” بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا“ 0

” بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا“

خورشید جمال

اردو زبان و ادب اور شعر و شاعری سے شغف رکھنے والا شاید ہی کوئی شخص ایسا ہوگا جو شاعر مشرق ”علامہ اقبال“ کے نام سے واقف نہ ہو، تاہم اقبال کو اردو کے علاوہ فارسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔علامہ اقبال کی اصلاحی شاعری ان کےفکر و فن کی بلندی اور فلسفیانہ سوچ و عمل سے متاثر ہو کر اردو زبان و ادب میں ”مصور فطرت“ کہلانے والے خواجہ حسن نظامی نے کہا تھا کہ ” یہ شخص مجھ کو ٹیگور اور شیکسپیئر سے کئی ہزار فٹ اونچا نظر آتا ہے۔“
اقبال اعلی تعلیم کے سلسلے میں یورپ میں بھی کافی دنوں تک قیام پزیر تھے ۔اسلئے انہوں نے مغربی تہذیب وہاں کی مساجد اور مسلمانوں کے طز زندگی کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ بقول علامہ اقبال :” جب میں مغرب گیا تو اسلام کو بغیر مسلمانوں کے دیکھا جب میں واپس مشرق آیا تو مسلمانوں کو بغیر اسلام کے دیکھا۔“ ۔ غالباََ انہوں نے اسی پس منظر میں درج ذیل شعر کہا تھا کہ:
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا , وہاں بے ذوق ہے صہیبا
علامہ اقبال اپنی قوم کے لوگوں کی غفلت مسلمانوں کی بے عمل زندگی نواجوانوں کی بے راہ روی معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیاں فرسودہ رسم و رواج آپسی جھگڑے , مسلکی اختلافات ,فرقہ پرستی اور توہم پرستی جیسے غیر ضروری افعال کو دیکھ کر کافی فکر مند اور اداس رہتے تھے۔ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعہ قوم و ملت میں ایک نئی روح پھونکنے کی سعی کی اور لوگوں کو بیدار کرنے کی حتی الامکان کوششیں کیں غالباََ یہی وجہ ہے کہ انھیں ”حکیم الامت“ اور ”فلسفی شاعر“ بھی کہا جاتا ہے۔انکی شاعری ماضی حال اور مستقبل کا آئینہ دار ہے۔ اس تناظر میں ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
نہ سمجھو گے تو مٹی جاؤ گے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
فرقہ بندی ہے کہیں , اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
حرم پاک بھی , اللہ بھی , قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی
آئیں گے غسّال کابل سے کفن جاپان سے
علامہ اقبال کے نزدیک خودی یعنی اپنا وجود تسلیم کرنا ,اپنی شخصیت کا احساس کرنا اور اس کو سمجھنے میں ہی زندگی کا مقصد پنہاں ہے یہی وجہ ہے کہ خودی کا مضمون جو اقبال کے خاص نظریہ حیات کی پیدوار ہے وہ اس سے پہلے کی شاعری میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔اس پس منظر میں انکے چند اشعار دیکھیں:
خودی کیا ہے ؟راز درون حیات
خودی کیا ہے ؟ بیداری کائنات
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی!
اقبال اس بات سے بھی بخوبی واقف تھے کہ کسی بھی ملک یا قوم کی ترقی میں وہاں کے نوجوانوں کا کردار اور قول و فعل خاص اہمئیت کا حامل ہوتا ہے۔لہذا انہوں نے نوجوانوں کے خوابیدہ ذہن کو بیدار کرنے اور ان کے جسم میں حرکت و حرارت پیدا کرنے کے لئے متعدد اشعار اور نظمیں کہی نیز انہوں نے اپنے اشعار اور غزلوں کے ذریعہ نوجوانوں کو شاہین جیسی اڑان بھرنے اور اپنی منزل کی طرف گامزن ہونے کے لئے آمادہ کیا۔ اس تناظر میں ان کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہیں اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گبندپر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
علامہ اقبال بچپن سے ہی بہت ذہین اور حاضر جواب تھے۔ ان کی حاضر جوابی کا یہ عالم تھا کہ جس سے وہ مخاطب ہوتے تھے وہ لاجواب ہو کر رہ جاتا تھا۔ذیل میں ایسے ہی چند واقعات آپ کے لئے پیش خدمت ہے:
اسکول کے زمانے میں اقبال نے املا لکھنے میں ایک لفظ غلط میں ط، کی جگہ،ت لکھ دیا۔جب استاد نے ان کی اصلاح کرتے ہوئے غلطی کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے کہا کہ جناب ”غلط“ کو ”غلط“ ہی لکھنا چاہئے۔
ایک مرتبہ اقبال اسکول دیر سے پہنچے جب ان کے استاد نے تاخیر کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ اقبال ہمیشہ دیر سے ہی آتا ہے۔
علامہ اقبال نے بچوں کے لئے بھی بہت سی چھوٹی چھوٹی خوبصورت نظمیں کہی ہیں مثلاََ ”ایک مکڑا اور مکھی“ ایک پہاڑ اور گلہڑی“ ایک گائے اور بکری ہمدردی ماں کا خواب پرندے کا خواب اور ”بچے کی دعا“۔
علامہ اقبال کو وطن عزیز ہندوستان سے بھی والہانہ لگاؤ تھا جس کا اظہار انہوں نے” ترانہ ہند“ اور ”نیا شوالہ“ جیسی نظموں اورمتعدد اشعار کے ذریعہ کیا ہے جو زبان زد عام ہیں:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اسکی یہ گلستاں ہمارا
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
جنت کی زندگی ہے جسکی فضا میں جینا
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
میرے عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
اقبال ایک صوفی شاعر بھی تھے اس لئے ان کے متعدد اشعار میں تصوف کی کیفیت بھی محسوس کی جاتی ہے۔انکے یہاں گرچہ عشق مجازی کا رنگ بھی نمایاں ہے اور کہیں کہیں یہی عشق مجازی عشق حقیقی کی طرف اشارہ کرتا ہے جو کہ صوفیائی شاعری کا طرہ امتیاز ہے۔
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آلباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
علامہ اقبال کا سر چشمہ قران اور حدیث مبارکہ ہے۔ان کا دل عشق رسولﷺ‎ کے جذبے سے سرشار تھا اور انھوں نے عشق رسول کو دیگر تمام چیزوں پر فوقیت دی ہے ۔اس تناظر میں ان کے چند اشعار جو بے حد مقبول اور عالمی سطع پر مشہور ہیں آپ کی نذر ہیں۔
کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسیں وہی طہ
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمدﷺ‎ کا تمہیں پاس نہیں
آجائے گا اقبال تجھے جینے کا قرینہ
تو سرور کونینﷺ کا فرمان پڑھا کر
علامہ اقبال بلا شبہ شاعر قوم و ملت اور مفکر اسلام تھے۔ وہ ایک خوش مزاج انسان بھی تھے اور ان کا دل بھی عشق و محبت کے جذبے سے خالی نہیں تھا۔ انکے یہاں عشق کو عقل پر برتری حاصل ہے۔ انہوں نے خالص غزل کے اشعار بھی لکھے ہیں جن میں ان کا عشقیہ انداز صاف جھلکتا ہے۔ ذیل میں کچھ ایسے ہی اشعار ملاحظہ فرمائیں:
انوکھی وضع ہے سارے زمانے سے نرالے ہیں
یہ عاشق کونسی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
مگر کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دو
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
تو میرا شوق دیکھ میرا انتظار دیکھ
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
المختصر اقبال کی پوری زندگی دوسروں کے لئے سبق آموز ہے اور انکے افکار و نظریات آج بھی ہمارے لئے ایک خاص اہمیت کا حامل ہیں۔ان کی زندگی سادگی , قناعت اور خوداری کا مرقع تھی۔انہوں نے قوم و ملت کو گفتار کے بجائے کردار و عمل کو ترجیح دینے کا مشورہ دیا اور وہ خود بھی اس پر عمل پیرا رہے۔
علامہ اقبال کی رحلت پر گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور نے لکھا تھا کہ ” ڈاکٹر اقبال اپنی وفات سے ہمارے ادب میں ایسی خالی جگہ کرگئے جو مدتوں بعد بھی پر نہیں ہوسکتی۔“
واقعی اقبال جیسی عظیم شخصیتیں صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔ وہ(علامہ اقبال ) اپنے درج ذیل شعر کے خود مصداق ہیں کہ:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
����
خورشید جمال
موبائل:9804826311

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں