تقدیر کے سامنے تدبیر بیکار 0

تقدیر کے سامنے تدبیر بیکار

ریٔس احمد کمار

یونیورسٹی گیٹ سے باہر نکلتے ہی وہ دونوں پہلے تقدیر پارک میں گھنٹوں گفتگو کرنے میں مشغول رہتے تھے یا بلیوارڈ روڑ پر جھیل ڈل کے کنارے سورج غروب ہونے کا انتظار کرتے تھے۔ تب جا کے وہ دونوں گھر کا رخ کرتے تھے ۔‌ گریجویشن تک وہ دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتے تھے کیونکہ واجد جو جنوبی کشمیر کے ایک دوردراز گاؤں کا رہنے والا تھا نہایت ہی قابل اور خوبصورت نوجوان لڑکا تھا۔‌ اپنے ڈپارمنٹ میں واجد کو نہ صرف طلبہ بلکہ پروفیسر صاحبان بھی عزت کرتے تھے کیونکہ واجد بہت ہی زہین قسم کا لڑکا تھا ۔ شوبی شمالی کشمیر کی رہنے والی ایک امیر باپ کی بیٹی تھی ۔‌ واجد اور شوبی ایک دوسرے کو تب جاننے لگے جب پارک میں بیٹھے ہوئے ڈپارمنٹ کے تمام طلباء اپنے اسائنمنٹ مکمل کرنے کی تیاری میں لگے ہوئے تھے اور شوبی کو اپنا اسائنمنٹ مکمل کرنے میں دشواری آرہی تھی ۔ جب کسی نے‌ بھی اس کی مدد نہ کی تو واجد نے پہلے اسی کو اسائنمنٹ مکمل کرنے میں مدد کی اس کے بعد اپنا مکمل کیا ۔ یاد رہے ڈپارمنٹ کے ایک پروفیسر صاحب نے ہر ایک طالب علم کو ایک اسائنمنٹ مکمل کرنے کیلئے کہا تھا۔ بعد میں ان کی دوستی کے جھڑ اتنے مضبوط ہوتے گئے کہ وہ ایک دوسرے کی مدد میں پیش پیش رہتے تھے ۔ تین یا چار بجے کے بعد جب وہ دونوں یونیورسٹی سے فارغ ہوتے تھے تو کبھی جھیلڈل کے کنارے واقع تقدیر پارک میں وقت گزارتے تھے یا کسی مغل باغ میں جاتے تھے ۔ وہ ایک دوسرے کے اتنے قریب ہو گئے کہ ڈپارمنٹ کے تمام طلباء و فیکلٹی ممبران بھی اس چیز سے واقف ہو گئے تھے ۔ جس دن شوبی کسی وجہ سے یونیورسٹی نہیں آتی تھی تو واجد اسے واٹس ایپ پہ اس دن کے تمام نوٹس بھیج دیتا تھا ۔ شوبی نہ اتنی ذہین و قابل تھی نہ ہی محنتی بلکہ باپ کی سرمایہ داری سے یونیورسٹی میں پیمنٹ سیٹ پہ اپنا داخلہ کروانے میں کامیاب ہوئی تھی ۔ اپنی پوسٹ گریجویشن بھی مکمل نہ کرپاتی اگر واجد اس کی مدد میں پیش پیش نہ رہتا ۔ واجد نے پی جی مکمل کرنے کے بعد پہلے نیٹ کا امتحان پاس کیا اس کے بعد سیٹ بھی کوالیفائی کرلیا ۔‌ دو سال تک ڈگری کالج میں بحیثیت ایڈہاک لیکچرر بھی تعینات رہا اور اسی بیچ پبلک سروس کمیشن نے سول سروس امتحان کے لئے نوٹیفیکیشن جاری کی۔ واجد کالج میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ امتحان کی تیاری میں بھی مشغول رہا ۔ اس دوران بھی واجد اور شوبی کے درمیان مراسم قائم رہے۔ شوبی کو باپ نے یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہی بنک میں بحیثیت کلرک تعینات کروایا۔ وہ بھی نیٹ اور سیٹ کے امتحان میں شامل ہوئی تھی مگر پاس کس طرح کرپاتی اس کی مجال ہی نہیں تھی ۔ وہ واجد سے قابلیت اور زہنیت میں کوسوں دور اور پیچھے تھی‌ ۔ چار مہینوں کے بعد پبلک سروس کمیشن نے سول سروس امتحانات کے نتائج بھی ظاہر کردئے ۔ واجد نے بھی ریاستی سطح کے اس مقابلے میں کامیابی درج کی ہے ۔ اس کو جونیئر سکیل کے زمرے میں سلیکشن ہوئی ہے اور پہلی تعیناتی بحیثیت بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر ہوئی ۔ واجد اور اس کے ماں باپ خوشی کے اس موقعے پر پھولے نہیں سمائے۔ انہوں نے واجد کو اپنا خون پسینہ ایک کرکے پڑھایا اور لکھایا تھا ۔ اس کا باپ شہر کے ایک ڈاکٹر کے گھر میں بطور نوکر کام کرتا تھا اور وہ کبھی مہینے یا دو مہینے بعد ہی گھر لوٹتا تھا ۔ جس دن وہ گھر آتا تھا تو ڈاکٹر صاحب کی بیوی اسے بیوی بچوں کے لئے کپڑے وغیرہ سب کچھ خرید کے دیتی تھی ۔ واجد کی ماں بھی گاؤں کے امیر لوگوں کے مکانوں کی صفائی وغیرہ کا کام کرتی تھی اور وہ بھی اسے معقول نقدی رقم و دیکر ضروری گھریلو اشیاء بطور تحفہ دیتے تھے ۔ سول سروس امتحان پاس کرنے اور ایک کے اے ایس آفیسر بننے کے بعد ان کی زندگی بالکل بدل گئی ۔‌ کل تک لاچاری اور مفلسی کی زندگی گزارنے والے اور دوردراز گاؤں میں رہنے والے واجد اور اس کے ماں باپ شہر میں مستقل سکونت اختیار کرنے کے منصوبے بنارہے ہیں ۔‌ چھپر کے ایک ہی کمرے میں کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے والے واجد اور اس کے والدین نے شہر میں ہی ایک عالیشان محل جیسا مکان تعمیر کر لیا ۔‌ اب وہ ایک شاہانہ زندگی گزار رہے ہیں ۔ اب نہ وہ سختی نہ ہی غریبی کے دن انہیں ستا رہے ہیں بلکہ وہ دوسروں کی مدد کرتے ہیں ۔ واجد نے اپنی دو چھوٹی بہنوں کو شہر کے سب سے بڑے پرائیویٹ اسکول میں داخلہ کروادیا ۔ ماں باپ کو بھی پہلے عمرہ اور بعد میں حج کا فریضہ ادا کرنے کے لیے بھیج دیا ۔۔۔۔۔
واجد کو اپنے والدین اور دو بہنیں بھی اب روز شادی کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں ۔ شہر کے کئی صاحب ثروت افراد نے اسے اپنی ہی بیٹیوں سے شادی کروانے کی خواہش ظاہر کی تھی ۔ کیونکہ ان سب کو پتا تھا کہ ایک آفیسر ہونے کے ناطے جو بھی لڑکی اس کے نکاح میں آجائے گی ہمیشہ خوش رہے گی۔ ان میں سے کچھ ایک سرکاری ملازمت بھی کرتی تھیں ۔ ماں باپ نے رشتے میں ہی اس کا نکاح کرنا چاہا تھا کیونکہ ان کی نظروں میں کئی ساری لڑکیاں تھیں جو نیک سیرت اور اچھے اخلاق کی مالکہ تھیں ۔ مگر واجد کے دل و دماغ میں صرف اور صرف شوبی کی شکل و صورت ہی گردش کررہی تھی ۔ اس کے ساتھ گزارے ہوئے حسین اور یادگار لمحات اسے ہمیشہ یاد آتے اور ستا رہے تھے ۔ اس لیے وہ شوبی کو ہی اپنی شریک حیات بنانا چاہتا تھا ۔ ماں باپ کو کہہ کر واجد نے نکاح کا پیغام شوبی کے باپ تک باپ کے ذریعے پہنچا ہی دیا ۔ واجد کے والدین نے بھی بیٹے کی مرضی دیکھ کر خاموشی ظاہر کی اور اس کی مرضی کے مطابق نکاح کا پیغام پہنچا دیا ۔ واجد اور شوبی ایک دوسرے کو اتنا چاہتے تھے کہ وہ دونوں ایک پل بھی دور رہنا پسند نہیں کرتے تھے ۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گم ہو گئے تھے ۔ کئی بار آپس میں وعدہ بھی کیا تھا کہ زندگی ایک دوسرے کے ساتھ ہی گزاریں گے چاہے کچھ بھی ہو جائے یا کتنے ہی مشکلات پیش آجائیں ۔ مگر تقدیر اور قسمت میں جو لکھا ہوتا ہے وہی مل جاتا ہے نہ اس سے کم نہ ہی اس سے زیادہ ۔ واجد کو جتنا بھروسہ شوبی پر تھا اس سے کہیں زیادہ اس کے باپ پر تھا ۔‌ وہ جانتا تھا کہ اس کا باپ خود بھی ایک سرمایہ دار ہے اور وہ اپنی بیٹی کی شادی ایک آفیسر کے ساتھ ہی کروائے گا تاکہ بیٹی کی زندگی بھی جنت جیسی بنے گی اور خود کو بھی اسے عزت و احترام میں اضافہ ہو گا ۔۔۔۔۔
واجد اور اس کے ماں باپ اب جواب کے انتظار میں ہیں تاکہ شادی کے لیے ضروری ساز و ساماں کی خریداری کرلیں ۔ ایک دن بعد ہی جب واجد اپنے ماں باپ اور دونوں بہنوں کے ساتھ شام کا کھانا کھا کر کرکٹ میچ دیکھنے میں مگن تھا تو اس کے موبائل فون کی گھنٹی بج گئی ۔ دیکھا تو شوبی کے باپ کا نمبر تھا ۔ خوشی میں اس نے فون سیدھا باپ کے ہاتھ دیا ۔۔۔۔
ہیلو ۔۔۔ کیا آپ واجد کے باپ ہو ۔۔۔ ہاں ہاں بتائے جناب کیا بات ہے ۔۔۔۔
یہ رشتہ میں قیامت تک نہیں ہونے دوں گا ۔ میں نے آپ سب کے بارے میں ساری معلومات دریافت کی ہیں ۔ کل تک ایک معمولی چھپر میں گزارا کرنے والے اور لوگوں کے گھروں میں کام کرنے والے لوگ کیا آج میری بیٹی کا رشتہ مانگنے آئیں گے۔ توبہ توبہ میں یہ ہر گز نہیں ہونے‌ دوں گا ۔‌۔۔۔
صبح جب واجد اپنے ماں باپ کے ساتھ کچن میں چائے پی رہا تھا تو اخبار فروش نے روز کی طرح اخبار ان کے حوالے کر دیا۔ اخبار کے پہلے صفحے پر یہ سرخی تحریر کی گئی تھی “” اپنے باپ کے ناروا سلوک کی وجہ سے اور پیار میں جدائی برداشت نہ کرنے کی بنا پر شوبی نامی نوجوان لڑکی نے‌ کیا اپنی‌ زندگی کا خاتمہ “”””۔
�����
ریٔس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں