افسانہ ۔۔۔۔۔آتش کدہ اور تنور 0

افسانہ ۔۔۔۔۔آتش کدہ اور تنور

را جہ یوسف

’’ اشرف کے بارے میں لوگ اچھا نہیں بولتے ہیں، اور سچ ہی بولتے ہیں، کوئی کام بھی تو نہیں کر رہا ہے۔ دن بھر آوارہ گردی کرتا رہتا ہے ‘‘ احمد شاہ بیٹے سے پریشان ہوکر اپنی بیوی سے کہہ رہا تھا ۔
’’ اس کی شادی کردے تو سدھر جائے گا‘‘ احمد شاہ کی بیوی نے کھانستے ہوئے کہا۔
’’ تم مجھ سے انگوٹھا لگوا کے لے لو ، تیرا بیٹا سدھرنے والا نہیں ہے‘‘
احمدشاہ کا بیٹا اشرف ایک خوبرو اور صحت مند نوجوان تھا۔ اچھے ڈیل ڈول او رپرکشش چہرے کا مالک، لیکن تمیز اور ادب سے مکمل طور بے بہرہ۔۔۔ گائوں کے کچھ گنے چنے لوگ ہی اسے پسند کرتے تھے، لیکن زیادہ تر لوگوں کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔۔۔ لڑکیاں جہاں اس پر لٹو تھیں ،وہیں نوجوان اسے کھار کھاتے تھے۔۔۔ اشرف بھی اپنی طاقت اور خوبصورتی سے واقف تھا ، تبھی وہ اس کا بھرپور فایدہ بھی اٹھا رہا تھا۔ جہاں اس کا پُرکشش چہرہ کام نہیں آتاتھا وہاں وہ اپنی بے جا طاقت استعمال کرتا تھا ۔۔۔
اشرف کا باپ احمدشاہ گائوں کا ایک چھوٹا کسان تھا۔ وہ اپنی محنت اور لگن سے گھر چلا رہا تھا۔ اشرف اس کا اکلوتا بیٹا تھا، میاں بیوی جب جوان تھے تب اشرف پر انہوں نے کا م کا بوجھ نہیں ڈالا، یہاں تک کہ وہ کاہل اور کام چور ہوگیا۔ دن بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ کر اپنے یار دوستوں کے ساتھ گائوں کی گلیوں کے چکر کاٹنا اس کا معمول تھا۔۔۔ اشرف کی جھولی میں ہر وقت نت نئے قسم کے لوگ رہتے تھے، جن سے وہ گائوں کے حالات کے بارے میںآگاہی حاصل کرتا رہتا تھا۔۔۔ اس کے دوست بھی اسے خوش رکھنے کے لئے ہمیشہ نئے نئے شوشے چھوڑتے رہتے تھے۔۔۔
اشرف کی بدکاری کا چرچا آس پاس کے گائوں تک پھیل گئے تھے، لیکن اس کے سامنے گائوں کے کسی فرد کو بولنے کی ہمت نہیں پڑتی تھی، کیونکہ وہ اس کے بازئوں کی طاقت اور اس کے غنڈہ نما یار دوستوں سے بے خبر نہیں تھے ۔ اس لئے وہ اکثر بیشتر احمد شاہ سے اس کی شکایت کرتے تھے۔ لیکن احمد شاہ ہنس کر ٹال دیتا تھا،
ـ’’ ارے بھائی ابھی چھوٹا ہے انسان ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ہے، جب وقت اسے احساس دلائے گا تب وہ خودبخود بدل جائے گا ۔‘‘
لیکن وقت تیز رفتار گھوڑے پر دوڑنے لگااور اس کا احساس اشرف کو جگا نہ سکا، بلکہ احمد شاہ کو خود ہی یہ احساس ہونے لگا کہ اب اس کے بازئووں میں وہ پہلی جیسی طاقت نہ رہی، جسے وہ سال بھر کھیتی کرتا رہتا تھا۔۔۔ ادھر اس کی بیوی بھی اب بیمار رہنے لگی تھی ۔ اسے دمہ کا مرض لاحق ہوگیا تھا، اور وہ وقت سے پہلے ہی بوڑھی ہو گئی تھی ۔۔۔آج دونوں میاں بیوی بیٹے کے مطلق پریشان تھے۔ ماں بضد تھی کہ اشرف کی شادی کردی جائے تو وہ سدھر جائے گا، لیکن احمد شاہ کو لگ رہا تھا کہ اشرف پوری طرح سے بگڑچکا ہے ۔ اس نے اشرف کو کئی بار سمجھانے کی کوشش بھی کی، گھر کی ذمہ داری سنبھالنے کا احساس بھی دلایا،لیکن اشرف تھا کہ برائی کی دلدل میں پھنستا جا رہا تھا۔۔۔۔۔
آخر احمد شاہ بھی اور مردوں کی طرح اپنی بیوی کے سامنے ہار گیا۔۔۔ تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد اشرف کی شادی ہوگئی۔۔۔لڑکی سیدھی سادھی اور نیک تھی،اس لئے آتے ہی ساس سسر کی خدمت میں لگ گئی، لیکن احمد شاہ کی بیوی بیٹے کی بہا ردیکھنے سے پہلے ہی مرجھا گئی اور ناامیدی کے ساتھ زندگی اسے دغا دے گئی ۔۔۔احمد شاہ کو لگا کہ وہ ساری دنیا میں تنہا رہ گیا۔۔۔ اشرف شادی کرنے سے بدل تو نہ سکا، البتہ گھر کے حالات دن بدن بدلنے لگے۔ احمد کے بازئووں میں اب اتنی طاقت بھی نہ رہی تھی کہ وہ آنے والے مصیبت کے سیلاب کوروک سکتا۔ اس لئے گھر کی چیزیں ایک ایک کرکے بکنے لگیں ۔۔۔ تھوڑی بہت بچی جائیداد سے گذارا مشکل تھا ۔۔۔اور آہستہ آہستہ وہ بھی پیٹ کی دوزخ بجھاتے بجھاتے ختم ہوگئی ، اور بھوک تھی کہ جو دن بدن بڑتی ہی جا رہی تھی۔۔۔ اشرف کے دو بچے بھی ہوگئے تھے ، لیکن اب بھی چولہا اکثروبیشتر ٹھنڈا ہی رہتا تھا۔۔۔ آخر احمدشاہ بھی ایک دن اس دارِ فانی کو لبیک کہہ گیا ۔۔۔
اب سارے گھر کا بوجھ اشرف کی بیوی سارہ کے کندھوں پر آگیا تھا۔ بچوں کی بھوک نے اُسے دوسروں کے گھروں میں برتن مانجھنے اور کپڑے دھونے پر مجبور کردیا۔۔۔ اشرف سے کچھ کہتی تو بدلے میں گالیاں سننا پڑتی تھیں یا مار کھانا پڑتی تھی ۔۔۔گھر میں غربت کے ساتھ ساتھ آپسی تنائو بھی بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔دن کی بے چینی اوررات کا کرب سارا کوبے قرار کئے ہوئے تھا اور اب وہ کسی بھی طرح زندگی کا خاتمہ ہی چاہتی تھی ، لیکن سامنے معصوم بچوں کی بھوک ہاتھ روکے کھڑی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے بچوں کا جینا کتنا محال ہوجائے گا ۔۔۔
آج کی شام سارا کی زندگی کی آخری شام ہی ثابت ہونے جارہی تھی۔۔۔ بخار کی وجہ سے وہ اشرف کے گھر آنے سے پہلے ہی سوگئی تھی۔۔۔ اس پر اشرف نے قیامتِ صغریٰ کھڑا کردی۔ سارا کی اتنی مار پٹائی کی کہ وہ بے ہوش ہی ہوگئی۔۔۔ بچوں کی چیخ پکار سے سار محلہ جمع ہوگیا۔ پہلے پہل تو لوگ دور سے ہی تماشا دیکھ رہے تھے ۔ پھر بھیڑ میں سے ایک بزرگ عورت نے تھوڑی جرائت دِکھائی اور آگے بڑھ کر نیم بے ہوش سارہ کو پانی پلایا ،۔ اس کی دیکھا دیکھی میں کئی اور لوگ بھی آگے بڑھے اور روتے بچوں کو سنبھالا۔۔۔ لیکن اب بھی لوگوں کی بڑی تعداد اشرف کے ڈر کی وجہ سے دور ہی سے تماشا دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔
دوسری صبح اشرف کے ساتھ کچھ ایسا ہوگیا جس کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔۔۔ اس کی کمر پر ایک زوردار لات پڑی اور وہ ہڑبڑا کر نیند سے جاگ اٹھا ۔۔۔ ابھی وہ سنبھل بھی نہیں پایا تھا کی ڈنڈھے کی چوٹ سے اس کا شانہ جھنجھنا اٹھا ۔۔۔
’’ ارے کیا کر رہی ہے تو، دکھائی نہیں دے رہا ہے تمہیں‘‘ اشرف نے سامنے کھڑی سارہ کو دیکھ کر کہا، جس کی آنکھوں سے شعلے لپک رہے تھے ۔ اس کے ایک ہاتھ میں ڈندہ اور دوسرے ہاتھ میں رسی تھی ۔۔۔
ــ’’ اٹھ نامُراد انسان۔۔۔ اٹھ۔۔۔ اگر تومجھے اس گھر کی نوکرانی سمجھتا ہے، تم بھی تو ایک باربردار گدھے سے کم نہیں ہو۔۔۔ یہ لے رسی اور بازار جا ۔۔۔ مزدوری کر ۔۔۔ بوجھ ڈھو ۔۔۔ اور یاد رکھ جب شام کو گھر لوٹ کے آئے گا تو تمہاری پیٹھ پر دال چاول کے ساتھ ساتھ گھر گرہستی کا سامان بھی ہونا ضروری ہے۔۔۔۔۔ اٹھ ۔۔۔‘‘
’’اری چلا مت ۔۔۔ اب کیا گائوں والوں کے سامنے ذلیل کرو گی ۔‘‘
’’ اب اٹھ نا ۔۔۔‘‘
اشرف پر ایک اور ڈنڈا پڑا تو اس کی ریڑ کی ہڈی میں سرد لہر سرایت کر گئی۔۔۔ وہ حیران تھا کہ اس کے سامنے جو ناگن آگ برسا رہی ہے ۔ کیا وہ سچ مچ سارہ کا اصلی روپ ہے ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ وہ عورت کے اس روپ کے سامنے اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہا تھا ۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں