اورنگ آباد میں 2روزہ تعلیمی کانفرنس 0

اورنگ آباد میں 2روزہ تعلیمی کانفرنس

مختلف ریاستوں حصوں سے آئے سکالروں نے اظہار خیال کیا

اورنگ آباد/ندائے کشمیر/خواجہ کوثر حیات

اورنگ آباد میں منعقد ہوئی دو روزہ ۱۳؍ویں آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس نے پورے ہندوستان میں تہلکہ مچا کے رکھ دیاہے۔ جس کی وجہ اس کانفرنس کے وہ موضوعات ہیں جن پر اس کے مختلف اجلاسوں میں ملک کے مختلف حصوں سے تشریف لائے اسکالرس نے اظہار ِ خیال کیا ہے۔ دوسری وجہ اس کانفرنس کے اعلیٰ سطحی انتظامات اور نظم و ضبط ہے اور تیسری وجہ جو سب سے زیادہ اہم ہے وہ ہے اہلیانِ اورنگ آباد کی اس کانفرنس کے اجلاسوں میں شرکت اور اس کانفرنس کی پذیرائی۔ ورنہ عام طور پر کانفرنس تو ہر شہرمیں مختلف قسم کی ہوتی رہتی ہیں باہر سے ڈیلی گیٹس آتے ہیں اور اس کانفرنس کی خبریں بھی شائع ہوتی ہیں لیکن مقامی افراد کااس کانفرنس سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ لیکن یہ ۱۳؍ویں آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس اس قسم کی کانفرنس سے بہت مختلف تھی۔ اورنگ آباد کے اردو مدارس کے اساتذہ اور تعلیمی میدان سے تعلق کھنے والوں نے اس میں شرکت تو کی ہی کی ہے۔ ان کے علاوہ ضلع اورنگ آباد اور اطراف کے اضلاع سے بھی اساتذہ کی بڑی تعداد نے اس کانفرنس میں شرکت کی۔مرہٹواڑہ کے دور دراز اضلاع اور تعلقوں سے بھی تعلیمی میدان میں دلچسپی رکھنے والے افراد اور تعلیمی میدان میں کام کرنے والی شخصیات کے علاوہ مسلم مسائل اور سرگرمیوں میں متحرک شخصیات نے بھی بڑی تعداد میں اس کانفرنس میں شرکت کی ہے۔ بعض حضرات اور صحافیوں کا خیال ہے کہ یہ کانفرنس تعلیمی میدان میں مسلمانوں کی پیش رفت کا آغاز سمجھی جارہی ہے۔ وہ اس لئے کہ اس کے شرکأ میں جہاں سنجیدہ، تعلیم یافتہ اور عملاً متحرک لوگ شامل تھے وہیں اس کے اسپیکرس میں انتہائی ذہین، عصری تعلیمی تبدیلیوں اور حالات حاضرہ سے خوب واقف اور غور و فکر کرنے والے دانشور تھے۔ جو قومی اور عالمی سطح پر تعلیمی تبدیلیوں کے نشیب و فراز پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ جنہیں یہ اچھی طرح پتا ہے کہ کس ملک میں کونسی تعلیمی تبدیلیاں ہورہی ہیںبدلتے عالمی حالات میں اب آگے کن علم و فنون کی ضرورت ہے۔ کس قسم کی اور کن میدانوں میں حاصل کی گئی تعلیم آنے والے وقتوں میں کارآمد یا ازکارِ رفتہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ان حالات میں آج مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں کس طرح اور کن میدانوں میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اور اپنے تعلیمی معمولات میں کیا تبدیلیاں لانا ضروری ہیں۔ا س کانفرنس میں ملک میں رائج ہورہے نئے تعلیمی نظام اور اسکے مضمرات و منفعیات پر بھی اظہارِ خیال اور غور و خوض ہُوا ہے کہ اس نظامِ تعلیم کے چلتے ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں کیا تبدیلیاں لانا چاہیئے۔ ہمارے اساتذہ کی ذمہ داریاں کس قدر بڑھ چکی ہیں۔ ہمارے سرپرستوں کے رویوں اور ذمہ داریوں میں کیا تبدیلیاں ہونی چاہیئے ۔ ہمارے طلبأ و طالبات اور پرائمری و پری پرائمری سطح پر بچوں پر کس طرح توجہ دی جائے ان تمام امور پر بہت گہرائی اور سنجیدگی سے غور و خوض پر مبنی یہ کانفرنس ایک نئے تعلیمی انقلاب کی نقیب سمجھی جارہی ہے۔ اس کانفرنس کا سب سے زیادہ چونکانے والا پہلو یہ ہے کہ اس میں تقریباً۹؍یونیورسیٹیوں کے سابق وائس چانسلرس تشریف لائے تھے جبکہ اس کانفرنس کے میزبان میں سب سے نمایاں نام ڈاکٹر فوزیہ خان کا ہے جو ایک نہایت سنجیدہ اور دیدہ وبینا رُکن پارلیمان (راجیہ سبھا) ہیں۔ یہ سابق میں ریاستِ مہاراشٹر کی مختلف وزارتوں پر فائز رہی ہیں جن میں وزارتِ تعلیم کا قلمدان بھی ان کی تحویل میں رہ چکا ہے۔ اسی کے ساتھ وہ مہاراشٹر میں نہایت فعال تعلیمی اداروں کے وفاق (فیم) کی بانی صدر اور سرپرست ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کی بھی سرپرست ہیں جس کی یہ ۱۳؍ویں کانفرنس تھی۔ اس ایجوکیشنل موومنٹ میں ایسے قابل افراد بھی شامل ہیں جو مرکزی حکومت میں سیکریٹری کی سطح پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ساتھ ہی ایسے علمأ بھی اس کا حصّہ ہیں جو عصری علوم و فنون اور عالمی زبانوں پر قدرت رکھتے ہیں۔ انہی سب عوامل کے پس منظر میں اس کانفرنس کو بڑی اُمیدوں اور توقعات کے ساتھ دیکھا جارہا ہے۔ آئیے اس کانفرنس کی تفصیلات پر روشنی ڈالتے ہیں۔

۱۳؍ویں کل ہند تعلیمی کانفرنس کا ۱۵؍اکتوبر کی شام اختتام عمل میں آیا۔اختتامی اجلاس میں محترمہ فوزیہ خان نے پی پی ٹی کے ذریعہ قراردادیں پیش کیں جِسے شرکأِ اجلاس نے اتفاقِ رائے سے منظور کیا۔ جن میں پری پرائمری کے بچوں کی ذہنی سطح سے مطابقت رکھنے والے نصاب کی تدوین کے ساتھ ان کی کتابوں کے بوجھ کو کم کیا جائے۔ بچوں کو صرف کتابی نا بنا یا جائے بلکہ ان کی ہمہ جہت تربیت پری پرائمری سطح ہی سے کی جائے۔ اس لئے کہ بچہ اپنی پیدائش کے دن سے ہی سیکھنا شروع کردیتا ہے۔ اس لئے اپنے طور طریقوں، اخلاق و گفتگو میں اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ بچہ آپ کو دیکھ کر سیکھ رہا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں سرپرستوں اور اساتذہ سے یہ بھی کہا کہ وہ بچوں کو عزت دیں او ر ان سے ذلت آمیز یا تحقیر آمیز روّیہ اختیار نہ کریں۔ نیز انہوں نے اساتذہ سے مطالبہ کیا کہ وہ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کی طرف بھی توجہ دیں۔ پرائمری اور سیکنڈری اسکول کے طلبأ کو غیر نصابی کتب پڑھنے کی ترغیب دیں، اسپورٹس میں ان کی توجہ اور دلچسپی کو بڑھائیں۔ عصری مدارس کے اساتذہ یا مدارس کے اساتذہ یا عصری تعلیم کے وہ ماہرین جو اپنی ملازمتوں سے سبکدوش ہوچکے ہیں، وہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں یا مدارس کو اپنا وقت بطورِ زکوٰۃ دیکر انھیں عصری تعلیم سے آراستہ کریں اور اسی طرح علمأ اور دین کا علم رکھنے والے اساتذہ اور سبکدوش حضرات عصری مدارس کے طلبأ کو دینی تعلیم سے بہرہ ور کریں۔ یہ وہ موضوعات ہیں جو پوری کانفرنس پر چھائے رہے۔ پہلے اجلاس ہی سے بچہ کی گود سے لیکر پرائمری لیول تک تربیت اورسیکھنے کی اس عمر کی رعایت سے اسے اخلاق، آداب، مثبت سوچ، بہتر تعلیم، تعلیم کی جانب رغبت جیسے معاملات زیرِ بحث رہے ہیں۔ پری پرائمری سطح پر بچوں میں اعلیٰ نصب العین کے لئے جدوجہد ان کی ذہنی و فکری تیاری پر تمام ہی قابل مقررین نے زور دیا۔
محترمہ فوزیہ خان نے ہائر ایجوکیشن میں تعلیم کے ساتھ اسپورٹس اورٹیچر ٹریننگ پر بھی زور دیا۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیم میں ٹیکنالوجی کے استعمال کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ اکرم الجبار خان (سابق انکم ٹیکس کمشنر) نے ایک قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا سب سے بڑا سرمایہ اوقاف ہے۔ اس کو صحیح طریقے سے غربت کے خاتمہ اور تعلیم کے فروغ کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اختتامی اجلاس میں آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کے صدر خواجہ شاہد نے کہا کہ ہمیں پلان آف ایکشن بنانا ہوگا ،کام بہت ہیں انھیں ترجیحی بنیادوں پر ہم کس طرح انجام دیں اسکی منصوبہ بندی ضروری ہے۔ ہمیں ان میں انفرادی اور اجتماعی کاموں کی تقسیم کرنی ہوگی۔ نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہوگا۔ نالج اور اسکل کو پڑھانا ہوگا۔آخری اجلاس میں محترمہ فوزیہ خان اور خواجہ شاہد نے نام بنام تمام مقررین، مہمانان اور کانفرنس کے انتظامات میں متحرک رہنے والے تمام خواتین و حضرات کا شکریہ ادا کیا۔ ۱۵؍اکتوبر کے روز بشمول اختتامی اجلاس مولانا آزاد ریسرچ سینٹر میں ۹؍ اجلاس ہوئے جبکہ مولانا آزاد کالج ڈاکٹر رفیق زکریا کیمپس میں ۱؍اجلاس اور ڈاکٹر رفیق زکریا کالج فار ویمن میں ۲؍اجلاس منعقد ہوئے۔ جبکہ ۱۴؍اکتوبر کو تاپڑیہ ناٹیہ مندر میں افتتاحی اور پہلا اجلاس ہُوا۔ اس کے متوازی مولانا آزاد ریسرچ منعقد ہُوا۔سرسید کالج میں ۱۴؍اکتوبر کو ایک متوازی اجلاس اور مولانا آزاد ریسرچ سینٹر میں تین طویل اجلاس ہوئے۔ اس طرح ان دو دنوں میں کل ۱۵؍اجلاس منعقد ہوئے ان اجلاسوں میں ملک اور ریاست کے مختلف حصوں سے تشریف لائے مندوبین نے شرکت کی۔ جبکہ مختلف تعلیمی اداروں میں اس کانفرنس سے استفادہ کرنے والے طلبأ اساتذہ کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔مولانا آزاد کالج میں منعقدہ متوازی اجلاس میں روزنامہ اورنگ آباد ٹائمز کے مینجنگ ایڈیٹر شکیب خسرو، سعد صدیقی وغیرہ نے اظہارِ خیال کیاجبکہ اس کی صدارت ڈاکٹر باری نے کی، نوکھنڈہ میں ڈاکٹر مخدوم فاروقی نے کی اور دوسرا اجلاس شاذیہ نہری کی صدارت میں منعقدہُوا۔ سرسید کالج میں ڈاکٹر شمامہ کی صدارت میں متوازی اجلاس انعقاد پذیر ہُوا۔ اس تعلیمی کانفرنس نے صرف مہاراشٹر ہی نہیں پورے ملک میں ایک ہلچل پیدا کردی ہے کہ تعلیم کے معاملے میں اتنے بڑے پیمانے پر کانفرنس کا انعقاد اس میں ملک کے طول و ارض سے تعلیمی ماہرین کی مختلف یونیورسیٹوں اور تعلیمی اداروں سے آمد۔ دانشوروں اور علمائے ملک و ملت کی اس میں بلا لحاظ مذہب و ملت شرکت نے سب ہی کو دنگ کردیا ہے۔ ڈاکٹر بدرالاسلام نے اپنی مخاطبت میں کوالیٹی ایجوکیشن کے ساتھ ۵؍لاکھ سے زائد اساتذہ کی جائیدادیں پُر کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ محمود صدیقی نے کہا کہ ہم زندہ قوم ہیں ہمیں اسی طرح زندہ رہنا چاہیئے۔ ہر بچہ کے اندر صلاحتیں ہوتی ہے اسے پروان چڑھایں۔ اساتذہ طلبأ کا استقبال گرمجوشی سے کریں والدین سے زیادہ ان سے محبت کریں۔ ڈاکٹر شاہد نے مصنوعی ذہانت سے متعلق کہا کہ تعلیمی میدان میں اس سے بہت زیادہ فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ہم اپنے طلبأ کو ایسا علم دیں جو اسے ۲۵؍سال بعد کام آئے۔ مصنوعی ذہانت سے نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں اس میں جس طرح کا ڈیٹا فیڈ کیا جائے گا۔ وہی ہمارے لئے ظاہر کرتا ہے۔ عبدالسبحان نے کہا کہ پہلے تعلیم کے مواقع زیادہ نہیں تھے لیکن آج کے دور میں مسابقتی امتحان کے ذریعہ کسی بھی میدان میں قسمت آزمائی جاسکتی ہے۔ مسابقتی امتحان کے لئے اسکول کی تعلیم کے دور سے ہی تیاری شروع کردیں۔ ڈاکٹر رضی احمد نے قوی مومن کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مراد تعلیم یافتہ مسلمان ہے۔ ہم کم از کم آئندہ نسلوں کے لئے ایسا کام کرجائیں کہ وہ ہمیں نہ کوسیں۔ فہد رحمانی نے اپنی ہر مغز اور جامع تقریر میں کہا کہ ہم اپنے بچوں پر کام کریں اور ان کو مکمل وقت دیں اگر سرپرست اور اساتذہ طلبأ پر محنت نہیں کریں گے تو باہر سے کوئی مدد نہیں آنے والی مفتی شوکت نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اورنگ آباد میں ہمدرد کی شاخ شروع کرنے کا اعلان مفتی اطہر شمسی نے قرآن کی تعلیم کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ قرآن تمام مقاصد کو پورا کرنا ہے مفتی عمر عابدین سورۃ اقرأ تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ اسلام ایسے نظام تعلیم کو دعوت دیتا ہے جو خالق اور مخلوق دونوں کو مد نظر رکھتا ہے۔ اسلام جہالت ، غلط عقائد کو ختم کرتا ہے۔ تمام علوم قدیم زمانہ میں مسجدوں میں سکھائے جاتے تھے۔ عصری اور دینی تفریق نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا اسکول و کالج میں دینی علوم کا نظام شروع کرنا چاہیئے۔ باعمل مسلمان کے ساتھ باشعور مسلمان بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
مجتبیٰ فاروق نے کہا کہ آپ تقلید نہ کریں بلکہ ریسرچ کریں ہم آج کے دور میں زوال پذیر ہوگئے ہیں کمزوری کالج و مدرسوں میں ہر جگہ ہے کمزوریوں پر نکتہ چینی کے بجائے اس کو دور کرنے اور اصلاح کرنے کی فکر کریں۔ جب تک ہم فائق نہیں ہونگے خیرامت کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔یہ عظیم کانفرنس محترمہ ڈاکٹر فوزیہ خان کی سرپرستی میں منعقد ہوئی جس میں معروف صحافی و رُکن پارلیمان کمارکیتکر(ممبئی)، جے این یو کے سابق وائس چانسلر امیتابھ کنڈو(دہلی)، آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کے صدر خواجہ شاہد(دہلی) ، اورنگ آباد کے رُکنِ پارلیمان امتیاز جلیل، عامر ادریسی، عبدالرشید جنرل سیکریٹری آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ دہلی، منیر دیشمکھ اورنگ آباد، ڈاکٹر مہر الدین، عبدلکریم سالار(جلگاؤں)، مستجیب خان، ایس این پٹھان(ناگپور)، اے جی خان( اورنگ آباد)، ٹی وی کٹّامنی، وسیم خان(راجستھان)، الیاس سیفی، صلاح الدین پونے کر ،اظہر حسین سابق وزیرِ تعلیم مہاراشٹر، عبدالرزاق، رئیس احمد، اے کیو انصاری (دہلی)، ایس ایم اے نہری(ناگپور)، افشار عالم( دہلی)، شارق نقشبندی، ایڈوکیٹ اسلم احمد، رضی احمد( آسام) نورنواز دہلی، منصور آغا (دہلی)، مقصود احمد خان( ممبئی)، عبید اقبال عاصم (علی گڑھ) مولانا محفوظ الرحمن فاروقی، سکندر اصلاحی(لکھنو)، اویس عرب (بھوپال) رئیس خان (ممبئی) نسیم قریشی (جے پور) ڈاکٹر شہریار (کولکاتا) عبدالواحد(لکھنو) اشتیاق علی (ممبئی)آصف فاروقی (ممبئی) نایاب انصاری، اعظم بیگ (راجستھان) قاضی محمد میاں (دہلی) ڈاکٹر فضل غفور (کیرالہ) سید ظفر محمود (دہلی) طارق اعظم (ملیشیائ) شمیم طارق (ممبئی) سعید احمد (پونے) نصرالدین (کولکاتا) عبدالرشید مدنی نے کانفرنس میں اظہارِ خیال کیا۔پہلے دن تمام اجلاسوں کے اختتام پر مشاعرہ منعقد ہُوا اور دوسرے دن کانفرنس کے اختتام پر ڈاکٹر دوست محمد خان کی غزلوں کا پروگرام منعقد ہُوا۔ اجلاس میں آئے تمام مندوبین نے اپنی بے پناہ خوشی کا اظہار کیا۔ اس کانفرنس کی کامیابی میں محترمہ فوزیہ خان، تحسین احمد خان، خالد سیف الدین،ڈاکٹر مخدوم فاروقی،ڈاکٹر شمامہ پروین، ڈاکٹر ایم اے باری ،ابوبکر رہبر،ڈاکٹر سلیم محی الدین، محمد وصیل، شیخ ظہور خالد اورڈاکٹر سہیل ذکی الدین و خان جمیل احمد ،ڈاکٹر شرف الدین کے علاوہ فیم ،وارثانِ حرف و قلم ، بزمِ خواتین، مسلم گریجویٹس فورم، اورنگ آباد ڈرامہ اکیڈمی کی ٹیموں کا اہم کردار رہا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں