سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد
برف باری رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ رات کے تقریباً 2 بج چکے تھے۔ برف کی چادر نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا ۔ برف کی چمک سے رات کا اندھیرا تقریباً تقریباً ذائل ہو چکا تھا۔ روشنی شیشوں، اور پردوں کو چیرتی ہوئی کمرے میں داخل ہو چکی تھی۔ برف باری اس قدر شدید ہو رہی تھی کی سفیدوں کے ٹوٹنے کی آواز صاف سنائی دیتی تھی۔ درخت ٹوٹنے سے پرندوں کے گھونسلے بھی مسمار ہو رہے تھے اور پرندوں نے ہڑکم مچا رکھی تھی۔سب لوگ گہری نیند میں تھے کہ اچانک سے سرمد کے کراہنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ سرمد زور زور سے وائے خدایو۔۔وائے خدایو۔۔ ہتے موجے مودسے۔۔
ہتے موجے مودسے۔۔۔۔۔۔ سرمد کے زور زور سے کراہنے کی آواز نے نہ صرف رونق کو بلکہ حافظ اور سدرہ کو بھی جگا دیا۔ تینوں اٹھ کر سرمد کے ارد گرد بیٹھ گئے اور سب رو رہے تھے ۔اب پچھلے تقریباً ایک سال سے سرمد اسی مصیبت میں تھا۔ وادی کا شاید ہی کوئی ہسپتال ہو ۔شاید ہی کوئی پیر فقیر ہو جہاں سرمد علاج کے لئے نہ گیا ہو ۔ لیکن سب بے سود۔ دونوں ٹانگوں میں اس قدر سوجن ہوگی تھی کہ اب اٹھنا تو دور ٹھیک طرح سے بیٹھنا اور بیت الخلا جانا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ زندگی بوجھ بن گئی تھی ۔دونوں ٹانگوں سے رس ٹپک رہا تھا ۔ کچھ کرو۔کسی کو بلاؤ رونق ۔ آج مر جاؤں گا۔ نہیں سرمد تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔
۔۔۔ لیکن اس وقت کس کو بلاؤں ۔ باہر برف باری ہو رہی ہے۔ سڑک مکمل بند ہے۔
میڈیکل والے ندیم کو بلاؤ ۔ pain killer دے گا تھوڑا سا رلیف ملے گا۔۔۔۔ سدرہ اور حافظ فقط اپنے والد کی ٹانگوں کی طرف دیکھ رہے تھے اور آنسوں بہائے جا رہے تھے۔ سرمد دراصل اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ جسے اپنے ماں باپ نے بڑے پیار سے پالا۔ خاندان میں پہلا لڑکا تھا اس لئے سب کا پیار ملا۔ باپ دن بھر ریڑی پر مصالہ بیچتا تھا۔ لیکن بیٹے کو کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ پڑھایا لکھایا۔ گریجویشن کے بعد سرمد کو فوج میں نوکری ملی۔ پورے گاؤں نے اس دن جشن منایا ۔ اور سب لوگ فاطہ اور خدابخش کو مبارکبادی دینے گئے ۔ سب لوگ بس یہی کہہ رہے تھے کہ اب آپ کو مصیبت سے چھٹکارہ ملنے والا ہے ۔ اب سمجھو تمہارے اچھے دن آنے والے ہیں ۔ ابھی ملازمت کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا کہ خدا بخش نے سرمد کی شادی رونق نام کی ایک حسین و جمیل لڑکی سے کر دی۔رونق کے چہرے پر خوبصورتی کی رونق ضرور تھی۔ لیکن رونق کا دل الٹے توے جیسا تھا۔ وہ شادی کے فوراً بعد سرمد کو اپنے بوڑھے والدین سے الگ کرنے کے لیے طرح طرح کی ترکیبیں کرنے لگی۔ ۔ پہلے پہلے سرمد اس کی باتیں ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ بیوی جب بھی ماں باپ کے خلاف کچھ کہتی تھی ۔ سرمد آگ بگولہ ہوتا تھا۔ ہر روز گھر میں شوروغل ہوتا تھا۔ لیکن رونق نے بھی لوہے پر ہتھوڑا مارنا نہیں چھوڑا ۔ وہ بار بار کہتی رہی ۔ وہ اپنے مقصد میں تب کامیاب ہوئی جب سرمد کا تبادلہ کرگل کر دیا گیا۔ سرمد رونق اور اپنے دونوں بچوں کو ساتھ لے گیا۔ ماں باپ نے پُر نم آنکھوں سے سرمد کو الوداع کیا۔ کرگل میں رونق کو زیادہ ہی موقع ملا۔ اور اس نے سرمد کے کانوں میں اس کے والدین کے خلاف زہر بھر دیا اور اس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئی ۔کرگل سے واپس آنے کے بعد سرمد اپنے والدین سے خفا خفا سا رہنے لگا۔ اور اپنی بیوی کی باتوں پر یقین کرنے لگا۔ کرگل سے چھٹی پر آنے کے فورا بعد سرمد اپنے والدین سے الگ ہو گیا۔ الگ کیا ہوا۔ ان سے بات کرنا بھی چھوڑ دیا۔ چند دنوں بعد ماں باپ سے اجازت لئے بغیر ہی واپس ڈیوٹی پر چلا گیا۔ اب کی بار بیوی بچوں کو ساتھ نہیں لیا۔ کیونکہ کرگل میں حالات کافی خراب تھے۔ آئے دن جوانوں کے شہید ہونے کی خبریں موصول ہورہی تھیں ۔ سرمد دوسری بار چھٹی پر آیا تو سیدھے اپنی بیوی کے پاس گیا۔ماں باپ کو دیکھ کر انہیں سلام تک نہیں کیا۔کیونکہ فون پر رونق نے سرمد کے کان زہر سے بھر دیئے تھے۔ماں بار بار بیٹے کے پاس جاتی رہی ۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ اس کا بیٹا زندہ ہے ۔کیونکہ کسی نے کہا تھا کہ کرگل میں جنگ چل رہی ہے۔ اور بہت سارے سپاہی مارے گئے ہیں۔ دوپہر کا وقت تھا ۔ماں سرمد کے پاس گئی لیکن جب سرمد نے ماں سے بات ہی نہیں کی تو ماں کا جگر چھلنی ہوگیا۔ وہ مایوس ہوکر وہاں سے نکل گئی۔ اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ سرمد اس قدر بدل گیا ہے۔ رونق یہ منظر دیکھ کر من ہی من میں مسکرانے لگی۔ اسے لگا کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی۔ سرمد اب بوڑھے باپ کی بھی نہ ہی مدد کرتا تھا اور نہ ہی ٹھیک طرح سے بات ۔ خدا بخش کو یہ غم اندر سے کھائے جا رہا تھا کہ وہ دو جوان بیٹیوں کی شادی کیسے کرے گا۔ کیونکہ اب صحت نے بھی جواب دے دیا تھا۔ ریڑھی پر مصالہ بیچنے کی اب ہمت نہیں تھی۔ اور سرمد نے بھی منہ پھیر لیا تھا۔ ماں ابھی سرمد کے روئیے سے پریشان ہی تھی کہ سرمد نے موٹر سائیکل کی چابی لی ۔اور ماں کے سامنے سے بنا کچھ کہے نکل گیا ۔ ابھی دس منٹ بھی نہیں ہوئے تھے۔ کہ باہر شوروغل ہوا ۔ سب لوگ سڑک کی جانب دوڑنے لگے۔ ہر طرف سے چیخ و پکار ہونے لگی۔ سرمد کی ماں کا دل بیٹھا جارہا تھا۔ وہ بھی سڑک کی جانب دوڑی۔ اور اس کی کمر ٹوٹ گئی جب پتہ چلا کہ سرمد کا ایکسیڈنٹ ہو گیا اور اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں تب سے اب تک سرمد اور اس کی بیوی ہسپتالوں کے چکر کاٹ رہے تھے اب تقریباً دس مہینے ہو چکے تھے۔ برفباری کی وجہ سے پچھلے ہفتے بھی ہسپتال جانا ممکن نہيں ہوا تھا اور دوا بھی ختم ہو چکی تھی اس لئے درد میں شدت آئی۔ جیسے تیسے کر کے رات گزری۔ دونوں ٹانگوں سے رس نکلا اور تھوڑی تفاوت ہوئی۔ صبح سرمد نے اپنے بچپن کے دوست یاسر کو فون کر کے بلایا۔ یاسر پاس میں ہی رہتا تھا لیکن بہت زیادہ برف گری تھی اس لئے سرمد کے گھر پہنچنے میں اسے دو گھنٹے لگے۔ جوں ہی اندر آیا۔ سرمد کی ٹانگیں دیکھ کر وہ سکتے میں آگیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اسے دیکھ کر سرمد کی بیوی اور بچے بھی زور زور سے رونے لگے۔ ہاں سرمد ڈاکٹر نے کیا کہا۔ میرے دوست ڈاکٹر نے کہا کہ دونوں ٹانگوں کو گھٹنے تک ۔۔۔۔
یہ کہنا تھا کہ یاسر پھر سے رونے لگا۔ حافظ اور سدرہ بھی یاسر کے گلے لگ کر رونے لگے۔ یاسر انکل ہمارے بابا کو بچاؤ۔ ہمارا بابا مر جائے گا۔۔۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی مرنے والا نہیں بلکہ مر گیا ہو۔
یاسر اپنے آنسوں چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے دوست سرمد سے کہنے لگا ۔
یار کسی پیر فقیر کے پاس اگر جاتے۔
میرے دوست یاسر کون سا پیر فقیر ہے جس کے پاس ہم نہ گئے ہوں ۔ جہاں ہم نے منت سماجت نہ کی ہو۔ ۔ ہاں ہاں سرمد ہے ایک پیر جسے آپ نے بالکل نظر انداز کیا ہے۔
کون ہے میرے دوست نام بتاؤ میں اس کے پاؤں پڑ جاؤں گا۔ لیکن اب میں اس مصیبت میں اور نہیں رہنا چاہتا۔ سرمد نے ایک لمبی سانس لے اور بلا جھجھک کہہ دیا ۔۔۔۔۔
تماری ماں اور تمہارا باپ۔۔۔۔۔ یہ کہنا تھا کہ پورے کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ یاسر ۔۔۔ بھابھی سانپ کیوں سونگھ گیا ۔ جب تک اپنے بزرگ ماں باپ سے معافی نہیں مانگو گے تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا۔ تمہاری ماں روز تمہارے بارے میں پوچھتی ہے۔ اور روز کہتی ہے کہ سرمد مجھ سے بات نہیں کرتا ۔ سرمد تم اپنے والدین کا سہارا تھے لیکن بیوی کی باتوں بلکہ جھوٹی باتوں میں آکر تم نے انہیں کافی تکلیف پہنچائی ہے۔ بھابھی مجھے معاف کرنا۔ میرے دوست کی زندگی کا سوال ہے۔ اگر تم اب بھی باز نہیں آئی تو سرمد کی دونوں ٹانگیں کاٹنی پڑیں گی۔ رونق نے ندامت سے سر جھکایا اور یاسر سے کہنے لگی۔ ہاں تم سچ کہہ رہے ہو۔ ہائے افسوس میری عقل کو کیا ہوگیا۔ میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں کسی طرح سے ابو اور امی کو مناؤ۔ اگر وہ دعا کریں گے تو شاید سرمد ٹھیک ہوجائے گا ۔ فیصلہ یہی ہوا کے ماں کے گھر جاکر اس سے معافی مانگیں گے ۔ سرمد کو ایک طرف سے رونق نے اور ایک طرف سے یاسر نے اپنے کاندھوں کے سہارے اٹھایا اور ماں کے پاس لے گئے۔ فاطہ نے جوں ہی اپنے بیٹے کو اس حالت میں دیکھا۔ وہ زور زور سے رونے لگے اور سینہ کوبی کرنے لگی۔ سرمد روتے ہوئے ماں سے کہنے لگا۔ ماں میں دنیا کا کم عقل انسان ہوں۔ میں نے تمہارا اور ابو کا دل دکھایا ۔ مجھے معاف کر دو ماں۔ میرے لیے دعا کرو۔ ورنہ تمہارا یہ بیٹا ٹانگوں کے بغیر رہ جائے گا اور یہ دونوں معصوم بچے۔۔۔۔ یہ کہنا تھا کہ فاطہ کی جیسے جان ہی نکل گئی ۔ نہیں بیٹا نہیں تمہیں میری عمر لگ جائے ۔ میں تم سے بالکل بھی ناراض نہیں ہوں۔ میں کل ڈاکٹر کے پاس تمہارے ساتھ آؤں گی ۔میں ڈاکٹر کے پاؤں پکڑوں گی۔ اس کے بعد پورے گھر میں رقعت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔ سب رونے لگے۔ خیر دو دن بعد سرمد رونق اور ان کی ماں ڈاکٹر کے پاس گئے۔ ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں داخل ہوتے ہیں سرمد کی ماں نے سر سے ڈپٹہ اتار کر ڈاکٹر کے قدموں میں رکھ دیا۔ ڈاکٹر صاحب میرے بیٹے کا علاج کیجئے ۔ جتنی رقم لگے گئی میں ادا کروں گئی۔ ماں جی کیا کررہی ہیں آپ ۔مجھے گناہ گار مت کیجئے ہم کچھ نہیں کر سکتے ہیں ۔ جتنا دیر کرو گے اتنا ہی نقصان ہوجائے گا۔ اس کی داہنی ٹانگ کا ایک تہائی حصہ تقریباً خراب ہو چکا ہے۔ اگر ایک مہینے تک سرجری نہیں ہوئی تو اس کا بچنا محال ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی باتیں سن کر ماں کی جیسے جان ہی نگل گئی۔ بجھے ہوئے قدموں سے کمرے سے واپس نکلنے ہی والی تھی کی ڈاکٹر نوید ڈاکٹر سرفراز سے کہنے لگے۔
سر سنیچر کو اسٹریلیا سے ڈاکٹر wilsen آرہے ہیں کیا یہ کیس ہم ان سے ڈسکس کر سکتے ہیں ہو سکتاہے ان کے پاس کوئی نیا پروسیجر ہو۔ اور کوئی حل نکل آئے۔ ہاں ٹھیک ہے ان کو سنیچر کی ڈیٹ دے دو۔ ڈاکٹر نوید نے سرمد اور اس کی ماں کو واپس بلایا۔ سرمد کی فائل پر کچھ لکھتے ہوئے کہا۔ ماں جی سنیچر کو پھر آنا۔ باہر سے ایک ڈاکٹر آنے والے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کوئی حل نکل آئے ۔ فاطہ کی جیسے جان میں جان آگئی۔سنيچر کو پھر رونق سرمد اور فاطہ ہسپتال پہنچ گئے۔ دوپہر کےدو بجے باری آئی۔ تو ڈاکٹر Wilson نے تمام ڈاکٹر کو بلایا ۔ کافی بحث کے بعد اس نے یہ اقرار کیا کہ وہ کل سرمد کا آپریشن کریں گے۔ اور انہیں پورا یقین ہے کہ ٹانگیں کاٹنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ چند منٹوں بعد سرمد کو تھیٹر بلایا گیا ۔ پُر نم آنکھوں سے ماں سے رخصت لی۔ ماں میں آپ کا گنہگار ہوں ۔ ہوسکتا ہے یہ ہماری آخری ملاقات ہو۔ مجھے معاف کر دینا۔ میری یہ دنیا تو اجڑ ہی گئی لیکن آخرت میں مجھے رسوا نہ کرنا۔ رونق نے بھی ماں کے پاؤں پکڑ لئے۔ ماں یہ سب میری وجہ سے ہوا۔ میں آپ دونوں کی گنہگار ہوں ۔ تینوں ایک دوسرے سے لپٹ گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ ہسپتال میں سب لوگ یہ منظر دیکھ کر رونے لگے۔ تھیٹر جانے کے بعد رونق اور ماں دروازے پر رو رو کر اللہ سے سرمد کی زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے ۔ دونوں بے بس اور لاچار ہو کر اللہ کی رحمت کا انتظار کر رہی تھیں ۔پورے تین گھنٹے بعد ڈاکٹر صاحب باہر نکلے۔ اور فاطہ اور رونق کو مبارکباد دی کہ سرمد کا آپریشن کامیاب ہوا ہے۔ اب ٹانگیں کاٹنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ سننا تھا کہ ماں اور فاطہ کی جیسے زندگی لوٹ آئی ۔اتنے میں ڈاکٹر نوید بھی باہر نکلا۔ فاطہ کی آنکھوں سے آنسوں پونچھتے ہوئے کہا۔ کیا کیا آپ لوگوں نے ماں۔ یہ تو کرشمہ ہو گیا۔ ہم نے ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔ رونق نے دھیمی آواز میں ڈاکٹر نوید سے کہا۔ ہم نے اپنے ناراض رب کو منا لیا ہے۔ بس۔۔۔۔