افسانچے 0

افسانچے

ڈاکٹر نذیر مشتاق

ایکسٹرا۔۔Extra

ننھا منا چھ سالہ عادل اپنے ضعیف و لاغر اور تنہائی میں زندگی بسر کرنے والے دادا کے ساتھ وقت گزارتا کیونکہ سکول بند تھا۔۔۔وہ اپنے دادا کا اکلوتا سہارا تھا وہی اس کے لئے کھانا چاے پانی لے اتا اور اسی کے پاس بیٹھا رہتا اس کے ماں باپ کبھی کبھار ہی اس کمرے کی طرف اتے ۔۔۔۔بہو کہتی کہ بوڑھے کے جسم سے ایک عجیب قسم کی بدبو آتی ہے جو پورے کمرے میں پھیلتی ہے اور اس بدبو سے اس کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اس نے شوہر کو بھی منع کر رکھا تھا کہ وہ بوڑھے کے کمرے میں نہ جایا کرے۔مگر ننھے عادل کے سامنے اس کی ایک بھی نہیں چلتی تھی وہ اپنا زیادہ تر وقت دادا کے کمرے میں ہی گزارتا۔۔۔۔ ننھے عادل کا دادو اونگھنے لگا تو وہ اپنے ماں باپ کے پاس آیا وہ دونوں صوفے پر بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔اچانک اسکرین پر ایک شخص کو دکھایا گیا جو آج ہی فوت ہوا تھا
او سو سیڑ گریٹ ایکٹر۔۔۔۔۔۔ عادل کے باپ نے کہا۔۔۔۔
یہ کس فلم میں ہیرو تھا۔۔۔۔بیوی نے پوچھا ۔۔۔۔۔۔عادل ماں کی گود میں بیٹھا سب کچھ سن رہا تھا۔۔۔۔۔وہ فلموں میں ایکسٹرا کا کام کرتا تھا۔۔۔۔۔۔شوہر نے جواب دیا۔۔۔۔
ایکسٹرا بولے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیوی نے کباب کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔ شوہر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ۔ایکسٹرا کسی فلم میں افسانچہ۔۔۔۔۔۔ ایکسٹرا۔۔۔۔۔۔Extra…
ننھا منا چھ سالہ عادل اپنے ضعیف و لاغر اور تنہائی میں زندگی بسر کرنے والے دادا کے ساتھ وقت گزارتا کیونکہ سکول بند تھا۔۔۔وہ اپنے دادا کا اکلوتا سہارا تھا وہی اس کے لئے کھانا چاے پانی لے اتا اور اسی کے پاس بیٹھا رہتا اس کے ماں باپ کبھی کبھار ہی اس کمرے کی طرف اتے ۔۔۔۔بہو کہتی کہ بوڑھے کے جسم سے ایک عجیب قسم کی بدبو آتی ہے جو پورے کمرے میں پھیلتی ہے اور اس بدبو سے اس کی طبیعت خراب ہو جاتی ہے اس نے شوہر کو بھی منع کر رکھا تھا کہ وہ بوڑھے کے کمرے میں نہ جایا کرے۔مگر ننھے عادل کے سامنے اس کی ایک بھی نہیں چلتی تھی وہ اپنا زیادہ تر وقت دادا کے کمرے میں ہی گزارتا۔۔۔۔ ننھے عادل کا دادو اونگھنے لگا تو وہ اپنے ماں باپ کے پاس آیا وہ دونوں صوفے پر بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔اچانک اسکرین پر ایک شخص کو دکھایا گیا جو آج ہی فوت ہوا تھا۔
او سو سیڑ گریٹ ایکٹر۔۔۔۔۔۔ عادل کے باپ نے کہا۔۔۔۔
یہ کس فلم میں ہیرو تھا۔۔۔۔بیوی نے پوچھا۔۔ عادل ماں کی گود میں بیٹھا سب کچھ سن رہا تھا۔۔۔۔۔وہ فلموں میں ایکسٹرا کا کام کرتا تھا۔۔۔۔۔۔شوہر نے جواب دیا۔۔۔۔۔
ایکسٹرا بولے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیوی نے کباب کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔۔۔۔ شوہر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا کہ ۔ایکسٹرا کسی فلم میں معمولی رول ادا کرتا ہے جیسے کوی اندھا سڑک کراس کر رہا ہو یا کسی سین میں بھیک مانگ رہا ہو ۔۔یا جیسے کوی شخص بوٹ پالش کر رہا ہو۔یا کوی شخص اکیلا بیٹھا کچھ سوچ رہا ہو یا۔۔۔۔اور کسی معمولی رول میں جیسے کہ ۔۔۔جیسے کہ۔۔ مثال کے طور پر۔۔۔جیسے کہ۔۔۔
وہ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ ننھے عادل نے ماں کا گال دایں ھاتھ سے چھوتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ جیسے کہ میرے دادو ۔۔۔۔ رول ادا کرتا ہے جیسے کوی اندھا سڑک کراس کر رہا ہو یا کسی سین میں بھیک مانگ رہا ہو ۔۔یا جیسے کوی شخص بوٹ پالش کر رہا ہو۔یا کوی شخص اکیلا بیٹھا کچھ سوچ رہا ہو یا۔۔۔۔اور کسی معمولی رول میں جیسے کہ ۔۔۔جیسے کہ۔۔ مثال کے طور پر۔۔۔جیسے کہ۔۔۔
وہ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ ننھے عادل نے ماں کا گال دایں ھاتھ سے چھوتے ہوئے کہا۔۔۔۔ جیسے کہ میرے دادو ۔۔۔۔۔

بلا عنوان

وہ ضعیف لاغر بوڑھا سڑک کے کنارے بھیگ مانگ رہا تھا۔ اچانک اسے سخت سردی محسوس ہوئی اس نے اپنے آپ کو پھٹے پرانے شیٹ میں لپیٹ لیا۔۔۔مگر سردی کا زور زیادہ تھا اس لیے وہ تھرتھرانے لگا۔۔۔۔وہ سوچنے لگا کہ اس کا آخری وقت آگیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اچانک وہاں سے ایک خوبصورت انگریز عورت گزری اس نے بوڑھے میاں کو سردی سے کانپتے ہوئے دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا۔وہ بوڑھے کے بالکل قریب بیٹھ گئی اور اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر رگڑنے لگی پھر اس کے سر کو سہلانے لگی۔۔بوڑھے نے اسے دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں۔۔۔۔عورت اسے باڈی مساج دیتی رہی ۔تھوڑی دیر کے بعد بوڑھے نے اپنے بدن میں عجیب سی حرارت محسوس کی اور وہ سنبھل کر التی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور عورت کو محبت اور مسرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔عورت سمجھ گئی کہ اس کے بدن کی حرارت سے بوڑھے کی جان میں جان اچکی ہے اس لیے وہ کھڑی ہوگئی اور ایک اچھی خاصی رقم بوڑھے کے ہاتھ میں تھما کر اس سے کہا۔۔۔۔او کے ڈیر اولڈ مین۔۔۔ٹیک کیر۔۔۔۔اور چلی گئی ۔۔ ۔ ۔ ۔ بوڑھے نے روپے جیب میں رکھ لیے اور بازار کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔
چند دن اس نے خوب عیش کیے۔۔۔۔اور اپنی مخصوص جگہ پر آکے پھر سے بھیک مانگنے لگا۔۔ اب اس نے انگریز عورت کی دی ہوئی رقم سے اونی فرن اور سویٹر بھی خرید لیا تھا اس لیے اسے سردی کا احساس نہیں ہورہا تھا۔۔۔۔
دو دن بعد وہ اسی جگہ بیٹھا بھیک مانگ رہا تھا کہ اچانک اس نے اسی انگریز عورت کو آتے دیکھا اس نے جھٹ سے فرن اور سویٹر کو گول مول کرکے تکیہ جیسا بناکر سر کے نیچے رکھااور ایک قمیض شلوار میں ملبوس سڑک پر لیٹ کر تھر تھرا نے لگا۔۔۔۔۔

کلایمکس

محلے کی مسجد کے قریب رہنے والے دو گھرانوں میں زبردست جنگ چھڑ چکی تھی۔بددعاوں ننگی گالیوں طعنوں اور “پاموں” کا تبادلہ یوں جاری تھا جیسے سرحد پر دو ملکوں کے درمیان گولہ باری جاری ہو۔۔۔۔دونوں طرف دو گھرانوں کے سبھی افراد جنگ میں شریک تھے اور ہر کوی اپنی عمر اور تجربہ کے سے گالیاں بک رہا تھا۔۔اس پاس کے رہنے والے تماشہ بین صورت حال سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔۔ ہوا یوں تھا کہ ایک گھرانے کی بہو نے اپنے گھر میں جمع کیا ہوا کوڑا کرکٹ سامنے والے ہمسایہ کے گیٹ کے سامنے پھینکا تھا اور اس گھر کے مالک نے کوڑا کرکٹ پھینکنے والے کو ایک موٹی گالی دی تھی جو کوڑا کرکٹ پھینکنے والی بہو نے سنی اور اپنے شوہر سے کہا کہ سامنے والے مکان کے مالک نے اسے بہت ہی موٹی گالی دی ہے۔۔یہ سن کر اس کا شوہر دوسری منزل کی کھڑکی سے سامنے والے ہمسایہ کے نام گالیوں کی بوچھاڑ کرنے لگا اور پھر دونوں گھرانوں کے سبھی افراد نے مورچہ سنبھالا اور گولہ باری شروع کی۔۔۔۔ ایک صاحب کچھ زیادہ ہی ننگی اور ناقابل برداشت گالیاں بک رہا تھا۔۔اچانک مسجد سے مغرب کی ازان بلند ہوئی اور دونوں فریقوں نے خاموشی اختیار کی اور وہ ادھیڑ عمر کا شخص دروازے سے نکلا اور دروازے پر کھڑی سامنے والے گھر کی عورت کی طرف دیکھ کر بڑبڑایا۔۔۔۔ میں نے آج تک نہ جانے کتنی عورتوں کو ننگا کیا ہے تمہیں بھی ابھی سب کے سامنے ننگا کرتا مگر کیا کروں ازان ہوچکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔یہ کہہ کر وہ مسجد کی طرف چل پڑا۔۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں