بیس سال بعد اپنے استادِ محترم جناب بشیر احمد بٹ سے ایک ملاقات 0

بیس سال بعد اپنے استادِ محترم جناب بشیر احمد بٹ سے ایک ملاقات

سبزار احمد بٹ

استاد کی عظمت اور بڑائی سے بلا کسے انکار ہو سکتا ہے۔ ایک استاد اپنی محنت، لگن، خلوص اور ہمدردی سے اپنے طلباء کی تقدیر سنوارتا ہے۔ ایک بچے کے شاندار مستقبل کے لئے ایک استاد کیا کچھ نہیں کرتا۔ وہی بچہ جب بڑا ہوتا ہے۔ پڑھ لکھ کر اس کا مستقبل جب تابناک بنتا ہے۔ تو اس وقت اس پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے استاد کو یاد کرے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچہ استاد کے احسان کا عشر عشیر بھی ادا نہیں کر سکتا ہے ۔ لیکن کم سے کم ایک شاگرد کو اپنے استاد کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ۔ اس سے اُس استاد کے دل کو راحت اور خوشی محسوس ہو گی۔ اس بات کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب میں اپنے استاد محترم سے چند دن پہلے ملاقی ہوا۔ بیس سال بعد یہ ملاقات میرے لئے کسی حسین تحفہ سے کم نہیں تھی۔ دراصل محترم بشیر احمد بٹ صاحب جو کہ چولگام کولگام میں رہتے ہیں نے مجھے اول جماعت سے آٹھویں جماعت تک بڑی محنت لگن اور ہمدردی سے پڑھایا۔ میں میری بہن روحی جان اور میرا بھائی مد ثر احمد بٹ آٹھویں تک ایک ساتھ پڑھے ہیں ۔ اور بشیر صاحب نے ہمیں جو پیار دیا اس کے لئے ہم ان کے مرہون منت ہیں ۔ مجھے یاد ہے جب میرے والد صاحب بشیر صاحب سے ملتے تھے اور عاجزانہ انداز میں کہتے تھے بشیر صاحب میرے بچوں کا خیال رکھنا یہی میرا سرمایہ ہے۔ اور بشیر صاحب یقین دلاتے تھے کہ ہم آپ کے بچوں کو دل و جان سے پڑھائیں گے۔تب مجھے یہ باتیں معمولی لگتی تھیں والد صاحب کے اس جملے کے پیچھے کادرد کو بھی محسوس کرنا یا سمجھنا میرے بس میں نہیں تھا۔ نہ یہ سمجھ میں آتا تھا کہ کون سا استاد کیا کرتا ہے ۔ لیکن عمر کے ساتھ ساتھ اس بات کا احساس اور ادراک بھی ہونے لگا کہ واقعی بشیر صاحب بے حد محنت کرتے تھے۔ ساڑھے نو بجے ہاتھ میں اپنا ٹفن بکس لئے اسکول دروازے پر حاضر ہوتے تھے۔ حالات چاہے کچھ بھی رہے ہوں لیکن بشیر صاحب نے کبھی بھی اپنی ڈیوٹی کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا۔میرے کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی اساتذہ اپنی ڈیوٹی سے خدا نخواستہ سمجھوتہ کرتے تھے۔ نہیں بالکل نہیں ۔ہاں مگر یہ کہنے میں بھی جھجھک نہیں ہے کہ بشیر صاحب کا انداز جداگانہ تھا جو اُس وقت میری سمجھ میں نہیں آتا تھا ۔ آج بیس سال بعد جب میں بحیثیت استاد کام کر رہا ہوں اور جب میری دوسری کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ تو پچھلے دو سالوں سے میں اس کوشش میں تھا کہ محترم بشیر صاحب کی خدمت میں اپنی یہ کتابیں پیش کر کے یہ بتاؤں کہ جناب بشیر صاحب آپ کی محنت رنگ لائی ۔میں محترم بشیر صاحب کے گھر بھی گیا لیکن ان سے ملاقات نہ ہو پائی۔ اس سے پہلے بھی محترم بشیر صاحب کہیں بازار میں ملے تھے لیکن وہی والی بات ہوئی ۔
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
محترم بشیر صاحب اس سال پھر ایک بار ہمارے ہی علاقے میں ہائر سیکنڈری کھل احمد آباد میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ میں نے وہاں کے چند اساتذہ سے درخواست کی کہ مجھے موقع دیا جائے تاکہ میں اپنے استاد بشیر صاحب کو اپنی کتاب پیش کروں ۔پرنسپل ہائر سیکنڈری کھل جناب این ۔ اے۔ لون صاحب، استاد آکاش ہلال صاحب، طلیق رشید صاحب اور باقی اساتذہ کی کاوشوں سے محترم بشیر صاحب سے ملاقات ممکن ہوئی۔ میں جب اس ہائر سکینڈری میں داخل ہوا تو اپنے محسن، ہمدرد، استاد محترم بشیر صاحب کے چہرے پر نظر پڑتے ہی میری آنکھیں نم ہوئیں۔مجھے یاد آیا وہی ضعیف جسم، معصوم چہرہ، وہی لہراتے بال، وہی داڑھی، ہاں بال اور داڑھی سفید ہوچکی ہیں ۔ میں گلے لگ کر خوب رویا اور روتے ہوئے ان ہاتھوں کو چوما جن ہاتھوں سے میری پرورش کی ہے اور محترم بشیر صاحب نے میرے ماتھے پر بوسہ دیا اور رو پڑے۔ استاد اور شاگرد کی ملاقات کا یہ جذباتی منظر دیکھنے کے قابل تھا۔ اس کے بعد محترم بشیر صاحب سٹیج پر نمودار ہوئے۔ محترم بشیر صاحب نے بچپن کے چند واقعات کا ذکر کر کے مجھے پھر بچپن کی حسیں وادیوں میں دھکیل دیا۔ دل چاہتا تھا کہ پھر بچہ بن جاؤں اور اپنے ہمدرد استاد کے سامنے دو زانو بیٹھ کر علم کی وادیوں میں کھو جاؤں ۔ لیکن کہاں ممکن ۔ ایک بار وقت ہاتھ سے نکل گیا پھر دنیا کی ساری دولت خرچ کرنے پر بھی کھوئے ہوئے وقت کو واپس نہیں لایا سکتا۔ اس کے بعد میں نے تمام طلبا اور اساتذہ کے سامنے اپنے استاد محترم کو اپنی دو کتابیں پیش کیں۔تو محترم بشیر صاحب کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ ایسا لگا جیسے دنیا کے تمام خزانوں کے دروازے محترم بشیر صاحب کے لئے کھول دئیے گئے ہوں۔ یاد رہے کہ اس موقع پر طلیق عبدالرشید صاحب نے بھی اپنی کتاب ” کشمیر سر فاراں تک ” پر پرنسپل ہائر سیکنڈری کھل کو پیش کر کے ہائر سیکنڈری کے نام کر دی ۔ اس کے بعد مجھ ناچیز کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ اپنے شاگرد کو سٹییج پر دیکھ کر بشیر صاحب کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا لیکن یقین جانئے آج پہلی بار میری زبان لڑکھڑائی۔ اور الفاظ میرا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں سے شروع کروں اور کیا کہوں ۔ محترم بشیر صاحب کے سامنے بولنا آفتاب کو چراغ دکھانے کے مترادف تھا لیکن میں یہ حماقت اس لئے کر رہا تھا کہ چند الفاظ بول کر اپنے من کا بوجھ ہلکا کروں ورنہ دم گھٹ جاتا میرا۔ میں اگر آج کچھ بولنے کی صلاحیت رکھتا ہوں یا ٹوٹے پھوٹے الفاظ لکھنے کی صلاحیت رکھتا ہوں تو یہ اللہ رب العزت کی مہربانی، میرے والدین کی دعاؤں اور محترم بشیر احمد بٹ صاحب جیسے اساتذہ کی محنت کا نتیجہ ہے۔ یا اگر یہ کہوں کہ میری زبان اور میرا قلم بشیر صاحب کا مرہون منت ہے تو بیجا نہیں ہوگا۔ سامنے بیٹھے اپنے ضعیف استاد کو دیکھ کر میں پھر ایک بار رو پڑا۔ مجھے وہ بچپن کے دن یاد آئے اور میں آج سمجھ گیا کہ محترم بشیر صاحب نے اپنی تمام عمر اور جوانی بچوں کا مستقبل سنوارنے میں لگا دی۔ بشیر صاحب کے کالے اور چمکیلے بال ہمارا مستقبل سنوارتے ہوئے برف کی مانند سفید ہو گئے ۔ میں کوئی آفیسر نہیں ہوں ایک استاد ہوں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ میں اپنے عہدے اور اپنے کام سے مطمئن ہوں ۔ جس طرح محترم بشیر صاحب اپنے کام سے مطمئن تھے بڑا آفیسر ہونا ضروری نہیں ہے۔ ضروری ہے کہ انسان اپنے عہدے اور کام سے مطمئن ہو۔ تب جا کر انسان خلوص اور من سے اپنا کام انجام دے سکتا ہے۔ بشیر صاحب کے چہرے پر آج بھی سمندر کا سا سکون چھایا ہے۔ دل چاہتا تھا کہ کچھ نہ بولوں فقط بشیر صاحب کے چہرے کی طرف دیکھتا رہوں ۔ لیکن وقت کے ہاتھوں مجبور تھا. اپنے استاد محترم سے ملاقات کے یہ لمحات میرے لئے کسی حسیں تحفہ سے کم نہیں تھے۔
خیر آج بھی استاد محنت کرتے ہیں لیکن اکثر استاد بشیر صاحب کی لگن، محنت، ہمدردی اور خلوص کو نہیں پہنچ پاتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آج اساتذہ اور طلبا میں وہ رشتہ نہیں رہا جس کی ہم توقع کرتے ہیں ۔ آج کل کے طلبا اپنے اساتذہ کی پرواہ نہیں کرتے ۔ لیکن میں گزارش کرنا چاہوں گا نئی پود سے کہ جب تک ہم اپنے اساتذہ کا احترام نہیں کریں گے تب تک ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔جو محبت اور احترام میرے دل میں اپنے استاد بشیر صاحب کے لئے ہے۔ اس کا عشر عشیر بھی اگر میرے طلبا کو مجھ سے ہوگا تو میں اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھوں گا۔ پچھلے دو سال سے محترم بشیر صاحب کا فون نمبر میرے موبائل میں محفوظ ہے لیکن خدا کی قسم فون کرنے کی جسارت نہیں کر پارہا تھا۔ جب کہ آج کے طلبا اساتذہ کا وہ احترام نہیں کرتے ہیں جس کے وہ مستحق ہیں ۔ یہی صورتحال دیکھ کر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
سنبھل کر گفتگو کرنا بزرگو
کہ بچے اب پلٹ کر بولتے ہیں
اس صورتحال کے لئے بہت سارے وجوہات ذمہ دار ہے ہم سب کو ایک ہو کر اس صورتحال کا بدلنا ہوگا۔ اور اساتذہ کا وقار بحال کرنا ہوگا ۔ میں اللہ رب العزت سے دست بدعا ہوں کہ اللہ میرے اس محسن استاد کو عمر دراز عطا فرمائے اور ان کے علم، حلم خلوص ،ترقی اور، محبت میں برکت عطا فرمائے ۔ میں ہائر سیکنڈری کھل دمہال ہانجی پورہ کے طلبا کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہیں محترم بشیر صاحب جیسے استاد کی رہنمائی حاصل ہے امید ہے کہ وہ ان کی رہنمائی کے ایک ایک پل کو غنیمت جان کر ان سے استفاده کریں گے۔ میں تمام اساتذہ سے گزارش کرنا چاہوں گا کہ وہ محترم بشیر احمد بٹ صاحب کے طرزِ عمل کو اپنائیں تو ان کے طلاب کو کامیاب ہونے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ میں فقط یہی کہوں گا کہ
رہبر بھی یہ ہم دم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہے معمار ہمارے
������
سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد،

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں