں کرتا۔ کوئی شکوہ نہیں کرتا۔ انکے سامنے کوئی مشکل شرط نہیں رکھتا۔ انھیں معاف کرتا ہے، تو انھیں موقع دیتا ہے مزید بہتر بننے کا۔ انسان کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔
کوئی لوٹ کر واپس آنا چاہے تو انھیں ایک آخری موقع دینا چاہیے اور دل سے معاف کر کے سب گلے شکوے ختم کر لینے چاہیے۔ لیکن بار بار موقع دیکر خود کو دھوکے میں نہیں رکھنا چاہیے۔ کوئی لوٹنے کے بعد بھی بددیانتی کرتا ہے دھوکہ دیتا ہے تو پھر دستبردار ہو جانا چاہیے اور اسے اپنے دل کی جنت سے ہمیشہ کے لئے نکال لینا چاہیے۔مگر یہ سچ ہے کہ ہر وہ شخص جو تمہاری پرواہ کرتا ہے، اس پر مکمل بھروسہ رکھو کہ وہ تم سے محبت کرتا ہے۔ کیوں کہ محبت کی پہچان اسکی پرواہ سے ہوا کرتی ہے۔ جسے آپ کی فکر نہیں، جسے آپ کی پرواہ نہیں، وہ کبھی بھی آپ سے محبت نہیں کرتا۔جس سے محبت کرو اسے آباد کرنا سیکھو۔ برباد کرنے کے لئے نفرت کرنے والے ہی بہت ہیں۔ آپ محبت کرنے والے بنو۔ فاصلے مٹانے والے بنو۔ خوش رہو اور خوشیاں بانٹنے والے بنو۔کسی کو چھوڑ دینا مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ کسی کو سمجھ کر جوڑنا مسئلے کا حل ہوتا ہے۔ کسی کے دل کو جیتنا مسئلے کا حل ہوتا ہے۔ کسی کو خوشی دینا مسئلے کا حل ہوتا ہے۔ جہاں دل سے دل جڑا ہوتا ہے وہاں ٹوٹنا آسان نہیں ہوتا۔ وہاں گستخياں برداشت کی جاتی ہیں۔ وہاں معافیاں برداشت کی جاتی ہیں۔ مگر وہاں زیادتیاں برداشت نہیں کی جاتیں۔ جہاں ظلم کیا جاتا ہے وہاں معافی دینا ممکن نہیں ہوتا۔ بیشک وہ ظلم جسمانی ہو روحانی ہو یا نفسیاتی ہو۔ کسی کو اذیت پنہچانے والا انسان کبھی بھی دل سے خوش اور مطمئن نہیں رہ سکتا۔ اگر خوش رہنا چاہتے ہو تو دوسروں کو خوش رکھنے کی کوشش کیا کرو۔ اگر کسی کو اذیت دیتے ہو تو بدلے میں ویسی اذیت سہنے کو تیار ہو جاؤ۔ کیوں کہ دوسروں کے لئے گڑھا خود کر آپ راہ فرار اختیار نہیں کر سکتے۔ ایک نہ ایک دن اسی گڑھے میں آپ کو بھی گرنا پڑیگا اور اس اذیت سے گزرنا پڑیگا جس اذیت سے آپ نے دوسروں کو گزارا ہے۔محبت دینا سیکھو۔ کسی کو سمجھنا سیکھو۔ اسکے آنسو پونچنا سیکھو۔ اسکی زندگی آسان بنانا سیکھو۔ جو دوگے وہی لوٹ کر ملے گا چاہے پھر عزت ہو یا محبت ہو۔ کسی کی زندگی محبت سے سنوارو گے تو آپ کی اپنی زندگی بھی سنور جاےگی۔ مگر کسی کا دل اجاڑو گے تو یاد رکھنا اپنی آخرت اجاڑو گے۔ دنیا میں بھی بے سکون رہو گے اور آخرت میں بھی عذاب الاہی پاؤ گے۔ مگر اگر کسی کی تم زندگی محبت سے سجاؤ گے، تو تم اپنی آخرت بھی بناؤ گے، اور اس دنیا میں بھی سکون پاؤ گے۔راقم کو نفیس لوگ بہت پسند ہیں۔ کیوں کہ وہ اپنی تو عزت کرتے ہیں، مگر دوسروں کا بھی دل سے احترام کرتے ہیں۔ وہ دل پر زخم کھاتے ہیں مگر باتیں بہت گہری کرتے ہیں۔ وہ شائستگی سے پوچھتے ہیں اور حسب ذائقہ مذاق کرتے ہیں۔ وہ مذاق میں بھی کسی کا دل توڑنے سے ڈرتے ہیں۔ ان سے غلطی ہو جاۓ تو معافی مانگنے میں دیر نہیں کرتے۔ اور اگر کوئی ان کی بے قدری کرے تو خاموشی سے اسکی زندگی سے چلے جاتے ہیں مگر اف تک نہیں کرتے۔ کوئی شکایت نہیں کرتے۔ کوئی عزت نہیں اچھالتے۔ کوئی پوچھ بھی بیٹھے کہ کیوں اداس ہو؟ تو شائستگی سے کہتے ہیں ایسے ہی دل بے سبب اداس ہے، مگر دل کو اداس کر دینے والے کا نام نہیں لیتے، اسکو لوگوں کی نظروں میں نہیں آنے دیتے، اسکو دنیا کی نظروں میں گرنے نہیں دیتے۔ اسکے پیٹھ پیچھے بھی اسکا دفاع کرتے ہیں مگر اسکی عزت پر حرف تک نہیں آنے دیتے۔ کسی سے غصہ بھی ہو جائیں ناراض بھی ہو جائیں ، تو اس سے شکوہ کرنا چھوڑ دیتے ہیں اس پر طنز کے تیر چلا کر اسے زخمی نہیں کرتے۔ ایسے لوگ عظیم ہوتے ہیں جو دوسروں کا جذبوں کا احترام کرتے ہیں، خود ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں مگر دوسرے انسان کی آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دیتے۔ کوئی ایسا شخص ملے تو اسکی ضرور قدر کرنا۔ اسے اپنے جذبات میں آکر کھو مت دینا۔ اسے اپنے پاس ہمیشہ سمبھال کے رکھنا۔ کیوں کہ یہ وہ جگنو ہیں جو زندگی کے اندھیروں میں بہت کام آتے ہیں اور آپ کی زندگی میں اندھیرا نہیں ہونے دیتے، آپ کو مایوس نہیں کرتے۔ آپ کی امید بن کر آپ کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ اور آپ کا ساتھ دیتے ہیں۔جب اندر میں اندھیرے کا احساس بڑھ جائے تو باہر لگی لاکھوں روشنیاں بھی بےمعنی لگنے لگتی ہے۔ دل اداس ہو تو سات سورج مل کر بھی دل کو روشن نہیں کر پاتے۔ دل کو روشن کرنے کے لئے کسی کی صرف ایک یاد ہی کافی ہوتی ہے۔ اچھے لوگ زندگی کو اچھی یادیں دیتے ہیں۔ جو یاد آتے ہیں تو لب اپنے آپ مسکرانے لگتے ہیں۔ کسی کے لئے بننا ہے تو ہمیشہ مسکراہٹ کا سبب بننا۔ غم دینے والے، تکلیف میں مبتلا کرنے والے تو ہزاروں مل جاتے ہیں، مگر خوشی دینا والا، خوشی کا سبب بننے والا کوئی لاکھوں میں ایک ہوتا ہے۔ جو آپ کو ہنستا ہوا دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ جسے آپ کے خوش ہونے سے خوشی ملتی ہے۔ زندگی میں کوئی ایسا شخص ملے تو اسکا قدر ضرور کرنا۔ کیوں کہ ایسے لوگ قیمت سے نہیں قسمت سے ملتے ہیں۔
�����
وسیم نذیر بٹ۔۔۔سُوگن شوپیان

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں