تبدیلی ۔۔۔۔۔۔ 0

رائے یا مشورہ

بٹ شبیر احمد

رائے اور مشورہ ایک اسلامی شعار ہے اس کی ایک بہت بڑی اہمیت ہے ۔ مشورہ مسجد نبوی کے اعمال میں سے ایک عمل ہے ۔صالح ۔کامیاب اور پر امن زندگی گزارنے کے لئے مشاورتی نظام اپنانا از حد ضروری ہے ۔ مشورہ خیرو برکت ، عروج و ترقی اور نزول رحمت کا ذریعہ ہے ۔ انسان کے عروج اور زوال میں مشیر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ہر شخص اپنی رائے رکھتا ہے مگر ایک ہوتا ہے مشورہ دینا یا رائے لینا اور دوسرا ہوتا ہے اپنی رائے تھوپنا۔ زندگی میں بے شمار مواقع ایسے آتے ہیں جب ہمیں دوسروں کے مشورے یا رائے کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جب بھی ہمیں کوئی فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو ہم دوسروں کی رائے اور مشوروں سے مستفید ہوتے ہیں ۔ گھر میں ۔دفتر میں ۔بازار اور مسجد میں غرض زندگی کے ہر قدم پر مشوروں کی ضرورت پڑتی ہے . چاہیے یہ مشورہ انفرادی سطح کا ہو یا اجتماعی سطح کا -جتنی اہمیت اس بات کی ہے کہ ہم دوسرے سے رائے اور مشورہ لیں اتنی ہی اہمیت اس بات کی بھی ہے کہ مشورہ دینے والے میں وہ سب اوصاف موجود ہوں جو مشیر میں ہونے چاہیے ۔ دنیا میں جو چیزیں نایاب ہو رہی ہیں ان میں ایک چیز یہ بھی ہے کہ اب ایک دوسرے کا مشورہ ایک دوسرے کی رائے لینی خلاف شان سمجھا جاتا ہے ۔اس لئے اکثر فیصلوں کے نتائج مایوس کن ہوتے ہیں ۔
کوئی فیصلہ کرکے رائے مانگتا ہے تو کوئی رائے مانگ کے فیصلہ کرتا ہے ۔ کوئی رائے دے کر نیکی کماتا ہے اور کوئی اہم ہونے کے وہم میں رائے مانگنا ہی اپنی شان کے خلاف سمجھتا ہے ۔ ویسےبھی خودرائی کا کام خالق کی شان ہے مخلوق کی نہیں ۔اور اگر مخلوق اشرف المخلوق ہو تو پھر اس کو اشرف بنانے کا ایک زریعہ یہ بھی ہے یعنی مشورہ اور رائے مانگنا اور دینا۔ رائے مانگتے وقت بہتر انتخاب کرنا چاہیے ۔ ہر کسی میں ہر کوئی گھن نہیں ہوتا ہے ۔ خریدو فروخت کا معاملہ ہو یا رشتہ جوڑنے کی بات ۔ دفتری معاملات ہو یا نجی زندگی کی کوئی بات ، مشورے میں برکت ہے اور رائے لینے میں بخیل نہیں بننا چاہیے ۔اگر آپ مخلص بن کر رائے مانگے اور کوئی مخلص بن کر اپنے علم ۔تجربے یا مشاہدے کی بناء پر آپ کو مشورہ دیتا ہے تو کامیابی ملنی یقینی ہے اور اگر کبھی مخلص ہوتے ہوئے بھی نتائج حوصلہ افزاء نہ ہوں تب بھی کوئی افسوس یا پچھتاوا نہیں ہوتا ہے ۔کیونکہ جب کسی کام یا کسی فیصلے میں کسی کی رائے یا مشورے کی ضرورت غیر ضروری لگے تو نتیجہ غلط آنے پر پھر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔پچھتاوے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا ہے ” مَا شَقٰی عَبْدٌ بِمَشْوَرَةٍ وَمَا سَعِدَ بِاسْتِغْنَاءِ رَأیٍ یعنی کوئی انسان مشورہ سے کبھی نا کام اور نامراد نہیں ہوتا اور نہ ہی مشورہ ترک کر کے کبھی کوئی بھلائی حاصل کرسکتا ہے۔”
ایک موقع پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَاخَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَلَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ ”جس نے استخارہ کیا وہ نا کام نہیں ہوا اور جس نے مشورہ کیا وہ شرمندہ نہ ہوا”
جب کبھی ہم کسی کی رائے یا مشورے کو اپنی انا پسندی اور برتری کے سبب ٹھکرا دیتے ہیں یا نظرانداز کرتے ہیں تو ایک وقت ضرور آتا ہے جب اُس مشورے اور رائے کی اہمیت اور افادیت کا ہمیں احساس ہو جاتا ہے ۔
رائے مانگنی چاہیے اور رائے مخلص بن کر دینی چاہیے ۔ بقول شاعر ۔
بچھڑنے کا ارادہ ہے تو مجھ سے مشورہ کر لو
محبت میں کوئی بھی فیصلہ ذاتی نہیں ہوتا
���
������
بٹ شبیر احمد
رحمت کالونی شوپیان
موبائل 9622483080

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں