قاری مشتاق احمد پرتاپ گڑھ ــــــــــــ یادوں کے نقوش 0

قاری مشتاق احمد پرتاپ گڑھ ــــــــــــ یادوں کے نقوش

محمد شمیم اخترندوی
عالم گنج، پٹنہ

یہ دنیادارِ فانی ہے، یہاں ہر شئے کو فنا ہونا ہے،ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے،باقی رہنے والی صرف اللہ کی ذات ہے، مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن کے گزرنے کے بعد ان کی یادیں ہمارے دل و دماغ پر اس قدر حاوی ہوتی ہیں کہ لگتانہیںہے کہ وہ اس دنیامیں نہیں ہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسےوہ اپنی تمام ترحرکات و سکنات کے ساتھ ہمارے درمیان موجود ہیں۔برسوں گزر جانے کے بعد بھی زمانے کےسردو گرم کے غبار ان کے نقوش کو مٹا نہیں پاتے،ان کے روشن نقوش ہمارے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہتے ہیں۔بلا شبہ ایسی ہی با کمال شخصیتوں میں سے ایک مدرسہ عالیہ عرفانیہ لکھنؤ کے بانی ومہتمم حضرت قاری مشتاق احمد پرتاب گڑھی خلف الرشید بقیۃ السلف حضرت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی نوراللہ مرقدہ کی شخصیت بھی تھی ۔ان کی ذات گرامی اپنے آپ میں ایک انجمن تھی ،وہ میرے لئے ایک انتہائی شفیق اور محسن ومربی کی حیثیت رکھتے تھے۔قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو گزرے ہوئے کم وبیش چارسال کا عرصہ گزرچکا ہے، مگر ایسا لگتا ہےجیسے وہ اپنی نشست گاہ پر بیٹھے ہیں، طلبا آرہے ہیں ، جارہے ہیں اور وہ ان کی نگرانی کررہے ہیں۔
قاری مشتاق احمد پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت محتاج تعار ف نہیں، انہیں علوم دینیہ خاص طور سے قرآنی علوم میں ملکہ حاصل تھا ۔ قرآن مجید سے انہیںبے پناہ محبت تھی اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پوری زندگی قرآن کی خدمت میں گزار دی۔یوں توموصوف بے پناہ صلاحیتوں کے مالک تھے،اللہ نے انہیں بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا،لیکن تمام خوبیوں میں خدمت قرآن کی خوبی سب پر فائق تھی،قرآن پاک سےاس قدر محبت تھا کہ اگر انہیں فنافی القرآن کہا جائے تو شاید بیجا نہ ہوگا۔، قرآن کریم آپ کے رگ وریشہ میں رچا بسا تھا۔اللہ تعالیٰ نے انہیں قرآن فہمی کی بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔
قاری مشتاق احمد پرتاب گڑھی کی پیدائش موضع پھول پور، ضلع پرتاب گڑھ، یوپی کے علمی گھرانہ میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد ملک کی ممتاز علمی اور روحانی شخصیت حضرت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی تھے، جو حضرت مولانا شاہ فضل رحمٰن گنج مرادآبادی کی یادگار تھے۔حضرت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی کے بارے میں مولانا عبداللہ حسنی ندوی تحریر کرتے ہیں:
’’ حضرت والا سخت مجاہدات اور ریاضتوں سے گزرے تھے، ٹیلہ والی مسجد کا قیام، گومتی ندی سے پانی بھربھر کر لانا، ایک جوڑا کپڑا جو بھیگ جاتا تو ٹھنڈی راتوں میں رات رات بھر ذکر کرکے اس کو سکھانا، اس کے علاوہ اپنے پیرو مرشد حضرت شاہ بدرعلی صاحبؒ کی خدمت میں رائے بریلی شہر سے پیدل جانا، اپنے گھر کے سامنے جنگل میں ایک ایک وقت میں کئی کئی ہزار مرتبہ اسم ’’اللہ اللہ‘‘ کا ورد کرنا، یہ سب امور اس بات کے لئے کافی تھے کہ حضرت مغلوب الحال ہوکر کسی گوشۂ تنہائی میں بیٹھ جاتے اور روحانی لطف وکیف میں کھوجاتے، لیکن اللہ تعالیٰ کو حضرت سے اصلاح کا بڑا کام لینا تھا اور مخلوق خدا کو نفع پہنچانا تھا، اس لئے وہ وقفہ طویل نہیں ہوا، حضرت نے اپنے اشعار میں اس حالت کو بیان بھی کردیا ؎
اب نہ افراط باقی نہ تفریط ہے

عشق کامل ہوا معتدل ہوگیا
بھٹک کے منزل جاناں سے دور جاپہنچے
جو جوش عشق میں جذبات کو دبا نہ سکے
قاری صاحب کی ابتدائی تعلیم اپنے گائوں پھول پور کے مکتب اور پھر گائوں کے ہی پرائمری اسکول میں ہوئی۔ اس کے بعد ۱۹۴۶ءمدرسہ کافیۃ العلوم سٹی پرتاب گڑھ میں حافظ مشتاق احمد سلطان پوری کے پاس حفظ قرآن کی تکمیل کی۔آپ کے حفظ کے ساتھیوں میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے شعبۂ عربی کے سابق صدر مولانا نذالحفیظ ندوی ازہریؒ بھی تھے۔
۱۹۵۳ء میںملک کے تجویدوقرأت کا معروف ادارہ مدرسہ عالیہ فرقانیہ لکھنؤ(یوپی) میں داخلہ لے کر قاری محمد سابق صاحبؒ کےپاس روایت حفص کیا۔ اس کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میںدرجہ سوم تک کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کےممتاز اساتذہ میں مولانا معین اللہ ندوی ،مولانا حبیب الرحمٰن سلطان پوری اور موجودہ مہتمم مولانا ڈاکٹر سعیدالرحمٰن اعظمی ندوی شامل ہیں۔
(خادم قرآن قاری مشتاق احمدؒ ،تعمیرحیات،۱۰؍ دسمبر ۲۰۱۹، ص۳۲)
روایت حفص اور عربی کی تعلیم کے بعد آپ نے مدرسہ عالیہ قدیمیہ ٹکسال، فرنگی محل ،لکھنؤ میں شعبۂ قرأت میں استاذ کی حیثیت سے تدریس کا آغاز کیا۔ آپ کی بہتر کارکردگی اور طلبا میں بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے مدرسہ عالیہ فرقانیہ کے ذ مہ داروں نے آپ کو اپنے یہاں تدریسی خدمات انجام دینے کے لیے منتخب کیا۔پہلے شعبۂ ناظرہ میں تقرری ہوئی، کچھ دنوں بعد شعبۂ قرأت میں اپنے ہی استاذ حضرت قاری سابق صاحبؒ کے معین کی حیثیت سے خدمات انجام دینے لگے اور ۱۹۶۸ء میں قاری محمد سابق صاحبؒ کے انتقال کے بعد شعبۂ قرأت میں باقاعدہ تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔
آپ پوری یکسوئی او رانہماک کے ساتھ درس وتدریس میں مصروف تھے کہ اچانک ایسے حالات پیش آئے کہ یکم نومبر ۱۹۷۷ء کو قاری صاحب مستعفی ہوکر مدرسہ عالیہ فرقانیہ سے علیحدگی اختیار کرلی۔قاری صاحب کے استعفیٰ کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ، طلبا کا ہجوم قاری صاحب کے پاس جمع ہوگیااور استعفیٰ واپس لینے پر اصرار کرنے لگا اور بے سروسامانی کے عالم میں اگلے ہی صبح سے مسجد حیدر بخش میںدرس وتدریس کا آغاز کردیااوراللہ پر توکل کرتے ہوے طالبانِ علوم نبوت کو سیراب کرنے میں مصروف ہوگئے۔ نہ طلبہ کے رہنے کا انتظام، نہ کھانے کا بند وبست، نہ کتابیں، نہ تپائیاں اور نہ اساتذہ کے لیے تنخواہ ودیگر ضروریات کا کوئی نظم ونسق۔
مذکورہ بالا حالات کے حوالے سے قاری صاحب کچھ یوں رقمطراز ہیں۔ ملاحظہ ہو:
’’۱۹۵۳ء میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے اساتذہ کے حکم سے تدریسی خدمات سے وابستہ ہوگیا، تقریباً آٹھ سال تک درجۂ ناظرہ میں قرآن کریم پڑھانے کی سعادت حاصل ہوئی، پھر اس کے بعد شعبۂ تجوید میں منتقل ہوکر ۳۰؍اکتوبر ۱۹۷۷ء تک بحیثیت استاد تجویدوقرأت کام کرتا رہا، اچانک میری طبیعت اچاٹ ہوئی اور یکم نومبر ۱۹۷۷ء کو مدرسہ فرقانیہ سے مستعفی ہوگیا اورچوک کی تاریخی مسجد داروغہ حیدر بخش جس میں بحیثیت امام میں نماز پڑھاتا تھا اور میرا قیام بھی وہیں تھا، مدرسہ سے آکر آرام کرنے لگا، میری علیحدگی کی خبر عام ہوتے ہی طلبا کی ایک کثیر تعداد نے آکر مجھے گھیر لیا اور استعفیٰ واپس لینے پر اصرار کیا، لیکن بعض وجوہات کی بنیاد پر میں ایسا نہ کرسکا، میں نے ان کو ہر چند سمجھانے کی کوشش کی کہ تمہارا آخری سال ہے، تم مدرسہ جاکر اپنی تعلیم وہیں مکمل کرلو، لیکن طلبا کا اصرار بڑھتا ہی رہا، چونکہ طلبا کا مجھ سے تعلق اتنا جذبا تی تھا کہ مجھ کو مجبورہوکر دوسری ہی صبح سے اسی مسجد میں درس وتدریس کا کام شروع کرنا پڑا، جو بعد میں مدرسہ عالیہ عرفانیہ کے نام سے متعارف ہوا۔ حالانکہ میرے ذہن میں حضرت مولانا صدیق احمد صاحب باندویؒ کے مدرسہ میں کام کرنے کاخیال تھا، طلبا کی وارفتگی میرے ساتھ اس لئے اور بھی تھی کہ وطن اور ماں باپ سے دور میں عملاً ان بچوں کے ساتھ شفقت پدری سے پیش آتا تھا اور طلبا کے معاملات میں ان کا پورا پورا تعاون کرتا تھا، حتیٰ کہ جب میں مدرسہ فرقانیہ میں تھا اور میری تنخواہ صرف ترپن روپے تھی، تب بھی مسجد حیدر بخش میں تقریباً بیس طلبا کا قیام وطعام میرے ہی ذمہ تھا۔ ابتدا میں ایک استاذ حافظ شریف الرحمٰن صاحب اور ایک استاذ درجہ عربی میں مولوی اقبال احمد صاحب میرے معین ومددگار تھے۔ رفتہ رفتہ مدرسہ نے ترقی شروع کی ، میرا معمول تھا کہ سات بجے سے بارہ بجے تک مدرسہ کی خدمت انجام دیتا ، اس کے بعد سرمایہ کی فراہمی کے سلسلے میں شہر میں اپنے معاونین کے ساتھ نکل جاتا، اس طورسے مدرسہ کا کام شروع ہوا، طلبا کی تعداد روز افزوں بڑھتی ہی رہی، تنگی کے باعث مجبوراً مسجد ہی میں ۸۰؍ فٹ لمبا اور ۴۰؍ فٹ چوڑا ایک ہال مزید تعمیر کراکر درجات کا نظم کیا گیا۔ آہستہ آہستہ مدرسہ کا اتنا چرچا ہوا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے مجھ سے فرمایا :
’’تمہارے مدرسہ کا شہر میں بڑا چرچا ہے، کل صبح تمہارا مدرسہ آکر دیکھوں گا‘‘
چنانچہ دوسرےدن حضرت مولانا اپنے رفقاء کے ساتھ مسجدحیدر بخش تشریف لائے ، طلبا کی کثرت اور اساتذہ کی تعلیمی محنت کو دیکھ کر انتہائی خوش ہوکر دوران تقریر فرمایا:
’’مدارس عربیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں جتنے بھی مدارس ہیں،سب کی ابتدا مسجد سے ہی ہوئی ہے ‘‘ اور طلبا کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’ تم جگہ کی تنگی کی وجہ سے بددل مت ہونا، ان شاءاللہ ایک دن آئے گا کہ مدرسہ عرفانیہ اپنی شاندار عمارت میں ہوگا اور جب باہر کے لوگ ندوہ آئیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ اب آپ ایک چھوٹا ندوہ بھی دیکھ لیجئے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ اس مرد بزرگ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پورے ہوگئے۔‘‘
(جریدہ سلور جبلی ،ص۳۹-۴۰)
حضرت قاری صاحب کےمزاج میں خشکی دور دور تک نہیں تھی، وہ بڑے شگفتہ اور پرمذاق بزرگ تھے، جائز حدود میں رہ کرطلبا اور اساتذہ سے تفریح بھی کیا کرتے تھے۔طلبا اور اساتذہ سے نرم اور گرم کا معاملہ فرماتے تھے۔ادھر کسی طالب علم سے ناراض ہوتے ، تو فوراً مدرسہ سے نکال دیتے ،لیکن چندگھنٹوں کے بعد وہی طالب علم قاری صاحب سے معافی مانگ لیتا، تو فوراً معاف کردیتے اور طالب علم کی دلجوئی کے لیے اپنے مخصوص انداز میں ہنسی مذاق کرتے۔
راقم الحروف نےبھی مدرسہ عالیہ عرفانیہ میںحضرت قاری صاحب کی سرپرستی میں تین سال اپنی علمی پیاسی بجھائی ہے۔ میرا مدرسہ عالیہ عرفانیہ میں آخری سال تھا(عالیہ ثانیہ) ،کچھ کمروں کی اچانک بجلی غائب ہوگئی۔ قاری صاحب کو احساس ہوا کہ کسی نے پریس کیا ہے ،جس کی وجہ سے شارٹ سرکٹ کے سبب بجلی کی سپلائی بند ہوگئی ہے۔ دوسری منزل میں ایک ایک کمرے کی تلاشی شروع ہوگئی، اتفاق سے میرے کمرے میں جب تلاشی لی گئی تو میرے کمرے سے دو پریس برآمد ہوئے، جس کی پاداش میں کمرے کے تمام طلبا کو مدرسہ سے باہر کردیا،ہم لوگ بھی فوری طور سےایک ایک تھیلا لے کرمدرسہ سے باہر ہوگئے، دوسرے دن تقریباً تین بجے قاری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور معافی تلافی کے بعد مدرسہ میں واپس آگئے۔
قاری صاحب کا رویہ تمام طلبا کے ساتھ یکساں تھا، وہ کسی کے ساتھ تفریق نہیں کرتے تھے،وہ چوبیس گھنٹہ طلبا کی نگرانی کرتے تھے۔ راقم الحروف پر بہت اعتما د کرتے تھے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء جانے کے بعد بھی قاری صاحب کی محبت وشفقت میں کبھی کمی نہیں آئی، بلکہ مزید محبت والفت کا معاملہ فرماتے تھے۔
۲۰۰۲ء میں مدھوبنی کے ایک طالب علم نے چمپارن کے ایک طالب علم کو کمرہ میں بند کرکے اس کی زبردست پٹائی کردی، جس کی وجہ سے اس کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی۔ جب یہ خبر طلبائے چمپارن کوہوئی، ان لوگوں نے ہنگامہ برپا کردیا اور مدرسہ میں اسٹرائک کردیا۔ قاری صاحب نے مصلحتاً ملزم طالب علم کو بڑی خاموشی کے ساتھ لکھنؤ چھوڑدینے کو کہا،اور وہ چلا گیا، اگر خدانخواستہ ملزم طالب علم طلبائے چمپارن کے ہاتھ لگ جاتا تو حالات مزید خراب ہونے کا امکان تھا۔مشتعل طلباءمدرسہ سے نکل گئے ،قاری صاحب نے بہت سمجھانے کی کوشش کی ،مگر طلبا نہیں مانے،چمپارن کے بیشتر طلبا مدرسہ چھوڑ کر گھر جانے کے لیے چار باغ اسٹیشن چلے گئے۔ قاری صاحب نےکسی کے ذریعہ مجھ تک خبر پہنچوائی کہ میں فوری طور پر مدرسہ عالیہ عرفانیہ میں حاضر ہوجائوں،میں چھٹی کے فوراً بعد قاری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا، تب تک بچے جاچکے تھے۔قاری صاحب نے مجھ سے کہا کہ اسٹیشن جائو اور ناراض طلبا کو واپس آنے پر آمادہ کرو، اگر بچے آجاتے ہیں، تو بہتر ہے، ورنہ نقصان ان ہی کا ہوگا،میرا کچھ نہیں ہوگا۔ وہاں سے میں برادرم حزب اللہ ندوی چمپارنی (اس وقت وہ مدرسہ عالیہ عرفانیہ میں عالیہ ثانیہ کے طالب علم تھے)کے ساتھ اسٹیشن پہنچا، ٹرین آئی نہیں تھی، اس لیے تمام طلبا سےایک ساتھ ملاقات ہوگئی، بہت سمجھانے کی کوشش کی ، لیکن وہ نہیں مانے ،ہم دونوں ٹرین کھلنے تک وہیں رہے، ٹرین کھل گئی اور رفتار پکڑلی اور ہم دونوں ایک دوسرے کے منہ دیکھتے رہ گئے۔
قاری صاحب طلبا سے بے پناہ محبت کرتے تھے، وہ طلباکی تعلیمی ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے، وہ چاہتے تھے کہ ہمارے طلبا تمام میدان میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کریں ،تاکہ انہیں میدان عمل میں کسی طرح کی پریشانیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
درمیان سال میں داخلہ لینے والے طلبا کے ساتھ بھی بڑی شفقت سے پیش آتے تھے اور داخلہ سے محروم نہیں کرتے تھے، وہ بچوں کے برباد ہونے سے ڈرتے تھے، اس لئے طلبا کے لیے مدرسہ عالیہ عرفانیہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے استاذاور مدرسہ عالیہ عرفانیہ کے سابق طالب علم مولانا ڈاکٹر عبیدالرحمٰن ندوی تحریر کرتے ہیں :
قاری صاحب کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے ہمیں چھ باتیں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں:
(۱) ان کا مقصد دین اور علم دین کی آبیاری تھا، یہی وجہ ہے کہ مدرسہ کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا، کسی بھی طالب علم کو مایوس واپس نہیں کرتے تھے کہ اگر اس کو داخلہ نہ ملے اور وہ اپنا راستہ بھٹک جائے تو وہ دینی تعلیم سے محروم رہ جائے گا۔
(۲) وہ بہتر استاذ تھے، وہ اپنے پیچھے سیکڑوں تلامذہ چھوڑ گئے، بقول شخصے: ’’ استاد بادشاہ نہیں ہوتا، لیکن بادشاہ پیدا کرتا ہے‘‘، ان کی شخصیت حدیث پاک’’ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘ کا مقصداق تھی۔
(۳) عدم تعصب کی صفت ان کی زندگی کی نمایاں خوبیوں میںتھی، وہ ہر طالب علم کےساتھ یکساں سلوک کرتے تھے، عصبیت نام کی کوئی چیز قاری صاحب کے اندر نہیں تھی۔
(۴) وہ ایک عظیم مربی تھے، انتظام وانصرام کی غیرمعمولی خوبیوں سے معمور تھے، مدرسہ کے مہتمم ہونے کے باوجود طلبہ کی نگرانی بھی کرتے تھے اور ایک مشفق والد کی مانند تھے۔
(۵) وہ محض ایک قاری نہیں تھے، بلکہ عصری تعلیم کے فروع کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ والد محترم کی یاد میں میپ ماڈرن پبلک ہائی اسکول (Map Modern Public High School) سکروری ہردوئی روڈ لکھنؤ میں لڑکوں اور لڑکیوں کی عصری تعلیم کے لیے قائم کیا۔
(۶)انہوں نے مدرسہ کی تعمیر وترقی کے لیے اپنی زندگی کو اوڑھنا بچھونا بنالیا تھا، طلبہ کی ترقی ہی میں اپنی زندگی کو ترقی سمجھتے تھے، وہ اکثر طلبہ کو یہ نصیحت کرتے تھے:
تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں جھولو
جائزہے غباروں پہ اڑو چرخ کو چھولو
یہ بات مگر بندۂ عاجز کی رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
(خادم قرآن قاری مشتاق احمدؒ ،تعمیرحیات،۱۰؍ دسمبر ۲۰۱۹، ص۳۲)
یکم دسمبر ۲۰۰۹ء کو میںدہلی سے رانچی گیا اور اسی دن روزنامہ راشٹریہ سہارا رانچی کو جوائن کیا تھا،۲۷؍مارچ ۲۰۱۰ءمطابق ۱۱؍ربیع الثانی ۱۴۳۱ھ کو معہدالفاروق ،فاروق نگر، پسکا نگری، ضلع رانچی کے جلسۂ دستاربندی کی قاری صاحب کوصدارت کرنی تھی۔ بردارعزیز مولانا ساجد ندوی (استاذ مدرسہ عالیہ عرفانیہ) کے توسط سے محترم قاری بدرالدجیٰ صاحب کو معلوم ہوا کہ میں رانچی میں مقیم ہوں، نکسل متاثرہ علاقہ ہونے کی وجہ سے رانچی آنے سے قبل انہوں نے مجھ سے رابطہ قائم کیا ، میں نے وہاں کے حالات سے واقف کرایا۔ جلسہ کے دن قاری صاحب اپنے رفقاء استاذ محترم قاری عمران احمد مونگیری مدظلہ، قاری بدرالدجیٰ صاحب دامت برکاتہم ودیگر لوگوں کے ساتھ رانچی پہنچ گئے۔ میں نےدفتری امور سے فارغ ہوکر قاری بدرالدجیٰ صاحب کو فون کیا ،تو انہوںنے بتایا کہ ہم لوگ رانچی پہنچ چکے ہیں اور ’’ہندوستان‘‘ ہوٹل میں قیام پذیر ہیں۔ میرے دفتر سے قریب ہی ہوٹل تھا، ظہر کی نماز ادا کرنے کے بعد فوراً ہوٹل پہنچا، مجھے دیکھ کر قاری صاحب بہت خوش ہوئے۔وہ کہنے لگے کہ میں سمجھ رہا تھا شمیم چھپروی ہو، چلو اچھا ہوا تم آگئے۔ پھر میرے چھوٹے بھائی ظفرسالک کے بارے میں دریافت کرنے لگے کہ وہ کہاں ہے،میںنے اس کےمتعلق تفصیل بتائی۔
جس مدرسہ کے جلسۂ دستار بندی میںشریک ہونے کے لیے قاری صاحب تشریف لائے ،اس مدرسہ کے مہتمم مولانا عمربن عبدالعزیز ندوی صاحب سےقاری صاحب بہت ناراض نظر آرہے تھے، ناراضگی وجہ یہ تھی کہ مدرسۂ مذکور کے منتظمین نے رانچی اسٹیشن سے قاری صاحب کو مدرسہ لے جانے کے بجائے ہوٹل میں ٹھہرا دیا تھا۔
مدرسہ کےمہتمم مولانا عمر بن عبدالعزیز ندوی صاحب کےہوٹل آنے کے بعدقاری صاحب ان پر برس پڑے، اب وہ جلسہ میں جانے کےلیے تیار ہی نہیں تھے، وہ کہنے لگے ،اب میں مدرسہ نہیں جائوں گا،یہیں سے کل لکھنؤ کے لیے روانہ ہوجائوں گا۔ مولانا عمر صاحب نے مجھ سے کہا کہ قاری صاحب کو آپ کہیں تو شایدمان جائیں۔ میں نے قاری صاحب سے کہا کہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا، عوام بڑی تعداد میں آپ کو دیکھنے اور سننے کے لیے جلسہ میں شریک ہورہےہیں، اس لئے کم سے کم عوام کے لیے آپ کوجلسہ میں ضرور شریک ہونا چاہئے۔ اس کے بعدقاری صاحب نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا:
’’ میں اس شرط پر جائوں گا کہ ساتھ میں تمہیں بھی چلنا ہوگا‘‘۔ میں چار وناچار جس حالت میں قاری صاحب کے پاس ملاقات کے لیے حاضر ہوا تھا، اسی حالت میں قاری صاحب کے ساتھ معہد الفاروق، فاروق نگر کے لیےبذریعہ کار روانہ ہوگیا،جو رانچی سے ۱۵؍کلو میٹر پر واقع ہے، وہاں پہنچنے کے بعد وہاں ذمہ داران ، اساتذہ ، طلبا اور عوام نے قاری صاحب کا زبردست استقبال کیا، جلسہ کی کارروائی شروع تھی، ہم لوگ سیدھے اسٹیج پر ہی پہنچ گئے۔ قاری صاحب کی صدارتی تقریر ہوئی،اس کے بعد جلسہ کا اختتام ہوگیا۔ دوسرے دن ناشتہ کے بعد ہم لوگ بذریعہ کارکلیۃ البنات لتربیۃ الاسلامیہ پڑہے پات، پوریو، رانچی گیا ۔ وہاںاستقبال کے لیے مولاناعبداللہ ندوی اور معروف عالم دین مولانا انیس الرحمٰن قاسمی (افسوس کہ اسی سال ۷؍ فروری۲۰۲۳ء بروز منگل کو طویل علالت کے بعد آپ کا انتقال ہوگیا)موجود تھے۔کلیۃ البنات میں استقبالیہ پروگرام رکھا گیا،کئی طالبات نے تقریریں پیش کیں، لیکن قاری صاحب نے بچیوںکوتقریر کرنے سے روک دیا۔ اس کے بعد مولانا کوثر ندوی ودیگرعلمائے کرام نے خطاب کیا۔ آخری تقریر قاری صاحب کی ہوئی، جس میں انہوں نےتعلیم کی افادیت پر روشنی ڈالی۔ میں حسب معمول پورے پروگرام کی رپوٹ تیار کرتا رہا۔ اس کے بعد دارالعلوم اسلام نگر جانا ہوا، مدرسہ کی مسجد میںبھی استقبالیہ پروگرام رکھا گیا، قاری صاحب مہمان خانہ میں ہی رہے، پروگرام میں شریک نہیں ہوئے، میں پروگرام میںشریک تھا، قاری صاحب نے مجھے وہاں سےبلوالیا،ٹرین کا وقت قریب تھا،اس لئے ہم لوگ جلد ہی وہاں سے رانچی اسٹیشن کے لیے روانہ ہوگئے۔ اسٹیشن پر جب پہنچا تو پہلے سے برادرم مولانا ابوعبیدہ ندوی دوپہر کا کھانا لے کر موجود تھے۔ ٹرین کی آمد تک ہم لوگ وہیں موجود رہے، کچھ دیر میںٹرین آئی، قاری صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ ٹرین میں سوار ہوئے اور لکھنؤ کے لیے روانہ ہوگئے۔ اس پورے سفر میں قاری صاحب نے میرا بہت خیال رکھا، بڑے وقیع الفاظ میں لوگوں سے میرا تعارف کراتے ۔
رانچی لوٹنے کے بعد قسط وار روزنامہ ’’راشٹریہ سہارا‘‘ رانچی اور پٹنہ میں قاری صاحب کی آمد سے لے کر جانے تک کی رپورٹ میں نے شائع کی، جسے قاری صاحب کو بھیج دیا گیا۔ رپورٹ ملنے کے بعد قاری صاحب بہت خوش ہوئے ،انہوں نے فون کیا اور ڈھیر ساری دعائوں سے نوازا۔
کسے معلوم تھا کہ اس فانی زندگی میں قاری صاحب سے آخری ملاقات ہوگی، کئی بار لکھنؤ کا پروگرام بنایا ،مگر ہجوم کار کی وجہ سے قاری صاحب کی خدمت میںحاضر نہیں ہوسکا،اب جب کہ قاری صاحب ایسی جگہ چلے گئے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہے۔جانے والے چلے گئے ،لیکن ان کی یادوں کے نقوش ہمیشہ باقی رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ حضرت قاری صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، ان کے چمن کو آباد رکھے اور قاری صاحب کے جانشیں برادر محترم قاری امتیاز احمد پرتاپ گڑھی مدظلہم کو صحت وعافیت کے ساتھ رکھے اور ان کے بقیہ کاموں کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
خخخ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں