برصغیر کے نامور ادیب نور شاہ کے ساتھ ایک مکالمہ 0

برصغیر کے نامور ادیب نور شاہ کے ساتھ ایک مکالمہ

فیاض جمال بٹ

برصغیر کے نامور ادیب، قلمکار ، افسانہ نگار اور ناول نگار جناب نور شاہ صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اب تک اُن کے متعدد افسانوی مجموعے اور ناول منظر عام پر آچکے ہیں۔ جن میں’’ بے گھاٹ کی ناؤ، “ایک رات کی ملکہ” ،” ویرانے کے پھول” ،” بے ثمر سچ” ،”آسمان پھول اور لہو” ،”کشمیر کہانی اور ” ایک معمولی آدمی”، جیسے افسانوی مجموعے قابل ذکر ہیں ۔اس کے علاوہ پائل کے زخم ،” “نیلی جھیل کالے سائے ،”آدھی رات کا سورج” ، “آؤ سو جائیں ،”جیسے ناول قابلِ ذکر ہیں۔یاد رہے کہ یہ مکالمہ نور شاہ صاحب کے ساتھ اُن کے دولت خانے پر کیا گیا ۔ملاحظہ فرمائیں۔
فیاض جمال بٹ :- السلام علیکم ۔ نور شاہ صاحب ندائے کشمیر میں آپ کا خیر مقدم ہے
نور شاہ :- وعلیکم السلام ۔ بہت بہت شکریہ کہ آپ اتنی دور سے میرے غریب خانے پر تشریف لائے ۔
فیاض جمال:- نور شاہ صاحب اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں بتائیں کہ آپ کب اور کہاں پیدا ہوئے اور آپ کی ابتدائی تعلیم کہاں ہوئی ۔
نور شاہ :- جنابِ ِ والا میں کشمیر کی سب سے خوبصورت بستی جو کوہِ زبرون کے دامن اور جھیل ڈل کے قریب آباد ہے اور سیاحوں کے لئے بھی بڑی دلچسپ جگہ ہے میری مراد ڈلگیٹ سے ہے ۔ میں 1938 میں ڈلگیٹ میں پیدا ہوا ،اور جہاں تک ابتدائی تعلیم کا سوال ہے میں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے ڈلگیٹ سے ہی حاصل کی ۔اس کے بعد ایس پی ہائی اسکول اور پھر امر سنگھ کالج سے تعلیم حاصل کی ۔ یہ میری تعلیم کے بارے میں ہے ۔ میں کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھا ہوں ۔
فیاض جمال :- ادب کے ساتھ کیسے وابستگی ہوئی۔
نور شاہ :- ادب کے ساتھ ابتدا سے ہی بڑا شغف تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہم دو تین دوست چار چار آنے کافنڈ جمع کرکے کتاب خریدتے تھے اور باری باری کتاب پڑھتے تھے۔ اور آخر پر میری باری ہوتی تھی۔ وہ اس لئے کیونکہ پھر کتاب میرے پاس ہی رہتی تھی ۔ اس وجہ سے میرے پاس بہت ساری کتابیں جمع تھیں ۔ اور ہمارے گھر میں بھی علمی ماحول تھا۔ میری والدہ پڑھی لکھی تھیں۔ اگر چہ کم ہی پڑھا تھا لیکن وہ اردو پڑھ بھی لیتی تھیں لکھ بھی لیتی تھیں۔ اسی چیز کا اثر ہے کہ ہم چاروں بھائی پڑھے لکھے ہیں اور اچھے عہدوں پر بھی فائز رہے ۔ ہماری دو بہنیں ہیں وہ بھی پڑھیں لکھی ہیں ۔جہاں تک ادب کے ساتھ وابستگی کا سوال ہے ۔شروع شروع میں ،میں نے کشمیری زبان میں ایک مختصر ڈرامہ لکھا ۔ اور والدہ کے کہنے پر میں نے محلے کے ایک معزز اور پڑھے لکھے انسان کو دکھایا۔ کیونکہ ان دنوں اس شخص کو تعلیمی اعتبار سے عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ۔ انہوں کہا کہ اب یہی کہانی تم اردو میں لکھو۔ میں نے وہی ڈرامہ اردو میں لکھا اور ان کو دکھایا۔ انہوں نے وہ ڈرامہ پڑھ کر کہا کہ ایک تو تم اردو کی کتابیں پڑھا کرو اور دوسری بات یہ ہے کہ تم اردو میں ہی لکھو ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں اردو میں لکھنے لگا ۔اگر وہ نہ کہتے تو شاید میں کشمیری زبان میں ہی لکھتا۔

فیاض جمال :- آپ کی پہلی تحریر کب چھپی۔
نور شاہ:- میری پہلی کہانی 1960 میں ” بیسوی صدی ” میں چھپی ۔ جہاں چھپنا بہت مشکل تھا ان دنوں ۔ اس کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے میں نے ایک کہانی بیسویں صدی کو بھیج دی۔ چند دنوں بعد مجھے خط آیا کہ ہم یہ کہانی نہیں چھاپ سکتے۔ بعد میں میں نے وہی کہانی نام بدل کر اور عنوان بدل کر شاہدہ شیر کے نام سے بھیج دی۔ اور وہ کہانی چھپ گئی ۔ اور اس طرح سے کشمیر سے ایک نیا نام سامنے آیا۔ بعد میں دھیرے دھیرے وہ راز بھی کھل گیا۔ ایک دن شکیل الرحمن اور حامدی کشمیری میرے گھر آئے۔ حامدی کشمیری مجھے جانتے تھے انہوں نے شکیل الرحمن سے کہا کہ آپ تو مجھے شاہدہ شیر سے ملانے والے تھے یہ تو نور شاہ ہے۔ شکیل الرحمن نے کہا کہ یہی شاہدہ شیر کے نام سے لکھتے ہیں جناب ۔ پھر میری ایک کہانی کو ہندی ترجمہ کر کے شائع کیا گیااور نیچے لکھا گیا کہ نور شاہ شاہدہ شیر کا اصلی روپ ۔ اس طرح سے سب کو پتہ چلا کہ نور شاہ ہی شاہدہ شیر ہیں ۔
فیاض جمال :- ہر شخص کا کوئی نہ کوئی آئیڈیل یا رہنما ہوتا ہے۔ ادب میں آپ کس سے زیادہ متاثر ہوئے اور افسانوی ادب کی طرف کیوںکر راغب ہوئے؟
نور شاہ :- نہیں کسی مخصوص شخص کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا ۔ ہاں افسانوں سے بچپن سے ہی دلچسپی تھی میں ان دنوں کرشن چندر کو پڑھتا تھا۔ میں عصمت چغتائی کو پڑھتا تھا۔ اور اساتذہ بھی بہت اچھے نصیب ہوئے جو بہت اچھے سے اردو پڑھاتے تھے یہ بھی ایک وجہ ہے کہ میں اردو افسانوی ادب کی طرف راغب ہوا۔
فیاض جمال:- نور شاہ صاحب آپ نے متعدد افسانوی مجموعے لکھے ہیں ۔ہر ایک افسانے پر بات کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ لیکن آپ کا ایک افسانہ ” آسمان پھول اور لہو” میں نے دسویں جماعت میں پڑھا ہے۔ وہ افسانہ آپ نے کب لکھا ہے اور اس کے بارے میں کچھ بتانا چاہیں گے۔
نور شاہ:- تاریخ مجھے یاد نہیں ہے ہاں یہ افسانہ میرے افسانوی مجموعے ” ’’بے ثمر سچ‘‘ میں شامل ہے ۔ ان دنوں کشمیر میں حالات کچھ ٹھیک نہیں تھے اور اس افسانے کو نصاب میں شامل کرنے سے پہلے ایک میٹنگ بلائی گئی ۔ جس میں شعیب رضوی ،مجید مضمر ، غلام نبی حلیم تھے۔ اور اس افسانے پر ایک طویل بحث ہوئی اور اس کے بعد یہ طے ہوا کہ ہاں یہ افسانہ نصاب میں شامل کرنے کے قابل ہے اور اس طرح سے یہ افسانہ نصاب کا حصہ بنا۔
فیاض جمال:- اردو افسانوی ادب کو آپ کہاں دیکھتے ہیں اگر جموں وکشمیر کی بات کریں گے تو ؟
نور شاہ:- میں افسانوی ادب سے مطمین ہوں۔ بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔ بہت اچھے لکھنے والے موجود ہیں ہمارے کشمیر میں ۔ اور اچھی خاصی ترقی ہو رہی ہے۔ اور ناول بھی لوگ لکھتے ہیں ۔ نئے قلمکار بہت اچھا کام کر رہے ہیں ۔
فیاض جمال :- ابھی تک آپ نے جتنے افسانے لکھے ہیں ۔ ان میں سے کون سا ناول یا افسانہ ایسا ہے جو آپ کو پسند ہو اور جس پر آپ کو ناز ہو۔
نور شاہ :- نہیں میں یہ نہیں کہہ سکتا ۔ہاں اللہ کا فضل و کرم ہے اور میری خوش نصیبی جو بھی کچھ لکھا ہے اس کی لوگوں نے اور خاص کر ادبی دنیا میں کافی پذیرائی ہوئی ۔یہاں تک کہ کرشن چندر سے پوچھا گیا تھا کہ آپ کشمیر کب گئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں کشمیر نہیں گیا ہوں لیکن میں نے کشمیر نور شاہ اور حامدی کشمیری کے افسانوں میں دیکھا ہے ۔عصمت چغتائی سے پوچھا گیا کہ کشمیر کے افسانہ نگاروں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے تو انہوں نے مختصر جواب دیا کہ میں نور شاہ کو پڑھتا ہوں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ میں مقامی اخبارات تک ہی محدود نہیں رہا۔ اور میں نئے قلمکاروں سے بھی کہتا ہوں کہ آپ بھی اپنی تحریروں کو محدود نہ کریں ۔ بلکہ باقی دنیا میں بھی کشمیر کی ترجمانی کریں ۔
فیاض جمال :- آپ کا پسندیدہ افسانہ نگار کون ہے۔
نور شاہ :- یہ رہنے دیجئے ۔ میرے دشمن مت بنائیے سبھی لوگ اچھا لکھتے ہیں ۔ ہا ہا ہا
فیاض جمال۔ :- ادب سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ کیا آپ سرکاری ملازم بھی رہ چکے ہیں ۔
نور شاہ :- ہاں میں ڈائریکٹر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سبکدوش ہوا ہوں ۔
فیاض جمال :- تو اس کا مطلب ہے کہ سرکاری ذمہ داری آپ کے ادب میں رکاوٹ نہیں بنی۔۔
نور شاہ :- مجھے دراصل بہت اچھا ماحول ملا۔ میں کھادی بورڈ میں کام کرتا تھا اور وہاں ایک میگزین نکلتا تھا ” دیہات سدھار ” جس کا مجھے ایڈیٹر بنایا گیا۔ اس سے مجھے ادب میں مزید ترقی کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد میں مختلف عہدوں پر فائز رہا۔
فیاض جمال۔:- اردو زبان کی موجودہ حالت کے بارے میں بتایئے ۔
نور شاہ :- ٹھیک ہے لیکن جس طرح کے تعاون کی امید کی جاتی تھی وہ نہیں مل رہا ہے۔انتظامیہ کی جانب سے۔ اس حوالے سے جو ادارے کام کر رہے ہیں وہ بھی کسی حد تک کمزور پڑ گئے ہیں ۔ اور اردو کی ترویج کے لئے زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود میں یہی کہوں گا کہ کشمیر میں اردو زبان نہیں مر سکتی۔ اور ہاں ہمیں اردو کے ساتھ ساتھ کشمیری زبان کے لئے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہماری مادری زبان ہے۔ اس کی حفاظت کرنا اور اس کی ترویج کرنا ہمارا فرض ہے۔
فیاض جمال :- نئی نسل کے لئے آپ کا کیا پیغام رہے گا خاص کر نئے قلمکاروں کے لئے ۔
نور شاہ :- بس ان کو پڑھنا چاہیے ۔جس کو وہ پسند کرتے ہیں یا جو پڑھنے کے قابل ہیں ۔کیونکہ پڑھنے سے ذہن کے دریچے کھل جاتے ہیں ۔ پڑھنے سے ہی اردو ،کشمیری، گوجری، پہاڑی اور باقی زبانوں کی ترقی ہو گی ۔پڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ پڑھنا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے۔
فیاض جمال :- اس وقت آپ کی کیا مصروفیات ہیں ۔
نور شاہ :- میں پڑھتا ہوں اور آج بھی ادب کی خدمت میں مشغول ہوں۔ اگر چہ طبعیت بھی اب ناساز ہی رہتی ہے۔
فیاض جمال :- بہت سارے سوالات ابھی بھی ذہن میں ہیں لیکن آپ کی طبیعت ناساز ہے اس لئے آپ کو مزید تکلیف نہیں دیں گے ۔ آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ناسازگار طبیعت کے باوجود بھی ہمیں اپنا وقت دیا۔
نور شاہ :- آپ کا بھی شکریہ کہ آپ اتنی دور سے تشریف لائے۔
فیاض جمال بٹ ( صحافی، سماجی کارکن، قلمکار)
چکِ وٹو اہرہ بل
فون نمبر 7006805480/ 9906825078

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں