افسانہ ۔۔۔اماں 0

افسانہ ۔۔۔اماں

راجہ یوسف

’’ میں کون سا منہ لیکر جائوں گا ۔ کل سے تم طوطے کی رٹ لگائے بیٹھی ہو۔ ماں کے پاس جاو، ماں سے ملو۔ کس منہ سے جائوں گا ماں کے پاس‘‘ جاوید نے دھتکارتے ہوئے اپنی بیوی رضیہ سے کہا۔
’’ ایک بار کوشش کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ اور ویسے بھی اس کے بغیر ہمارے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے‘‘رضیہ نے اپنے شوہر جاوید احمد کو سمجھاتے ہوئے کہا ۔
’’ یہ سب تمہاری غلطی سے ہوا ہے، اور اب یہ تم ہی سنبھالو‘‘ جاویداپنی ماں سے ملنے میںپریشانی محسوس کر رہا تھا۔
’’نا بابا ، نا، مجھ سے وہ کہاں بہل پائے گی۔ میں تھوڑی اس کی بیٹی ہوں، بہو آخر بہو ہی ہوتی ہے۔ تم اس کے بیٹے ہو، تم سے تو اب خفا بھی نہیں ہوگی‘‘ دونوں میاں بیوی میں کئی روز سے یہی بحثابحثی چل رہی تھی ۔۔۔۔
جب کوئی اپنے ہاتھوں سے اپنے مقدر میں غربت اور افلاس لکھ دیتا ہے ۔ تو پھر وہ لاکھ جتن بھی کرلے لیکن غریبی سے چھٹکارا نہیں پاتا۔ وہ سونے کی کان میں ہاتھ ڈالے، تو کان بھی مٹی مٹی ہوجاتی ہے ۔جس طرح جلتا ہوا چولہا ہانڈی اُلٹنے سے بجھ جاتا ہے، ہانڈی بھی خالی اور لکڑی بھی گیلی ۔۔۔ اسی طرح غریب کے سر پر ہمیشہ نحوست کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں ۔
جاوید احمد کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا ، وہ جس کام میں بھی ہاتھ ڈالتا تھا، اس کے نتائج الٹے ہی نکلتے تھے۔ عرصے سے اس کے گھریلو حالات ٹھیک نہیں تھے۔ اس کی بیوی رضیہ اکثر بیمار رہتی تھی۔وہ خود بچوں کی دیکھ بال میں الجھتا رہتا تھا۔۔۔ کھانا بنانا۔۔۔کپڑے دھونا ۔۔۔ گھر کے دوسرے کام کاج میں اس کا دن ختم ہوجاتا تھا ۔۔۔ اس کے حالات ہمیشہ اتنے زیادہ خراب نہیں تھے، کبھی اس کا گھر بھی خوشحال تھا۔اگر چہ دولت کی ریل پیل نہیں تھی، مگر گذارا چلتا تھا ۔۔۔اس کا باپ رمضان بٹ بھی کچھ نہ کچھ کرتا رہتا تھا،اور اس کی ماں تاجہ بھی گھر کے کام کاج میںرضیہ کا ہاتھ بٹاتی تھی ۔۔۔۔ بچوں کے لئے دادا دادی ہی کافی تھے ۔وہ پوتوں کی دیکھ بھال میںلگے رہتے تھے اور پوتے بھی ان ہی سے اپنی ضروریات کی چیزیں مانگتے رہتے تھے ۔ ان کی وردی، کتابوں کے بکسے،سکول بس تک لانا لے جاناسب دادا دادی کے ذمہ تھا ۔۔۔۔۔۔
جاوید احمد گلی کی نکڑ پر دکانداری کرتا تھا۔دکان بڑی تو نہیں تھی مگر گھر چلانے کے لئے کافی تھی۔ یہ دکان رمضان بٹ نے ان دنوں کھولی تھی جب جاوید احمد سکول جاتا تھا۔پھر جب جاوید احمد دسویں کلاس میں تین بار فیل ہوگیا ، تو اس نے آگے پڑھنے سے انکار کردیا۔ رمضان بٹ نے کافی کوشش کی کہ وہ پھر سے ایگزام میں بیٹھ جائے ،پر جب وہ نہیں مانا تو رمضان بٹ نے اس کو اپنے ساتھ دکان پر بٹھادیا۔۔۔۔ آہستہ آہستہ جاوید احمد نے خود ہی دکان سنبھال لی ۔ پھر اس کی شادی ہوگئی ،بچے ہوگئے ۔اور رمضان بٹ گھرکے دوسرے کام دیکھنے لگا ۔۔۔۔ جاوید احمد فطرتاََ جلدباز تھا،وہ ہر کام کا انجام بہت جلد چاہتا تھا۔ وہ اس معمولی دکانداری سے مطمئن نہ تھا، روزنئے منصوبے بناتا تھا اور توڑتا تھا۔۔۔ توڑتا بھی اس لئے تھا کیونکہ اس کے منصوبوں کے لئے بہت زیادہ پیسوں کی ضرورت تھی جو اس کے پاس نہیں تھے۔۔۔ تب اسے ایک آسان سی راہ سوجھی، اسکا گھر ٹائون کے بیچوں وبیچ واقع تھا۔ اڑوس پڑوس میں نئے نئے شاپنگ کمپلکس بن رہے تھے۔ اُس جیسے غریب لوگ پرانے گھر اچھے دام میں بھیچ رہے تھے ،اور خود گائوں کی طرف بن رہی نئی کالونیوں میں گھر بنا رہے تھے۔ جاوید احمد نے بھی اچھے دام میں گھر بھیچنے کا پروگرام بنایا۔۔۔، ایک وہ نئے ٹائپ کا گھر بنانا چاہتا تھا، اور کچھ پیسہ بچا کر کوئی کاروبار شروع کر کے گھر کے حالات سُدھارنا چاہتا تھا۔۔۔ جب رمضان بٹ کے کانوں تک یہ بات پہنچ گئی تو وہ بھڑک اٹھا۔۔۔ وہ اپنے آبائی گھر اور محلے کوچھوڑ کر کہیں جانے کے لئے تیار نہیں تھا ۔۔۔لیکن جاوید احمد اپنی بیوی کے ساتھ فیصلہ کرچکا تھا۔ گھر میں روز اس بات پر جھگڑا ہونے لگا۔ آخر ماں باپ کو ہی چپ ہونا پڑا ۔ اور جاوید احمد نے گھر بھیچ ڈالا۔۔۔
نئی جگہ اور نئے لوگوں میں آکر انسان بہت ذیادہ خودنمائی کرتا ہے۔۔۔ وہ دوسروں کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ پدرم سلطان بود ۔۔۔ جاوید احمد اب پہلے جیسا تنگ دست بھی نہیں تھا۔ وہ بڑی آن شان کے ساتھ نئی کالونی میں آگیا ۔۔۔۔ یہاں پر پہلے سے ہی نئے نئے گھر،مکان اور بنگلے بن رہے تھے، جاوید احمد کو کالونی کے لوگوں کو یہی باورکرانا تھا کہ وہ بھی کوئی ایرے غیرے والانہیں بلکہ آسودہ حال آدمی ہے۔ اسلئے اس نے گھر کا خیال چھوڑ کر بنگلے کی سنگِ بنیاد ڈال دی ۔۔۔چوتھی اور چھوٹی انگلی کے بیچ سگریٹ دبا کر مزدوروں اور کاریگروں کو ہدایات دینے کا مزا ہی کچھ اورہوتا ہے ،ہاں پیسہ تھوڑا زیادہ خرچ ہوجاتا ہے،پر نشہ بہت دیتا ہے۔۔۔ جاوید احمد کو مکان بنانے کا کوئی تجربہ تو تھا نہیں،اس لئے بڑی مشکل سے چاردیواری کے اوپر چھت ڈالی گئی اوراسی کے ساتھ ہی جاویدا حمد کی جیب بھی خالی ہوگئی۔۔۔تب تک دسمبر کا مہینہ آچکا تھا۔ چلے کلان میں بس چند ہی دن باقی تھے۔ اب کھڑکیوں پر پالتھین اور دروازوں پر ٹاٹ لگانا ناگزیر بنتا تھا۔۔۔ سردیاں شدت کے ساتھ پڑنی شروع ہوگئیں تھیں، تووہ سکڑے سکوڑے کمروں میں بند ہوگئے ۔۔۔ بڑی مشکل سے رمضان بٹ نے کہیں سے کوئلے کا انتظام کرلیا۔ جس سے آنے والی برف باری کاکچھ تو مقابلہ ہوسکتا تھا ۔۔۔
جب بھوک لگتی ہے، اور جیب خالی ہو۔۔۔ تو آنکھوں میں اندھیرا چھا جاتا ہے،سامنے دھند ہی دھند نظر آتی ہے ، راستہ سجھانا مشکل ہوجاتا ہے۔۔۔آدمی جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے، اس کے منہ سے خرافات اور مغلظات کے سوا کچھ نکلتا بھی نہیں ہے ، تو گھر جہنم زار بن جاتا ہے ۔۔۔ جاوید احمد اور اس کی بیوی روز روز لڑنے جھگڑنے لگے۔۔۔ بچوں کی ضد کے سامنے ہار جانے کے بعد بات مار پیٹ تک پہنچ جاتی تھی۔ اورآخر میں اس جھگڑے کے شکار رمضان بٹ اور اس کی بیوی تاجہ ہو جاتے تھے۔ ۔۔ آئے دن جھگڑے سے پریشان رمضان بٹ نے آخرخود کو الگ کرنے کافیصلہ کیا ، تو سب سے زیادہ خوشی رضیہ کو ہوگئی ۔۔۔ رمضان بٹ نے ٹائون میں آکر کمرہ کرایہ پر لیا،وہ دن بھر بازار میں مزدوری کرتا تھا اور شام کو دونوں میاں بیوی آرام سے کھاتے تھے، تاجہ کا سکون اگر چہ بیٹے کے غم میں غارت ہو چکا تھا ، لیکن رمضان بٹ خوش تھا کہ روز کی کھٹ کھٹ سے کچھ تو آزادی مل گئی ۔۔۔ مصیبت جب آتی ہے تو یہ چاروں طرف ے حملہ آور ہو جاتی ہے۔ تاجہ بھی مصیبتوں کی ماری روز روز کسی نہ کسی نئی افتاد کی شکار ہو جاتی تھی ،آج بھی جب دیر رات گئے تک رمضان بٹ گھر نہیں آیا تو وہ اس کے انتظار میں سو بھی نہ سکی،اسے وسوسوں نے گھیرا رکھا تھا، صبح ادھر اُدھر ڈھونڈنے پر بھی جب کچھ معلوم نہ ہوا تو مصیبت کی ماری بیٹے کے گھر پہنچ گئی جہاں اسے بے آبرو ہوکر واپس آنا پڑا۔
’’ ہمیں کیا معلوم وہ کہاں گیا ہے، جائو وہی جا کر معلوم کرو جہاں تم لوگ رہتے ہو۔ وہ یہاں کس کے لئے آئے گا ‘‘ بہو رضیہ نے روکھے پن سے صرف اتنا کہا ۔اور دروازہ اس کے منہ پر بند کردیا ۔۔۔۔تاجہ در در بٹکتی رہی پر اسے رمضان بٹ کا کوئی اتہ پتہ نہیں ملا اور آخر تھک ہار کر کرایہ کے کمرے میں واپس لوٹ آئی ۔۔۔دوسری طرف رمضان بٹ گاڑی کی چھت پر سامان لادتے ہوئے سر کے بل نیچے گر گیا تھا ، راہ گیر اسے ہسپتال پہنچا گئے تھے، جہاں وہ بے یارومددگار تین دن تک زندگی اور موت سے لڑتا رہا۔ آخر حسبِ معمول زندگی ہار گئی اور موت فتح یاب ہوگئی۔۔۔ لاوارث لاش کئی دن تک لاش گھر میں پڑی رہی پھرپولیس اور سول سوسائیٹی کی مدد سے لاش کی تدفین کر دی گئی۔۔۔
رمضان بٹ کے نہ آنے سے کمرے کا مالک زیادہ پریشان تھا۔اس کا کرایہ دینے والا لاپتہ ہوگیا تھا ، اب وہ کسی بھی طرح کمرہ خالی چاہتا تھا، اس کا شاطر دماغ اس کا اچھا ساتھی تھا۔ وہ تاجہ کو لیکر ایک Old age home میں گیا۔جہاں گھروالوں کے ستائے بڑے بزرگ لوگ ایک طرف اوریتیم بچے دوسری طرف رہتے تھے۔ تاجہ کی روئیداد سن کر منتظمیں نے اس کو رکھ لیا۔ تاجہ یہاں اپنی مرضی سے کام کرنے لگی۔ یتیم اور نادار بچوں کی خدمت میں لگ گئی ۔بچے بھی اسے پیار کرنے لگے ۔۔۔ ٹرسٹ والے خوش تھے۔ تاجہ اپنا دکھ درد بھول چکی تھی۔ وہ ان یتیم بچوں کے سوا اور کچھ سوچتی بھی نہیں تھی۔ ٹرسٹ کے لوگ،بچے اور یہاں تک کہ کچھ بڑے بزرگ بھی اس کو اماں کہہ کر پکارتے تھے ۔
جاوید احمد کے گھریلو حالات بھی دن بدن بگڑتے جا رہے تھے۔پریشانی میں کالونی کا گھر بھیج دیا اور کچھ پیسے بچانے کے چکر میں واپس ٹاون میں آکر ایک چھوٹا سا گھر خریدلیا۔رضیہ اوروں کے گھروں میں کام کرتے کرتے بیمار رہنے لگی تھی۔ بچایا ہوا پیسہ اس کی بیماری پر خرچ ہوگیا ۔ بچوںکو پرائیویٹ انسٹچوٹ سے نکال کر سرکاری اسکول میں ڈال دیا ۔ مزدوری کرنے کے لئے وقت ہی نہیں مل پا رہا تھا ۔ ایک طرف چھوٹے بچوں کا خیال پریشان کئے ہوئے تھا ،تو دوسری طرف رضیہ کی بیماری چین سے کچھ کرنے ہی نہیں دے رہی تھی۔ پریشانیوں اور پشیمانیوں نے جاوید احمد کا دائرہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ اب آگے والے کنویں یا پیچھے والی کھائی میں گرنے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آرہاتھا ۔۔۔۔ پھر اچانک اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن نظر آگئی۔ جاوید نے کہیں سے سنا، سرکار نے Senior citizen کے حق میں معقول پینشن مقرر کر دی ہے۔۔۔ اب دونوں میاں بیوی کو ماں کی بہت یاد آرہی تھی۔
’’ اگر آج ماں ہمارے پاس ہوتی تو اس کی پنشن سے کم از کم گھر کا خرچہ چلتا۔ پر یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا۔ آج ماں بھی ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ ‘‘ جاوید احمد نے سارا نزلہ بیوی پرگرادیا تھا۔ وہ بھی کہاں چپ رہنے والی تھی۔ جاوید کو کھری کھری سنا ڈالی ۔ کافی لڑائی جھگڑے کے بعد فیصلہ ہواکہ سب لوگ ماں کے پاس جائیں گے ، اسے معافی مانگیں گے اور منا کر گھر واپس لائیں گے۔۔۔، دوسرے دن بچوں کو ساتھ لیکر میاں بیوی یتیم خانہ پہنچ گئے۔۔۔ پہلے تو منتظمیں نے انہیں بہت ڈانٹ پلائی ۔ لیکن آخر تاجہ سے ملنے کی اجازت دے دی۔۔۔ تاجہ سے مل کر دونوں نے بہت منت سماجت کی۔۔۔ اسے دور رہنے پر پشتاوے کا اظہار کیا۔۔۔ اپنا دکھڑا سنایا۔۔۔اپنی حالتِ زار پر بہت روئے۔ پر تاجہ کا دل ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں پسیجا ۔۔۔وہ کچھ کہے بغیر ہی اندر چلی گئی۔۔۔ آخر کار وہ سب تھکے ہارے واپس جانے لگے ۔ تاجہ نہ چاہتے ہوئے بھی کھڑکی کا پردہ کھسکا کر انہیں جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔۔بچے کپڑوں کے نام پھٹے پرانے چیتھڑے پہنے ہوئے تھے۔رضیہ بھی کچھ کمزور اوربیمارسی لگ رہی تھی۔ ۔۔۔ جاتے جاتے جاوید احمد نے مڑ کر دیکھا تو تاجہ کو لگا دنیا بھر کی ساری ناامیدی ۔۔۔ یاس ۔۔۔ غم اور پریشانی اس کے بیٹے کے چہرے پر کائی کی طرح جم چکی ہے ۔۔۔ وہ جھک جھک کر چل رہا تھا، جیسے ٹوٹ کر بکھر چکا تھا۔۔۔بال الجھے ہوئے تھے ۔۔۔پیروں میں پھٹے پرانے جوتے تھے ۔۔۔ تاجہ کے دل سے ایک ہوک سی اٹھی ۔۔۔آنکھوں سے آنسوں ساون کی طرح برسنے لگے ۔۔۔ اسے یہ منظر دیکھا نہ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ دوڑتے ہوئے۔۔۔ چلاتے ہوئے باہر آگئی اور جاوید جاوید کہہ کر بیٹے کے ساتھ لپٹ گئی ۔۔۔ اسے سینے سے لگایا ۔۔۔ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہی ۔۔۔ اس کے چہرے کو لگاتار چومتی جا رہی تھی ۔۔۔ ماحول پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا ۔۔۔ دروازے پر بچے، بزرگ اور منتظمیں یہ دردناک منظر دیکھ رہے تھے۔ سب کی آنکھوں میں آنسوں تھے اور ہونٹوں پر سسکیاں ۔۔۔
جاوید اور رضیہ اب روز ماں کے بارے میں باتیں کرتے تھے، انہیں بہت دکھ تھا، کہ ماں(تاجہ) ان کے ساتھ نہیں تھی ۔۔۔ وہ یتیم بچوں کو چھوڑ کر ان کے ساتھ نہیں آئی تھی ، لیکن اس کا ماہانہ پنشن جاویداحمد کو برابر مل رہا تھا۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں