سر سید احمد خان کی شخصیت اور فکری معنویت کی اہمیت 0

سر سید احمد خان کی شخصیت اور فکری معنویت کی اہمیت

محمد اسحاق ملک
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

‌سر سید احمد خان اپنے عہد کے ایک دانشور محقق دور اندیش نابغہ شخصیت گزرے ہیں۔ آپ کو اللہ نے تحریر تقریر اور طرز عمل اور اعلیٰ دماغی فکر کی اعلیٰ صلاحیتوں سے نوازا تھا آپ کی پیدائش 17اکتوبر 1857 ایک دور اندیش صفت شخص میر تقی ولد سید ہادی کے یہاں دہلی میں ہوئی۔ آپ کا نام احمد تھا۔خان خاندانی خطاب تھا اور سر حکومت کی جانب سے خطاب ملا تھا آ پ کی والدہ عزیز النساء جو بہت نیک اور مخلص اور بڑی دانش مند خاتون تھیں حیرت انگیز امتیازی خصوصیات کی حامل تھیں آپ کی ابتدائی زندگی میں تربیت کا بہت گہرا اثر ان کا رہا آ پ کی تعلیم دہلی کالج میں ہوئی جہاں آپ کے استاد مولانا مملوک علی جو مولانا قاسم کے بھی استاد تھے ۔ابتدائی تعلیم اپنے نانا خواجہ فریدالدین سے حاصل کی قرآن عربی فارسی ریاضی طب تاریخ سے تعلیم حاصل کی طب کی تعلیم حکیم غلام حیدر سے حاصل کی ریاضی کی تعلیم ماموں زین العابدین سے پھر اپنے خالو مولوی خلیل اللہ کی صحبت میں عدالت کا کام کاج سیکھا آ پ کی شخصیت قوم وملت کے عظیم محب وطن ہمہ گیر محنت و مشقت عزم واستقلال خوداری اور دلیری سے مقابلہ کرنا مایوسی کے حالات میں امید کی جستجو فراخ دل اور وسیع نظر فکر دوراندیشی متحرک جذبہ ایثار دیانتدار صاف گو اوصاف کے مالک تھے ۔ آپ کی شخصیت بہت اعلیٰ وارفع وجدانی ادارک کی رسائی رکھتے تھے ۔ آ پ ایک بیدار مغز انسان تھے آپ کے خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہےآپ ہمیشہ تفکر و تدبر میں رہتے تھے جس کی وجہ سے آپ نے اپنے اعلیٰ ذہنی شعور سے اس وقت کے حالات پر نبض رکھ کر حالات کا جائزہ لیا ہےاور اس وقت کے مسائلوں کا حل تلاش کیا۔اس وقت قوم بہت سارے مشکلات مصائب کا شکار تھی قوم کے سامنے کوئی راستہ نہیں تھا ترقی کا سر سید نے غور وفکر کیا کیونکہ اللہ نے آپ کو عظیم دماغی صلاحیت سے نوازا تھا آپ نے اپنے اعلیٰ وارفع دماغی شعور کے ادراک سے سوچنا شروع کیا کہ قوم کی تعمیر کیسے کی جائے قوم کو عظمت اور بلندی کیسے عطا کی جائے ان مشکل حالات میں جہاں قوم کی مایوسی اپنے انتہا پر تھی تو سید نے حالات کا جائزہ لیا تو اس نے راستہ نکالا اگر قوم کی صحیح معنی میں خدمت اور قوم کی ترقی اگرممکن ہے تو صرف اورصرف تعلیم کے میدان میں اس سے آگے بڑھایا جائے تعلیم سے ہی قوم اپنی شناخت اپنی عزت اپنا وقار حاصل کرسکتی ہے۔صرف تعلیم ہی وہ راستہ ہے جس سے قوم کاسر فخر سے بلند ہو سکتا ہے۔
سر سید نے اپنی ذہنی دور اندیشی اور سیاسی حکمت عملی سے انگریزوں کا ساتھ دیا اور مدرستہ العلوم کی بنیاد ڈالی اور سنٹفک سوسائٹی کا قیام عمل میں لایا اور بعد میں یہی مدرستہ العلوم ممڈن اینگلو اورینٹل کالج میں تبدیل ہوا اور یہی کالج بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 1920 میں بنا۔ جس کو بعد میں نواب محسن الملک اور اس کے بعد سر آغا خان نے آگے بڑھایا بڑی محنت وجان فشانی سے۔سید نے ادبی رسائل بھی نکالے جن کا مقصد تھا قوم کو ادبی سماجی اور سیاسی لحاظ سے روشناس کرانا تھا اوریہ کام آپ نے تہذیب الاخلاق کے رسالہ سے لیا جو 1870میں جاری کیا جس کا مقصد عام مسلمانوں کی ذہن سازی کرانا تھا اور اس میں آپ کے مضامین مذہبی اصلاحی اور قومی مقصد کے حامل ہوتے تھے جس سے آپ نے مسلمانوں کی زندگی کے ہر گوشے کو متاثر کیا اور اس کے زریعے قوم کو لکھنا پڑھنا تفکر تدبر اور تفہیم سکھائی ۔اور آپ نے ادب اور صحافت کو مشترک کیا بطور ادیب اور بطور صحافت آپ ان میں خود اپنے مضامین شائع کراتے تھے جو بہت ہی سادہ خوش اسلوبی سیاسی معاشی اصلاحی اور عقلی بنیادوں پر مشتمل رہتے تھے آپ اپنی تحریری مضامین سے قوم کی اصلاح کرنا چاہتے تھے ۔اس لئے سادگی سلاست مقصدیت عام فہم انداز میں بیان کرتے تھے یہ آپ کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
سر سید احمد خان جدید اسکالر محقق مقالہ نگار ایک صحافی سیرت نگار عظیم مفکر مدبر اور مصلح قوم اردو کے ادیب با کمال مصنف ایک مورخ نامور خطیب ماہر منتظم کے ساتھ بہت سارے اصناف پر دسترس حاصل رکھتے تھے اور یہ کام آپ نے اپنے ساتھیوں اور رفیقوں سے بھی لیا جن میں سے دو نے بہت بڑی شہرت حاصل کی مولانا الطاف حسین حالی اور علامہ شبلی نعمانی ان دو نے بہت بڑی شہرت حاصل کی تھی اور حالی نے آپ کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھا اور حالی نے آپ کے تمام کارناموں کو اپنی تحریروں کے ذریعے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے جس میں حیات جاوید اور حیات سید بہت زیادہ مقبولیت کی حامل ہے سر سید احمد خان وہ ہمہ گیر اور جامع شخصیت گزرے ہیں جنہوں نے اپنی قوم پر بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے جو انکی خواب کی تعبیر ہے وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے جو آج پوری دنیا میں مشہور ہے اور سرسید کےتعلمی مشن کو پوری دنیا میں پھیلا رہے ہیں یہ اس عظیم بزرگ کا عظیم خواب تھا جو حقیقت میں آج پوری دنیا کے سامنے روشن ہے 17اکتوبرہر سال پوری دنیا میں آپ کو اس عظیم الشان کارنامے پر خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے اور اس دن آ پ کے عظیم خدمات اور قربانیوں کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے آپ کے افکار کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے اور آپ کے اس عظیم مشن کو کیسے بہتر کیا جائے گا اس پر بھی جائز لیا جاتا ہے اس ادارے نے قوم وملت کی بہت بڑے بڑے کارنامے اور خدمات انجام دیئے ہیں اس ادارے نے تعلیمی میدان ہی نہیں بلکہ سیاسی سماجی میدان میں بھی بہت بڑے کارنامے انجام دیئے ہیں اور یہ وہ واحد ادارہ ہے جو اپنی تہذیب وتمدن اور کلچر سے اپنی الگ شناخت رکھتا ہے علی گڑھ کی تہذیب پوری دنیا میں مشہور تھی۔اور خود سر سید کا مشن تھا کہ یہاں ایسے طلبہ تیار ہو کر نکلے جن کے دائیں ہاتھ میں فلسفہ ہو اور بائیں ہاتھ میں نیچرل سائنس ہو اور کلمہ طیبہ کا تاج سر پر ہو جو دین اور دنیا کی تعلیمات سے روشناس ہو تاکہ وہ دین کی بھی خدمت کریں دنیا وی لحاظ سے بھی اپنی قوم کی خدمت کریں۔
سر سید احمد خان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع وعریض ہے آپ فلاحی ریاست کے آ رزو مند تھے آپ نے مختلف میدانوں میں قوم وملت کی خدمات انجام دئیے ہیں۔خاصکر تعلمی تحریک ۔تاریخ نوسی ۔سیرت نگاری ۔اردو زبان وادب میں آپ نے 1858میں مرادآباد میں ایک اسکول قائم کیا پھر غازی پور گئے وہاں ایک اسکول قائم کیا 1862میں وہاں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی۔جس کا مقصد تھا انگریزی زبان کی کتابوں کو اردو میں ترجمہ کرنا اور شائع کرانا یعنی مغربی زبانوں میں لکھی گئی کتابوں کو اردو ترجمہ کرنا تھا تاکہ قوم مغربی علوم سے بھی واقف ہو جائے پھر اسی سوسائٹی کو بعد میں 1864میں علی گڑھ منتقل کیا ۔ اردو ادب پر آپ کی بیشمار خدمات ہیں اردو نثر تحقیق و تنقید انشائیہ نگاری مقالہ نگاری صحافت نگاری کے آپ موجد ہیں آپ نے تعلیم کو نئی شکل اور اردو نثر کو نئی صورت سمت عطا کی آپ نے علی گڑھ تحریک کو جو شان اور عظمت عطا کی اس نے ہندوستانی قوم اور معاشرے کو بہت سی سطحوں پر متاثر کیا آپ نے اردو زبان وادب کو نئی وسعتوں سے ہم کنار کیا موضوعات اسالیب کو تبدیل کیا اردو نثر کو سادگی سلاست سے آ شنا کیا ادب کو مقصدیت عطا کی ادب کو زندگی اور اسکے مسائل سے جوڈا۔سادہ سلیس انداز میں نثر نگاری شروع کی حقیقت سچائی اور فطرت پرست عقلیت اور مقصد یت اور پیچیدہ مسائلوں کو عام فہم انداز میں بیان کیا آپ سنجیدہ نثر نگاری کے بانی تھے۔ اور یہ کام اپنے رفقاء سے بھی لیا خاص محسن الملک مولوی نذیر احمد حالی شبلی سر سید نے اردو زبان وادب کو فکر ونظر کے نئے زاویے دیئے ہیں اس کے علاوہ آپ نے اسباب بغاوت ہند۔ آثار الصنادیر۔ آ ئینہ اکبری ۔تبین الکلام۔ تاریخ ضلع بجنور ۔تفسر القرآن ۔ اور سب سے بڑا کا رنامہ لائف آ ف محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو سر ولیم میمور نے لکھی اس کا جواب خطبات احمدیہ لکھی ۔جس سےآپ کی عشق رسول مذہبی مصلح اور قومی رہنما کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے مذہبی اعتبار سے آپ زیادہ تر سید احمد شاہ بریلوی اور شاہ اسماعیل شہید سے متاثر تھے
آ ج کے دور میں جس میں ہم اور آپ سانس لے رہے ہیں آ ج بھی وہی ممالک ترقی یافتہ ممالکوں میں شمار کیے جاتے ہیں جو تعلیم کے میدان میں آگے ہیں جو سانئس اور ٹیکنالوجی میں آ گے ہیں یعنی سر سید کی سوچ کی معنویت اور اس کی سمت و رفتار آج کے دور میں بھی وہی اہمیت رکھتی ہے کیونکہ قوموں کا معیار ان کا عروج وزوال تعلیم پر منحصر ہے جس قوم میں جتنے اچھے تعلیمی ادارے ہونگے یا تعلیم یافتہ لوگ ہونگے وہ قوم اتنی ترقی یافتہ ہوگی اس قوم کا اتنا معیار بلند ہوگا وہ قوم اتنی مہذب اور دوسرے قوموں پر بلند ترجیحات کا درجہ حاصل کرتی ہےاس قوم کا تہذیب ثقافت اور کلچر کا میعار بھی بلند ہوتا ہےیہ ایک دانشور مفکر کا ہی کارنامہ ہوتا ہے جو بہت دور اندیشی سے حالات کا جائزہ لیتے ہیں مگر افسوس کا مقام ہے جس دلیری بہادوری اور خلوصِ نیت اور قوم وملت کے درد سے اس مفکر نے کام کیا اپنی زاتی مفادات کو قوم وملت کے مفادات پر ترجیح دی اور علم وعمل کا شمع روشن کیا اور اس شمع سے قوم کو منور کیا مگر اسکے بعد کوئی ایسا قوم کا خیر خواہ قوم کا درد دیانتدار مخلص وفادار دور اندیش قوم کے مسائلوں کا حل تلاش کرنے والا نہیں آ یا ہے اس ادارے میں جو سید کی میراث کو اس درد مندی اور ایثار کے جذبے اور خلوصِ محبت کے امنگوں حوصلوں متحرک قربانیوں سے قوم وملت کے مفادات کے مطابق نئے فکری نظریہ سے اس کو آ گے بڑنے میں جستجو کی سعی کی ہو جو تڑپ جو جذبہ جو کاوش جو امنگ جو جوش ولولہ سید کو تھا یہ اس قوم کی بدقسمتی ہے اگر اس جیسا درد مند ہوتا تو آج مسلمان بہت آگے ہوتے ہیں ان کی عزت اور سر بلند ہوتی مگر اس کے بعد ایسا کوئی قوم کا درد قوم کی محبت رکھنے والا اس ادارے کو نصیب نہیں ہوا جس کی وجہ سے یہ ادارہ اب تنزلی و پستی کا شکار دن بہ دن ہوتا جا رہا ہے۔ آ ج کے دور میں بھی سر سید احمد خان کی فکری معنویت کی اہمیت بہت زیادہ ہے کونکہ سید متحرک مزاج عزم وحوصلہ کے پختہ کے ساتھ مخلص ہمت استقلال استقامت قوم وملت کاجذبہ ایثار کا درد محسوس رکھنے والے خوداری دلیری ایماندار اور دیانتداری سے کام کرنے والے شخصیت تھے بس ضرورت ہے اس سمت اور رفتار کی مخلصانہ مزاج اور دیانتداری کی جس کا فقدان نظر آ تا ہے تعلیم کے میدان میں بہت آگے ہیں مگر وہ سوچ وہ فکر جس میں ایمانداری خودداری دیانتداری قوم کی خدمت کا جذبہ قوم کی اصلاح قوم کے مفادات کا وہ جذبہ نہیں ہےجو سید کو تھا سر سید کے جذبے حوصلے امنگ اور متحرک درد کی فکر کی ضرورت ہے تب جاکر سر سد کے خواب کی تعمیر کا خواب پورا ہوسکتا ہے جس سے قوم کا وقار اور عظمت کا معیار بلند ہوسکتا ہے اور یہ محسن ملت قوم کا غم خار 27 مارچ 1898 سورج غروب ہوا جو علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے جامع مسجد کے احاطے میں مدفن ہوگئے۔
محمد اسحاق ملک
ریسرچ اسکالر شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں