مسٹر خاموش۔۔ 0

مسٹر خاموش۔۔

فلک ریاض

پیار ہوا اقرار ہوا ہے پیار سے پھر کیوں ڈرتا ہے دل
کہتا ہے دل رستہ مشکل معلوم نہیں ہے کہاں منزل

چودھری حشمت علی کی حویلی کے بڑے سے ہال میں سارے کزنز انتک شری کھیل رہے تھے۔۔پوری حویلی قہقہوں اور تالیوں سے گونج رہی تھی۔۔
لڑکیاں ایک طرف اور سارے لڑکے ایک طرف۔۔ایک دوسرے کو ہرانے کی دو بدو لڑائی چل رہی تھی۔۔
نوکر چا کر چائے پکوڑے شربت پیش کرنے میں مصروف تھے ۔
چودھری حشمت علی کے تین بیٹے ہیں۔چودھری برکت علی چودھری رحمت علی چودھری عنایت علی۔۔حشمت علی کے انتقال کے بعد سارا کاروبار اور زمینداری وغیرہ تینوں بھائیوں نے مل جل کر سنبھال لیا۔۔۔آبا و اجداد نواب تھے۔۔تو ورثے میں یہ بھی نوابوں والی شان بان رکھتے تھے۔۔برکت علی کے دو بیٹیاں دو بیٹے تھے۔۔ رحمت علی کے تین بیٹیاں دو بیٹے۔۔ اور عنایت علی کے دو بیٹے دو بیٹیاں۔۔۔ حویلی میں مل جل کر رہنے والا ایک خوشحال آسودہ حال گھرانہ۔۔اپنے بچوں کے علاوہ یہ تینوں بھائی اپنی مرحوم بہن اور مرحوم بہنوئی کی اکلوتی بیٹی اقرا کی بھی پرورش کر رہے تھے۔۔اقرا کے والدین ایک حادثہ کی وجہ سے اس وقت لقمہ اجل بن گئے جب اس کی عمر محض گیارہ سال تھی۔حادثہ میں وہ بال بال بچ گئی تھی لیکن اس کی ایک ٹانگ میں گہری چوٹ کی وجہ سے ٹانگ نا کارہ ہو کے رہ گئی تھی۔۔اس نے بھی جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھا تھا اور اللہ تعالی نےاس کو بہت خوبصورت بنایا تھا۔۔ساتھ ہی نیک سیرت بھی۔۔
سارے کزنز۔ صبا۔ سنا ۔بلقیس۔ مسرت۔۔ سیرت۔۔ اندلیب۔۔یاسمین۔۔راشد ہلال گوہر امجد دانش۔۔سب کے سب انتاکشری کھیلنے میں مشغول تھے۔۔وہ بھی ان کے قریب بیٹھی کبھی کبھی کوئی گانا گنگنا لیتی تھی۔۔۔ان کی محفل میں اگر کوئی موجود نہیں رہتا تھا تو وہ تھا۔۔یوسف۔۔۔وہ بڑے چچا صاحب برکت علی کا بیٹا۔۔ایک اور بھائی گوہر اور دو بہنیں صبا اور سنا۔۔۔یوسف پیشے سے ایک ڈاکٹر تھا اور کم گو۔۔اور الگ تھلگ رہنے والا انسان تھا۔۔اس لیے پوری حویلی میں اس کے بھائی بہن سبھی کزنس یہاں تک کہ نوکر چاکر سب اس کے پیٹھ پیچھے مسٹر خاموش کہہ کر بلاتے تھے۔۔۔
اقرا جو ان سب کی اکلوتی پوپھی زاد بہن تھی نے ایک گانا پکڑ لیا۔۔۔۔گھر آیا میرا پردیسی پیاس بجھے اِن انکھیوں کی۔۔۔ وہ مست ہو کے گا رہی تھی تو وہ سبھی ہال کے باہر برآمدے والے دروازہ کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔ کمرے میں اچانک خاموشی چھا گئی۔۔چھوٹے چاچا کی بیٹی اندلیب اس کو انگلی کے اشارہ سے سمجھا رہی تھی کہ گانا بند کرو۔۔۔وہ اقرا کے قریب آکر اس کے کان میں بولنے لگی۔۔۔گانا بند کرو اقرا دیکھو مسٹر خاموش آگئے ۔۔۔اس نے گردن پیچھے کی طرف گھمائی تو دیکھا کہ یوسف اس کے پیچھے کھڑا ہے اور تیوری چڑھا کے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا ہے ۔۔۔ غصہ والی نظروں سے اقرا کی طرف دیکھنے کے بعد وہ سیڑھیاں چڑھا اور تیزی سے اوپر اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔۔۔
“بھائی جان تو منحوس ہیں۔۔۔نہ ہم سے زیادہ بات کرتے ہیں نہ ہم سے ملتے جلتے ہیں۔۔۔دن بھر تھیٹر آپریشن مریض اور نسخہ۔۔۔۔انہوں نے اپنی زندگی کو چلتا پھرتا آپریشن تھیٹر بنا لیا ہے۔۔ بلقیس اپنی ناک چڑھا کر بول رہی تھی تو اسے مسرت نے ڈانٹا۔۔۔”اوئے چپ کر۔۔۔بڑی بڑی باتیں کرنا سیکھی ہیں تم نے۔۔۔”پھر سب نے مل کر پکوڑوں اور چائے کا مزہ لیا۔۔۔وقت گزرتا رہا زندگی کی گاڑی چلتی رہی۔۔۔ حویلی کی ساری کی ساری لڑکیوں کی منگنیاں طے ہوئیں اور کچھ شادیوں کے بندھن میں بند گئے۔۔ایک بھی لڑکی کا رشتہ حویلی سے باہر نہیں ہوا۔۔چودھری خاندان کا رواج تھا کہ اپنے ہی خاندان میں لڑکے لڑکیوں کو بہایا جاتا تھا۔۔۔یعنی اپنے ہی کزنز کے ساتھ ساری لڑکیوں کا رشتہ طے ہوا۔۔۔۔سب کے ماں باپ ان رشتوں سے خوش تھے اگر کوئی پریشان تھی تو وہ تھی یوسف کی ماں فاطمہ بی بی۔۔۔ کیونکہ یوسف ابھی شادی کے لیے تیار ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔۔
وہ خاندان کے ایک ایک لڑکے ایک ایک لڑکی کو پکڑ کے کہتی۔۔۔دیکھو اپنے بھائی جان کو سمجھا دو کہ وہ بھی کہیں پہ رشتہ کرے۔۔ہماری بھی پریشانی ختم ہو جائے گی۔۔۔ دونوں بہنوں کا رشتہ تو اس نے کر دیا۔۔۔تم لوگ سمجھا دو اسے۔۔ تو ان کا جواب وہاں سے ہوتا ارے نہیں نہیں چاچی۔۔۔ان کی ناک پہ تو چوبیس گھنٹے غصہ سوا رہتا ہے۔۔ ہم کو بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنی نہیں آئے گی۔۔سبھی لڑکے لڑکیاں ہاتھ جوڑ کر کہتے تو فاطمہ بی بی اور بھی پریشان ہو جاتی۔۔تو اپنے شوہر سے جھگڑنے لگتی۔۔کہ آپ یوسف کو سمجھاتے کیوں نہیں کی شادی کرے۔۔وہ وہاں سے غصے میں جواب دیتے کہ وہ کیا کوئی بچہ ہے جب اسے محسوس ہوگا کہ اب شادی کی ضرورت ہے تب شادی کر لے گا”۔۔فاطمہ بی بی اپنا ماتھا پکڑ کر بیٹھ جاتی ۔۔۔
اقرا اپنے کمرے میں۔۔ٹیبل لیمپ کے پاس بیٹھی دیوان ِ غالب پڑھ رہی تھی۔۔۔تو اس کی کزن سیرت اندر آئی ۔۔سیرت بہت باتونی تھی وہ اِدھر اّدھر کی باتیں کرنے لگی۔۔۔اقرا کوئی جواب نہیں دے رہی تھی وہ صرف مسکرا کے سر ہلا رہی تھی ۔۔۔وہ غالب کے اشعار میں جیسے کھو چکی تھی۔۔۔سیرت اٹھی اور اس کے ہاتھ سے کتاب چھین لی اور میز پہ پٹخ دی۔۔۔۔”اتنی دیر سے میں بک بک کر رہی ہوں اور محترمہ ہے کہ میری باتوں کی طرف دھیان ہی نہیں۔۔۔۔
اب اقرا کے لبو سے ہنسیں پھوٹی اور وہ سیرت سے پوچھنے لگی۔۔۔”سیرت تم ہی بولو کیا جواب دوں میں تمہارے سوال کا۔ آخر مجھے کیا پتہ مسٹر خاموش رشتہ کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ ان کی اپنی زندگی ہے اور وہ ہم سے اتنے گل مل بھی نہیں جاتے کہ ان سے فرینکلی بات کی جائے۔۔تم بہن ہو اس کی چھوٹی جا کر پوچھتی کیوں نہیں اور اسے سمجھاتی کیوں نہیں۔۔۔ کہ فاطمہ چا چی بہت پریشان ہیں کہیں پہ رشتہ کر لیں۔۔ اقرا دوپٹہ سنبھالتے ہوئے بول رہی تھی۔۔۔تو سیرت گویا ہوئی۔۔۔۔”ارے اقرا باجی میں تو آپ ہی کو یہ کہنے آئی ہوں کہ آپ سمجھا دے یوسف بھائی کو۔۔۔میں بھی ان کی کزن آپ بھی۔۔آپ تو بڑی ہو۔۔آپ سمجھا دو انھیں۔۔
آپ کو پورے گھر میں سبھی سلجھی ہوئی لڑکی کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ آپ کی بات یوسف بھائی جلد مان لیں”۔۔۔سیرت پریشان کن لہجے میں بولی تو اقرا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھنے لگی اور بولی۔۔واٹ۔۔میں ان سے بات کروں۔۔ مجھے پاگل کتے نے کاٹا ہے کیا۔۔بچپن سے لے کر ابھی تک ان کے ساتھ یہی آدھا درجن بار بات ہوئی ہوگی۔۔میں تو ان کے سامنے توتلی سی ہو جاتی ہوں۔۔نہ بابا میری بس کی بات نہیں۔۔منجلے مامو اور چھوٹے ماموں کو بولو کہ ان کو سمجھائیں۔۔
سیرتنے لمبی سانس کھینچی اور کچھ دیر سوچنے کے بعد بولی۔۔ “مجھے کسی کی فکر نہیں اقرا باجی مجھے فاطمہ چاچی کی فکر ہے۔۔وہ بیچاری بیمار رہتی ہے اور ان کی تمنا ہے کہ یوسف بھائی کے سر پہ سہرا دیکھوں۔۔مجھے سمجھ نہیں آتا اگر ہمارے گھر کے سبھی لڑکی لڑکیوں کا رشتہ طے ہوا تو یوسف بھائی ابھی انکار کیوں کر رہے ہیں۔ ۔وجہ ہیں۔۔ اچھے خاصے دراز قد کے انسان ہیں ۔ خوبصورت ہیں۔۔بہترین ڈاکٹر ہیں۔۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے اقرا باجی۔۔ کہ ان کا کسی کے ساتھ چکر چل رہا ہو۔۔ سیرت سوالیہ نظروں سے بولی تو اقرا نے پھٹ سے جواب دیا ہاں وہ جا کے ان سے ہی پوچھ لو مجھ سے کیوں پوچھتی ہو مجھے غالب کو پڑھنے دو۔۔کہہ کے وہ پھر سے کتاب کھول کے بیٹھ گئی۔۔
راشد۔۔ہلال۔۔۔گوہر۔۔اور امجد ۔۔نے پکنک کا پلان بنایا۔۔گھر کے بزرگ جانے کے لیے تیار نہیں ہو رہے تھے لیکن بہت منت سماجت کے بعد وہ سب تیار ہو گئے اور اگلی اتوار کا پروگرام بن گیا۔۔۔سب گئے لیکن اقرا نے جانے سے انکار کر دیا۔۔۔”چلیں نا آپ بھی اقر باجی ۔۔۔مزہ آئے گا۔۔بلقیس بولی تو اقرا سرد آ ہ کھینچ کر بولی ۔۔”نہیں میرا موڈ نہیں ہے اور طبیعت بھی ناسازگار ہے۔۔۔تم لوگ جاؤ میری وجہ سے تم کو بس بوریت محسوس ہوگی”۔۔اب وہ گھر میں اکیلی تھی اور نوکر چاکر تھے۔۔یوسف چار بجے گھر آیا ۔۔تو پہلی بار ساری حویلی میں سناٹا دیکھا تو حیران ہو گیا۔۔۔ بشیر چاچا کیا ادھر کوئی نہیں یہ سب کدھر گئے ہیں ۔” اس نے حویلی کے ملازم سے پوچھا۔۔۔ وہ بولا بیٹا وہ سب پکنک منانے گئے ہیں۔۔۔بس اقرا صاحبہ گھر میں ہیں۔۔
ملازم اپنے کاندھے پہ لٹکے ہوے کپڑے سے حشمت علی کی تصویر کو صاف کرتے ہوئے بولا۔۔۔تو یوسف اپنے گلے سے ٹائی نکالتے ہوئے سرعت سے بولے “اچھا بشیر چاچا میں فریش ہو کے آتا ہوں میرے لیے چائے بنوا دیجیے۔۔”کہہ کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔
کچھ دیر بعد یوسف ڈائنگ ٹیبل کی طرف آیا ۔۔تو اقرا چائے کی پلیٹ سجا رہی تھی۔۔وہ کمرے سے تیزی سے باہر آیا تھا۔۔ اقرا کو دیکھتے ہی قدموں کی رفتار کم ہوئی۔۔۔ اور اس نے بھی اپنا سرکتا ہوا آنچل سنبھال لیا۔۔۔” تم نہیں گئی ان کے ساتھ”۔۔ یوسف کے اچانک سوال سےوہ چونک گئی۔۔۔اور بولی “نہیں میری طبیعت کچھ خراب تھی۔۔”۔۔
اور پھر یوسف چائے پینے بیٹھ گیا۔۔اقرا وہاں سے دھیرے دھیرے نکل آئی اور خود سے ہڑبڑانے لگی۔۔۔
,”ہونہہ۔۔پتہ نہیں کیا سمجھتے ہیں اپنے آپ کو۔۔۔میں نے بولا کہ میری طبیعت خراب تھی تو پوچھا بھی نہیں کیا بات ہے۔۔ اور کم سے کم مجھے بھی کہتے کہ تم بھی چائے پیو۔۔ پتہ نہیں کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔۔۔ان کا بھائی اور ہماری اس حویلی کے سارے لڑکے کتنے ملنسار کتنے باتونی ہیں۔ کتنے ہنسانے والے ہیں اور یہ ہے ماٹی کے پتلے۔۔۔ پتہ نہیں ملک بھر کے سارے مریض ان پہ مرتے کیوں ہیں۔۔۔کیا نظر آتا ہے ان کو اِن میں۔۔مسٹر خاموش کہیں کے۔۔ ہونہہ۔۔۔
کچھ دنوں سے حویلی میں ٹینشن کا ماحول تھا۔۔ اقرا کے لیے دوسرے گاؤں سے وہاں کے بہت بڑے زمیندار رئیس ملک سجاد کے گھر سے رشتہ آیا تھا۔۔اس کے بیٹے کے لیے۔۔۔ لیکن وہ اقرا سے لگ بھگ بیس سال بڑا تھا۔۔ کروڑوں کا کاروبار تھا لیکن اقرا سے رائے پوچھی گئی تو اس نے چُپی ساد لی۔۔اور خاموش آنسو بھی بہائے۔ “مجھے شادی نہیں کرنی بڑی مامی۔۔ میں ایک ٹانگ سے معذور ہوں۔۔ کوئی ہمدرد بن کے میرا ہاتھ تھامے گا اور پھر زندگی بھر طعنے سننے پڑیں گے۔۔۔میں آپ لوگوں کی خدمت کروں گی عمر بھر پلیز مجھے شادی کے لیے دباؤ نہیں ڈالیں۔۔۔”وہ آنسو بہاتے ہوئے بولی تو۔۔ اس کی تینوں مامیاں اس کے اِرد گِرد آ کر بیٹھ گئیں۔۔”دیکھ لاڈو۔۔ آج ہم ہیں کل نہیں ہوں گے کل تمہارے یہ بھائی بہن شادی کر کے اپنا اپنا گھر سنبھالیں گے۔۔کیا ہوا اگر وہ تم سے بیس سال بڑا ہے وہ تمہیں رانی بنا کے رکھے گا۔۔”وہ اسے سمجھا رہی تھی لیکن وہ سر جھکا کے آنسو بہا رہی تھی۔۔آخر کار رشتے سے انکار کیا گیا ۔تو کچھ مہینوں بعد ایک اور رشتہ آیا ۔۔ لڑکا شادی شدہ تھا۔۔اس کی بیوی بانجھ تھی اس لیے بیوی سے اجازت لے کر وہ دوسری شادی کرنا چاہتا تھا۔۔ وہ بھی بہت اچھا امیر گھرانہ تھا۔۔ اقرا نے پھر سے انکار کر دیا۔۔ حویلی کے کچھ کزنز اقرا کے ساتھ تھے اور کچھ مخالف ہو گئے۔۔
“آخر کیا خرابی ہے کیا ہوا اگر وہ شادی شدہ ہے نوجوان ہے ۔۔امیر ہے دوسری شادی کرنا چاہتا ہے تو اقرا کو بھی سوچنا چاہیے کہ اس کی جو حالت ہے کون جنت کا گلمان آکے اس سے شادی کر لے گا۔
“بلال بھائی کی یہ بات اس کے سینے میں تیر کی طرح پیوست ہو گئی۔۔۔وہ اپنے کمرے میں ان سب کی باتیں سن رہی تھی۔۔اور اپنی چارپائی پہ دراز۔۔اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ کے زار و قطار رو رہی تھی۔۔
آخر بہت سوچ بچار کے بعد اس نے شادی کے لیے اقرار کیا۔۔۔بادل ناخواستہ اس کے چہرے پہ کوئی خوشی نہ تھی ۔وہ شادی شدہ آدمی جس نے اقرا کے لیے شادی کا پیغام بھیجا تھا ۔۔بہت بڑا کاروبار تھا اس کا۔۔۔اقرا کے اقرار کے بعد اگلی اتوار کو لڑکے کی ماں تین بہنیں اور دو بابیاں۔۔کچھ پھل پھول اور مٹھایاں لے کر حویلی آگئے۔اقرا نیلے گوٹے دار پوشاک میں ایسے لگ رہی تھی جیسے بدلی سے چاند نکل آیا ہو۔۔۔حویلی والوں کا یہ رواج تھا کہ جب بھی کسی لڑکی یا لڑکے کے لیے رشتہ آتا وہ سب مل جل کر مہمان کے پاس بیٹھتے۔۔محفل جمی ہوئی تھی تو یوسف بھی ہاسپٹل سے آیا سب کو سلام کہا اور اوپر اپنے کمرے کی طرف گیا۔۔تو ابو نے آواز دی” بیٹا یوسف جلدی سے فریش ہو کے آجاؤ ۔۔یہ مہمان آئے ہوئے ہیں۔۔۔
“جی ابو ابھی تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔۔۔۔”
اس نے نرم لہجے میں جواب دیا۔۔
کچھ دیر بعد وہ نیچے آیا ۔۔سرسری طور اقرا کی طرف دیکھا اور پھر جلدی سے نظریں گھمائی۔۔
سیرت فورا کرسی سے کھڑی ہو گئی اور یوسف کو جگہ دے دی۔۔۔گھر کے سبھی بزرگ۔۔۔ اور لڑکے لڑکیاں مہمانوں کے ساتھ باتوں میں مصروف تھے اور یوسف خاموش ڈرائی فروٹ کا ایک ایک دانہ اٹھا کے چبائے جا رہے تھے۔۔ اقرا ۔۔۔آپ شکر کرو کہ اپ کو ہمارا بھائی مل رہا ہے۔۔۔ان کو تو بڑے بڑے خاندان کی نارمل لڑکیاں مل رہی تھی۔۔وہ بھی ان بہائی۔۔کسی دوسرے گھر دلہن بن کے جاؤ گی کیا پتہ وہاں کیا سلوک کیا کیاجائے گا آپ کے ساتھ۔۔ہمارا بھائی تو سر آنکھوں پہ بٹھائے رکھے گا ۔۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جس کے ہاتھ میں بیراگ ہوتی ہے۔۔ اس کیلئے بیراگ والا ہم سفر ہی ڈھونڈا جاتا ہے۔ہمارے بھائی صاحب جیسے زمانے میں بہت کم ہیں۔۔ وسیع ذہنیت کے مالک ہیں۔۔” لڑکے کی بڑی بہن نے جب یہ بات بولی تو۔۔ وہ نشتر بن کے سیدھے اقرا کی روح میں پیوست ہوئی۔۔اسے لگا کے میرا وجود کچھ بھی نہیں۔۔ایک ترس کھانے والی چیز ہوں۔۔
اور مہمان عورت کی یہ بات اگر کسی اور کے دل پہ چوٹ بن کے اتری وہ ۔۔تھے یوسف۔۔باقی سبھی ہنسی کھیل میں مصروف تھے۔۔۔”دیکھیے آپ ہمارے مہمان ہیں آپ کا احترام کرنا ہمارا فرض ہے لیکن آپ سوچ سمجھ کے بات کیجئے۔۔ آپ کا بھائی ہماری اس لڑکی سے شادی کر کے اس پہ یا ہم پہ احسان نہیں کر رہے ہیں۔۔ ہمارے خاندان کی یہ لڑکی ہیرے سے کم نہیں۔۔ ابھی رشتہ ہوا نہیں تو آپ احسان جتانے لگے۔۔یہ ہمارے گھر کی پڑھی لکھی نیک سیرت لڑکی ہے۔۔اس لڑکی کا اتنا عزت و احترام ہے اس گھر میں کہ اگر کسی خاص کام کے لیے مشورہ لیا جاتا ہے تو اسی سے لیا جاتا ہے۔ یہ سمجھ لیجئے کہ یہ اس سلطنت کی راج کماری ہے۔۔ معاف کیجئے گا ہم اس شادی میں جلد بازی نہیں کرنا چاہتے ہیں۔۔ہمیں بھی آپ کے بھائی صاحب کا مزاج آپ سب کا مزاج معلوم کرانا ہے۔۔۔میرے سامنے اس وقت میرے بزرگ میرے چاچا صاحبان اور میرے والد میری چاچیاں میری ماں بیٹھی ہوئی ہیں۔۔میں ان سب سے کہتا ہوں کہ میری گستاخی کے لیے مجھے معاف کریں۔ میں بات کر رہا ہوں۔۔ لیکن اس حویلی کا ایک بندہ ایک رہنے والا انسان ہوں مجھے بھی بولنے کا حق ہے۔۔اور یہ جس لڑکی کو آپ دیکھنے آئے ہیں یہ میری کوئی غیر نہیں میرے مرحوم ماموں کی بیٹی ہے۔۔ مجھے اپنی رائی رکھنے کا پورا پورا حق ہے۔۔”کہتے ہوئے یوسف اپنی جگہ سے کھڑا ہوا اور تیز تیز قدموں سے باہر نکل گیا۔۔ اپنی کار اسٹارٹ کر کے چلا گیا۔۔ سارے حال میں خاموشی چھا گئی۔۔سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔۔ مہمان بے عزتی اور شرمندگی سی محسوس کر رہے تھے۔۔اقرا تو جیسے پتلا بن گئی۔۔” کیا یہ سچ میں مسٹر خاموش بول رہے تھے۔۔ نہیں نہیں میں خواب دیکھ رہی ہوں نہیں۔۔۔ممکن ہی نہیں ہاں بالکل میں خواب دیکھ رہی ہوں۔۔۔ میرے لیے دل میں اتنی ہمدردی ۔۔اتنی فکر ۔۔یہ مسٹر خاموش نہیں ہو سکتے پتہ نہیں کون تھے۔۔”وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔۔ اور بہت ہی زیادہ حیران تھی۔۔
مہمانوں نے واپسی کا سفر اختیار کیا۔۔۔اور دوسرے دن فون کر کے رشتے سے انکار کر دیا۔۔سبھی یوسف کو موردِ الزام ٹھہرا رہے تھے۔۔ اس نے کچھ روز حویلی والوں کا تیکھا پن اور ناراضگی والا رویہ برداشت کیا ۔۔تو جب ایک رات سبھی مل جل کے ڈنر کر رہے تھے۔۔ تو اقرا کے رشتے کی بات چلی۔۔حویلی والوں کا روکھا پن بھانپ کے یوسف گویا ہوا۔۔”بڑے چاچا چھوٹے چاچا اور ابو میرا سوال آپ لوگوں سے ہے۔۔ہماری لڑکیوں کے لیے باہر سے کتنے رشتے آئے۔۔ سب کو آپ نے انکار کیا یہ کہہ کر کہ ہم اپنی حویلی سے باہر اپنی لڑکیوں کو بہاتے نہیں ہیں۔۔اقرا کے رشتے کی بات چلی تو اس وقت وہ اصول کہاں گئے۔۔کیا یہ آپ لوگوں کی بیٹی نہیں۔۔ ماشاءاللہ میرے اتنے خوبرو جوان بھائی ہیں گھر میں۔۔ان میں سے کسی کے ہاتھ میں اقرا کا ہاتھ کیوں نہیں دیا۔۔ کیا اس لیے کہ اس کی ٹانگ میں معمولی سی چوٹ ہے۔۔ میری عادت ہے میں زیادہ باتیں نہیں کرتا لیکن جب بھی بات کرتا ہوں حق کہتا ہوں۔۔
آپ لوگ سبھی مجھ سے اس لیے ناراض ہیں نا کہ میں نے بہت اچھا گھر ٹھکرایا۔۔۔میرا دل گواہی دیتا تھا کہ وہ لوگ اقرا کے ساتھ بہتر سلوک نہیں کرتے۔۔آخر میں نے بھی دنیا دیکھی ہے۔۔ “یوسف نے بات ختم کی تو۔۔راشد اور دانش نے بحث شروع کی۔۔بہت دیر تک۔۔ بحث چلتی رہی تو حویلی کا ماحول تھوڑا خراب ہو گیا۔۔۔ایک روز یوسف ہاسپٹل میں تھا۔۔تو واٹس ایپ پہ میسج آئی۔۔انجان نمبر تھا۔۔۔لکھا تھا۔۔ پلیز۔۔ میری فکر نہ کریں۔۔ ا ور نہ گھر والوں سے بحث کریں۔۔ میرے مقدر میں جو لکھا ہوگا مجھے منظور ہے۔۔ بزرگ میرا بلا ہی چاہیں گے۔۔ آپ پلیز اپنے بھائیوں کے ساتھ اپنی بہنوں کے ساتھ کزنز کے ساتھ اچھی طرح دن گزاریں۔ آخر میں لکھا تھا اقرا۔۔ اس نے میسج پڑھ کے لمبی سانس لی اور پھر اس کا نمبر سیو رکھا۔۔
پندرہ دن کے بعد حویلی میں ایک اعلان ہوا۔۔جس نے سب کو محو حیرت کر کے رکھ دیا۔۔ خاص کر فاطمہ بی بی اور یوسف کی بہنوں کو۔۔اور ان سے بھی زیادہ اقرار کو۔۔”۔۔ ہاں آپ لوگ جو سن رہے ہیں بالکل صحیح ۔۔ میرے دل کا فیصلہ ہے۔۔میں کوئی جذبات میں آکر یہ فیصلہ نہیں لے رہا ہوں۔۔۔مجھے اقرا اچھی لگتی ہے میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔” یوسف کا یہ فیصلہ بالکل دھماکہ کی طرح تھا۔۔ بہنیں ناراض ہو گئیں ماں رونے لگی۔۔
“اور معاملہ یہاں تک گمبھیر ہوا کہ اقرا۔۔ یوسف کے ہاسپٹل پہنچ گئی۔۔۔”مجھے ترس والی ہمدردی نہیں چاہیے پلیز۔۔۔میں نے فیصلہ کیا ہے میں شادی نہیں کروں گی۔۔۔آپ نے پوری حویلی کا ہنستا کھیلتا ماحول خراب کیوں کر دیا۔۔۔ماں بہنوں کا دل نہ دکھائیں۔۔ کسی اچھی لڑکی سے شادی کریں۔۔۔گھر والوں کی ناراضگی کو انا کا معاملہ مت بنائیں۔۔ میں حویلی میں امن والا ماحول چاہتی ہوں خوبصورت ماحول پلیز۔۔ “کہہ کے وہ رونے لگی۔۔تو یوسف اٹھا اور اس کے کاندھوں پہ اپنے مضبوط بازو رکھ دئیے۔۔ اقرا۔۔ یہ کوئی ہمدردی نہیں ہے کوئی ترس نہیں ہے۔۔میں اس پروردگار کی قسم کھاتا ہوں جس کے قبضے میں میری جان ہے۔۔مجھے تم بے حد پسند ہو اور مجھے تم سے محبت ہے۔۔تم نے میری خاموشی میں میری آواز کو کبھی سنا کیوں نہیں۔۔ کیا کبھی حویلی میں میری دھڑکن کی آواز بھی تمہارے کانوں میں نہیں گونجی۔۔میں دوسری قسم کا انسان ہوں تم جانتی ہو بچپن سے مجھے۔۔ مجھے تم جیسی لڑکی کہاں ملے گی نایاب ہوتی ہیں۔۔ تم جیسی لڑکیاں آج کل۔۔۔وہ دل کی بات بولے جا رہا تھا بولے جا رہا تھا۔۔۔اور اقرا اپنی خوبصورت انگلیوں سے پلکوں کے آنسو صاف کرتے ہوئے اسے حسرت سے دیکھ رہی تھی۔۔۔مسٹر خاموش اچانک ایک رومینٹک شاعر کا روپ اختیار کر گئے تھے۔۔۔اور ایک محبت سے سرشار دل والے انسان کے روپ میں اس کے سامنے کھڑے تھے۔۔۔ایک گھنٹہ سے زیادہ یوسف اسے سمجھاتا رہا بولتا رہا۔۔
“کبھی اظہار کیوں نہیں کیا کبھی بولا کیوں نہیں۔۔”
اس نے معصومیت سے پوچھا تو یوسف مسکرانے لگا۔۔اب تو بول دیا نا ہمت نہیں جٹا پا رہا تھا۔۔
اخر کار اقرا پگھل کے رہ گئی۔۔۔اور تھوڑی سی مسکراہٹ۔۔کے ساتھ لب کشائی کی۔۔” کس کو یقین ہوگا کہ یہ وہ انسان ہے۔۔ جنہیں ہم۔۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوئی۔۔۔
“مسٹر خاموش کہہ کے پکارتے ہونا۔۔۔یوسف نے جملہ پورا کیا۔۔۔تو دونوں ہنسنے لگے۔۔آخر کار گھر میں سب تیار ہوئے اور۔۔فاطمہ بی بی اور یوسف کی بہنوں کے لبوں پہ تبسم کھل گئے۔۔ انہوں نے اقرا کا ماتھا چوم لیا۔۔۔اور ابو نے یوسف کو گلے سے لگا لیا۔۔مجھے تم پہ ناز ہے میرے بیٹے۔۔۔تمہارا فیصلہ ہمیشہ درست ہوتا ہے۔۔رنگ سرمنی کی تاریخ طے ہوئی۔۔
بہت سارے رشتہ دار اور باقی مہمان حویلی میں آئے ہوئے تھے۔۔۔لڑکیاں خوش ہو کے گانا گا رہی تھیں۔۔”اپنی شادی کے دن اب نہیں دور ہیں۔۔ لازمی ہے کہ میں تم سے پردہ کروں۔۔
تقریب کے اختتام کے بعد اقرا اپنے کمرے میں گئی۔۔وہ ڈائری نکالی ۔۔جس پہ وہ ہر رات اپنے دل کی باتیں لکھتی تھی۔۔۔۔تو وہ لکھنے لگی۔۔” میں محو ِحیرت کیوں نہ ہوں۔۔ میں تو اسے قدرت کا کرشمہ کہوں گی۔۔یا دعاؤں کا ثمر۔۔کی جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھ کے۔۔ سپنوں کا راج کمار اگر تھا۔۔کوئی میرے دل میں۔۔تو بس یوسف۔۔لیکن اسے پانا ایک سراب نظر آتا تھا۔۔کیونکہ چاند کو کیا معلوم چاہتا ہے اسے کوئی چکور۔۔وہ بیچارہ دور سے دیکھے کرے نہ کوئی شور۔۔لکھتے لکھتے اس نے قلم اپنے دانتوں میں دبا لیا اور مسکرانے لگے۔۔ ادھر یوسف نے ایک کتاب کھولی جس میں۔۔ اس نے کب سے اقرا کا فوٹو چھپا کے رکھا تھا۔۔
ختم شد
فلک ریاض:حسینی کالونی چھترگام کشمیر۔۔۔۔ فون۔۔۔۔6005513109

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں