رشید پروین ؔسوپور
کشمیر کو ہزاروں برس سے (پیر وار )یعنی ریشی منیوں اولیاا ور اللہ کے بر گزیدہ بندوں کی سر زمین سے موسوم کیا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سر زمین اللہ کے عظیم اور باکرامات بڑے بڑے اولیا اور ریشی منیوں کا مسکن رہی ہے اور بعد میں اسلامی دور میں ہزاروں باکمال سادات نے یہاں اپنی آرام گاہوں سے اس مٹی کو جو شرف عطا کیا ہے اس کا کوئی اندازہ نہیں اور اس طرح کشمیر نہ صرف دنیا کی حسین دلہن کے ماتھے کا جھومر ہے بلکہ یہاں ہزاروں با کمال سادات اور اللہ کے بر گزیدہ (نند) معنی بہت ہی خوبصورت اور حسین ریشی،باکمال صوفی چاند ستاروں کی مانند تاباں ہیں ، کشمیر کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ اس سر زمیں کا وجود ہی ایک عظیم ریشی ،’’ کشپ‘‘ سے جڑا ہے ،دراصل یہ ریشی بھی اپنے زمانے میں اللہ کا بر گذیدہ اور مقام اعلیٰ پر فائز ریشی رہا ہوگا ، یہاں بہت ہی مختصر طور اہل صفا کی تعبیر بھی ناگزیر ہوجاتی ہے تاکہ ریشیت اور صوفیت کا موازنہ اور مماثل نقاط کا بھی اندازہ ہوجائے ، تصوف پر سینکڑوں کتابیں مہیا ہیں لیکن میں یہاں صرف سیدنا شیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒکے نقاط پر اکتفا کروں گا ،،آپ ؒحروف تصوف کی حقیقت یوں بیاں فرماتے ہیں ،’’ صوفیائے کرام کا اہل تصوف کے نام سے موسوم ہونا ۔نور معرفت اور توحید کے ذریعے اپنے باطن کو جملہء آلایشوں سے پاک صاف کرنا ہے ، ت سے مراد ، توبہ ، ظاہری اور باطنی ،،ص سے مراد صفائی ، قلب اور مقام سر کی ،،’و‘‘ سے مراد ولایت ہے یہ مقام صفائی نفس کے بعد حاصل ہوتا ہے (ف )سے مراد فنا فی اللہ ہے جب صفات بشریت ختم ہوجاتی ہیں تو صفات باری موجود رہتی ہیں ، چونکہ ذات باری غیر فانی ہے اس لئے عبد فانی کو بھی باقی باللہ کا مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے ، سید عبدالقادر کے نزدیک تصوف کے چار حروف ، سلوک، شریعت ، طریقت، و حقیقت کی ساری منزلیں ، ان کے سارے آداب ان چار حروف سے ہی ماخوذ ہیں ،لیکن اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ شریعت اور طریقت کوئی الگ الگ علوم نہیں ، امام ابو القاسم التشتری ؒ فرماتے ہیں کہ’’ جس شریعت کو حقیقت کی مدد حاصل نہ ہو وہ غیر مقبول اور جو حقیقت شریعت سے مقید نہ ہو وہ غیر حاصل رہتی ہے ،‘‘ سائنس داں اپنی تجربہ گاہ میں نئے نئے تجربات اور مشاہدات کی بنا پر خاص نتیجوں پر پہنچ کر دنیا سے انہیں تسلیم کرالیتے ہیں بلکل اس طرح کا نظام اسلام میں موجود ہے جو عقیدہ اور ایمانیات کے محسوس نتائج کو سامنے لاتا ہے اور یہی نظام روحانی تجربات اور مشاہدات پر مبنی تصوف ہے اور اس علم کے سائنس داں صوفیائے عظام کے نام سے پہچانے جاتے ہیں ، ان مختصر تشریحات کا بغور جائزہ لینے سے کئی نہیں بلکہ سارے نقاط میں ریشیت اور صوفیت ایک ہی آماجگاہ سے پھوٹے ہوئے چشمے لگتے ہیں ، اور ان کے جوہر میں کوئی خاص فرق نہیں ،اسی لئے بہت سارے نقطہ داں سمجھتے ہیں کہ ریشیت بھی صوفیت کی ایک شاخ ہے ، اور جس طرح صوفی ایک خاص طرح کی زندگی گذارتے ہیں اسی طرح ریشیت بھی ایک جداگانہ طرز زندگی ہے ،ریشی سنسکرت زباں کا لفظ ہے جس کے معنی (پاک دعایئہ نعت یا نظم گانے والا ) ہوتا ہے صوفی کی طرح ریشی کا تصور بھی اس مرد کامل کی طرح کا ہے جس کی باطنی آنکھ ظاہری دیواروں کو پھاند کر مادی دنیا سے پرے اسرار حق سے واقف ہوچکی ہوں ،، شاید یوں کہنا زیادہ آساں ہوگا کہ ریشی بھی ماورائے زماں و مکاں ہوتا ہے اور جس طرح اصل صوفی زماں و مکاں کی قید سے آزاد ہوتا ہے اسی طرح ریشی بھی ان منازل سے بھی آگے ہوتا ہے ،، زمانہ وسطیٰ میں بھی ریشی ایسے شخص کو کہتے تھے جو پرہیز گار ہو متقی ، تارک الدنیا اور جس کی قلبی نگاہیں وا ہوچکی ہوں ،یہ کشف و کرامات میں کامل سمجھے جاتے ہیں ،ان کی اقسام یوں تھیں ،، دیو ریشی ، برھم ریشی ، راج ریشی ،مہارشی ، پریرشی ، شروتہ رشی ،،اور ساتویں کند ریشی ،،، کیا یہ اتفاق ہے کہ سات کے ہندسے کو علم الاعداد میں بھی ایک خاص حثئیت حاصل ہے ، سات ہی سروں اور سوراخوں ،سات ہی سمندروں اور سات ہی بر اعظموں، سات ہی آسمانوں کی بات میں ریشی بھی سات ،، صوفیوں کی دنیا میں مقامات یا منازل بھی سات ،شب و روز بھی سات ،ایک عرصے تک کشمیر بدھ مت کا گہوارہ رہا ہے تبت ، چین ، جاپان ، منگولیا ، اور وسط ایشیاء کے بہت سارے علاقوں میں بدھ دھرم کا پرچارکشمیر سے ہی ہوکر گذرتا تھا ، اس لئے بدھ مت کا اثر بھی لازمی طور پر یہاں نمایاں رہا ہوگا ،کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ریشئیت زندگی سے فرار ہے اور شاید یہ تاثر جین مت اور بدھ مت سے ہی پیدا ہوا ہے ۔
لیکن بغور جائزہ لینے سے یہ بات درست نہیں لگتی ،،ریشیوں کا سماج میں بہت بلند مقام تھا ، اتھر وید ) کا نام بھی (اتھروں ریشی) کے نام پر ہے اور بھگوت گیتا بھی ویاس ریشی کی قلمی کاوش کا نتیجہ ہے ،رگ وید کا زمانہ ۱۵۰۰ق م ۔۔۔ اور ۲۵۰۰ ) کے درمیان خیال کیا جاتا ہے ،اس کتاب میں بھی رشیوں کا تذکرہ یوں ہے ،،’’ میں ہی کاک شیوتھ ریشی ہوں ، مقدس نغموں کو سر گم بخشنے والا ، میں نے ہی کت سا کو گلے لگایا ،مجھے دیکھو میں کوی اوشان ہوں ‘‘ رگ وید ،،اس سے مطلب یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کشمیر میں ریشئیت کا ایک سلسلہ ارتقا پذیر تھا ، کشمیر کے شیو درشن نے بودھوں کی کئی فکری دلائل کو اپنا کر بھی ان کے جس بنیادی روئے کی شدید مخالفت کی تھی وہ وجود مطلق سے بودھوں کی بے نیازی تھی (ڈاکٹر سیار محمد) ،،، مختصر سے اس خاکے سے ریشئیت کا تصور دینا تھا نہیں تو ریشئیت اور صوفیت پر بہت سارا اعلیٰ پائے کا لٹریچر مارکیٹ میں موجود ہے ۔
کشمیر میں اسلامی ریشئیت کا تعین خود علمدار (نند ریش) نے کیا جس سے ہم حتمی اور کشمیر کے پسِ منظر میں حروف آخر سمجھتے ہیں ( پہلا ریشی محمد ﷺ ہے جن کا آسمانی نام احمد ہے ،، دوسرا ریشی حضرت اویس کرنی ہیں ، پھر ذلک ریشی ، پلاس ریشی ،،اور اس کے بعد رُمہ ریشی پانچویں ریشی گذرے ہیں پھر چھٹے کا نام (میراں ریشی ؟’ نند‘‘ اپنے آپ کو ساتواں ریشی بتاتے ہیں اور اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میں کون سا ریشی ہوں اور میرا نام کیا ہے ؟ ، ( ترجمہ کلام شیخؒ )،، حضرت شیخ نو رالدین نورانی (نند ریش)کا سلسلہ بقول عشرت کاشمیری راجہ کاہن پال ۔ راجہ بکرما جیت کے خاندان کی پانچویں پشت سے ملتا ہے ،یہ اوجین سے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ امرناتھ یاترا کے لئے براستہ کشتواڈ آرہے تھے کہ ٹھاٹھری سے آگے کاندنی پہنچا تو یہاں کی خوبصورتی من کو بھا گئی اور بسیرا کر لیا ،جلد ہی آس پاس اپنے گرد و نواح کے علاقوں پر حکومت کرنے کا شوق پیدا ہوا ، پھر کشتواڈ اور آس پاس تک اپنی حکومت قائم کی ،یہ حکومت سینکڑوں سال ان کے اولادوں میں قائم رہی کچھ وجوہات کی بنا ا ن کی اولادیں کشمیر منتقل ہوئیں ء ، سلر سنز انہی راجگان سے تھا جو بے بسی اور بے کسی کی حالت میں بجبہاڈہ یاسمن ریشی کی خدمت میں پہنچ جاتا ہے ، جہاں اس سے ریشیوں کی گائیں چرانے اور گھاس کھلانے کا کام سونپا جاتا ہے ،، یہاں ان کی دنیا ہی بدل گئی ،، یاسمن ریشی اور حضرت سید حسین سمنانیؒ کی ملاقاتوں کا تذکرہ کئی مورخوں نے کیا ہے ، ،ایک د ن صدرہ ماجی کا سر پرست کھی جوگی پورہ کا چوکیدار ان دونوں بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور ان سے صدرہ ماجی کے حال احوال سنائے تو مجلس میں یاسمن ریشی نے فرمایا کہ میں اس کی شادی اسی لڑکی کے خاندان کے ایک لڑکے سے کروں گا ، قرین قیاس ہے کہ اسی وقت اسی محفل میں سلر سنز نے کلمہء شہادت پڑھا ہوگا ،راجا اوگر دیو جب کشتواڈ سے بھاگا تھا تو اسی خاندان کے کچھ افراد دور کوٹ تحصیل کولگام میں آکر رہنے لگے تھے ،کچھ وقت کے بعد کسی وبائی مرض سے اس خاندن کے سارے افرادمر گئے لیکن ایک راجہ ان میں سے گاؤں کھی جوگی پور ہ میں رہنے لگا ،، یہاں اس راجہ کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی ، تین چار برسوں کے اندر ہی اس لڑکی کے سارے وارث اور رشتے دار مرگئے اور اس لئے لڑکی کو گاؤں کے چوکیدار کے سپرد کیا گیا ،یہی وہ لڑکی تھی جس سے صدرہ ماجی کہا جاتا ہے جس کے رشتے کی بات حضرت حسین سمنانی ؒاور یاسمن ریشی نے سلر سنز کے ساتھ طئے کی اور حضرت سمنانیؒ نے ہی ان کا نکاح پڑھا ،،ایک روایت ہے کہ اس نکاح میں ، حضرت سید علی ہمدانیؒ بھی بکشف شامل ہوئے ،سلر سنز جو ایک زمانے میں راجہ زادہ تھا ، مویشی چرانے پر مجبور ہوتا ہے اور شہزادی ، صدرہ ماجی بھی سارے زمانے میں اکیلی ایک چوکیدار کے ہاں پرورش پاتی ہے ، یہ کیسے کھیل ہیں جنہیں ہم نہیں سمجھتے اور ان دونوں کا ملن دیکھئے کس پائے کے لوگ انجام دیتے ہیں ،اس طرح شیخ نو رالدین ولی نجیف الطرفین ہیں ، ، صدرہ جس گھر میں پلی بڑھی اسی گھر میں سلر ، اسلا می نام ،سالار الدین کو بھی رہنا پڑا اور یہ گاؤں کھی جوگی پورہ ہے نہ کہ کیموہ ،، جہاں حضرت شیخ پیدا ہوئئے،، (یہ معلومات تاریخ حسن کھوئہامی ، ، فوق ، عشرت کاشمیری ، کشمیر میں تصوف ریشیت کے تناظر میں اور بزرگان کشمیر) پر مبنی ہیں
شیخ کی شادی صدرہ سے ہوجاتی ہے اور زمانے کے ولی اللہ ہی ان کی نکاح خوانی بھی کرتے ہیں اور انہیں دعا بھی دیتے ہیں ، سلر یعنی سالار الدین کھی جوگی پورہ ہی میں اپنے والد ہی کا کام یعنی چوکیداری کرتے تھے اسی دوران ایک رات وہ اُتن پنڈت کے گھر کے سامنے تھے کہ اچانک ہی ان کے کانوں سے اتن پنڈت کی آواز ٹکرائی جو اپنی بیوی فکرہ بٹنی سے کہہ رہا تھا کہ کل شبھ ساعت ہے اور اپنے گاؤں کے چشمے (شاردھا چشمہ ) میں پچھلے پہر دو گلدستے ظاہر ہوں ایک یاسمن کا اور دوسرا اڈہر کا ، تم یاسمن کے گلدستے کو سونگھنا ،بھگوان کی کرپا سے او لا د نرینہ ہوگی ، ظاہر ہے کہ اتن پنڈت اپنے زمانے کے گورو اور اپنی مذہب کتب پر کافی دسترس رکھتے ہوں گے اسی لئے چشمے کی نشاندہی کے ساتھ ہی گلدستوں کی پہچان بھی پہلے ہی اپنی بیوی کو بتا پائے ہوں گے ، یہ بات سالارالدین ۔ شیخ نورالدین کے والد نے سنی تو فوراً ہی اپنی بیوی صدرہ کے پاس آئے اور سارا ماجرا تفصیل کے ساتھ بتا کر اس سے پچھلے پہر چشمے پر جانے کے لئے آمادہ کیا صدرہ موج پچھلے پہر چشمے پر پہنچی ، فکرہ بٹنی بھی اپنے گھر سے اپنے اندازے کے وقت نکلی لیکن نصیب میں یہی تھا کہ وہ کچھ دیر بعد پہنچے ، گلدستے ظاہر ہوئے اور صدرہ نے یاسمن کے گلدستے کو سونگھ لیا ، گلدستہ سونگھتے ہی صدرہ ماجی اتنی بھاری ہوئی کہ اس نے ہاتھ ایک پتھر پر ٹکا دیا تو اس پر ہاتھ کا نشا ن بن گیا اور آج تک یہ پتھر موجود ہے اور اس پر ہاتھ کے نشانات بھی ہیں ، یہ روائت اسی طرح تاریخوں میں موجود ہے ، اس کے بعد فکرہ بٹنی بھی چشمے پر پہنچی لیکن اس کے نصیب میں اڈہر کا گلدستہ ہی تھا ، اس سے سونگھا ، دونوں کے بیٹے ہوئے ،صدرہ ماجی کے ہاں نند اوور فکرہ بٹنی کے ہاں ’’بمہ ساد ‘‘جو بعد میں مسلماں ہوکر بابا بام الدین کے نام سے مشہور ہوا ، شیخ کی ولادت کے بارے میں کئی اور روایات بھی ہیں ، کہتے ہیں کہ صدرہ ماجی کے چشمے پر پہنچنے سے پہلے ہی حضرت سید سمنانی ؒ، یاسمن ریشی ، اور لل عارفہ وہاں موجود تھیں ،گلدستہ ظاہر ہوا تو پہلے اس سے سید سمنانی ؒ نے بوسہ دیا اور اس کے بعد یاسمن ریشی اور پھر لل دید اوریہ بھی تاریخوں میں درج ہے کہ جب صدرہ وہاں پہنچی تو لل دید نے صدرہ سے نام پوچھا اور پھر کہا کہ ہاں لعل و جواہر تو صرف سمندر میں رکھے جاسکتے ہیں ،( صد ر کا معنی ہی سمندر ہے) سید حسینؒ سمنانی نے نو مہینے کی دیکھ بھال بھی لل دید کو سونپی تھی جس کے بارے میں یہ درج ہے کہ وہ مسلسل صدرہ کی خبر گیری کے لئے اکثر آجایا کرتی تھی ، نو ماہ کے بعدنو ر الدین پیدا ہوئے تو پہلے اپنی ماں سے دودھ نہیں پیا ۔کئی جتن کرنے کے باوجود بچہ اپنی ماں کا دودھ نہیں پی رہا تھا ، یہ بات مشہور بھی ہوئی اور اسی اثنا میں تین دن کے بعد لل عارفہ گھر میں وارد ہوئی ، ماجرا سنایا گیا تو مسکرا کر نند سے مخاطب ہوئی ، اے نند جب جنم لینے میں شرم نہیں آئی تو دودھ پینے میں کیا شرم ، لے دودھ پی ،اور اس طرح لل دید نے خود پہلی بار نند کواپنا دودھ پلایا اور تاریخوں میں درج ہے کہ نند نے اتناسارا دودھ پیا کہ لل نے کہا ’’ نند توہی سارا دودھ پی لے گا کہ میرے لئے بھی کچھ باقی رکھے گا ِ ۔ وقت کی عارفہ سے د ودھ پینا ۔اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے حق یہی ہے کہ نند نے جنم لیتے ہی پہلے لل سے معرفت نوش کی تھی ، حالات اور واقعات صریحاً اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ شیخ ما در زاد ولی تھے ، کشمیر میں ریشیت کے سر خیل تھے اور ان کی ذات با برکت نے ہی ریشیت کو اسلامی رنگ میں ایسا رنگ دیا کہ ماضی کی ریشیت کی کچھ بنیادیں اور تاثرات اگرچہ محفوظ رہیں لیکن ریشیت کا نیا ڈھانچہ اسلامی اقدار اور تصورات پر استوار ہوا ، صدرہ ماجی نے شیخ کو دستور کے مطابق حصول تعلیم کے لئے استاد کے پاس لیا،انہوں نے الف پڑھایا ۔ اور جب استاد نے ’’با ‘‘ کہا تو شیخ چپ رہے ، بار بار تکرار کے باوجود خاموش رہے اور آخر اپنے استاد سے کہا کہ پہلے الف کے معنی فرمائے ، ، استاد کیا کرے ، چھوٹا سا بچہ یہ سوال کرے تو حیران ہی ہوا ہوگا ، ، ’’آگے پڑھ یہ تیرے سمجھنے کی باتیں ابھی نہیں ‘‘ تو شیخ کہنے لگے ، ’’الف کے معنی اللہ جو ازل سے لا شریک ، کبھی اس ذات بے ہمتا کو زوال نہیں ،’’ ب‘ محمدالرسولاللہ ﷺ، جو قیامت کے روز امت کے شافعی ہوں گے ‘‘ کہتے ہیں کہ یہ مکالمہ نند کی والدہ صدرہ بھی سن رہی تھی ، استاد نے فوراً صدرہ سے کہا کہ اس بچے کے لئے وہ مناسب استاد نہیں ،، اب ماں نے نند کو ایک جولا ہے کے پاس لایا ، جو لاہے کے پاس جب پہنچے تو سب سے پہلے نند نے آلات بافندگی پر غور شروع کیا ، اور ان کے بارے میں استاد سے سوال کیا ، یہ آلات کیا ہیں ؟ یہ کیا کہتے ہیں ؟ ’’اوت ‘‘کیا کہتا ہے ، ’’موت‘‘سے کیا سبق ملتا ہے؟ ’’ یہ کٹھراویں ‘‘ کیاسبق دیتی ہے ، ان سوالوں کا جواب بے چارہ جولاہا کیا دیتا اسکے لئے تو یہ بس آلات ہنر ہی تھے اور کچھ نہیں ، بچے کی طرف حیرانگی سے تکتا رہا تو شیخ بول پڑا ، ’’اوت ‘‘ کہتا ہے دکانداری ۔ ’’ موک ‘‘ کہتا ہے چند روزہ دنیا پر تکیہ نہ کر ۔ اور کٹھراؤں کہ قبر میں جاناہے ، لیکن ماں باپ مجھے ہنر سیکھنے بھیج رہے ہیں ، اس کے بعد شیخ نے پوچھا یہ ’’ماکو ‘‘ادھر سے ادھر جاتا ہے کیا معنی رکھتا ہے ، ، ’’ماکو‘ تانا بانا کے تار ادھر سے ادھر لے جاتا ہے ، استاد نے جواب دیا، شیخ نے کہا نہیں ’’ماکو‘‘آدمی کی طرح رزق کی تلاش میں گردش کرتا ہے اور جہاں تار ختم ہوا وہاں اس کی زندگی بھی ختم ،، جولاہا پریشان ہوا اور صدرہ سے کہا اس بچے کا بافندگی سے کیاسروکار ، اس کے بعد کہتے ہیں کہ شیخ کو ماں نے اپنے سوتیلے بھائیوں کے پاس بھیجا جن کا کام چوری تھا ،، لیکن یہ کسی بھی طرح درست اور صحیح نہیں لگتا کیونکہ جتنے بھی اولیا اور مادر زاد ولی ہوئے ہیں اللہ نے بچپن سے ان کی خاص طرح سے نگہداشت اور پاسبانی کی ہے کیونکہ یہ لوگ عام آدمی نہیں ہوتے اس لئے یہ کہیں سے غلط روایت کے طور پر سینہ بہ سینہ بات چلی ہے ،، ۱۳ سال کی عمر میں والد سالار الدین کا انتقال ہوا ، والدہ کی پوری تمنا تھی کہ ان کی شادی ہوجائے اور دوسری وجہ یہ بھی رہی ہوگی کہ اس بندھن میں بندھ کر شاید وہ گھر بسانے کے لئے روٹی روزی کمانے کی بھی فکر کرے ، ان کی شادی (زے دید سے ہوتی ہے جو ڈادہ سر کے اکبر الدین کی بیٹی تھی ،،) اکبر الدین کامقبرہ آج بھی ڈاڈہ سر میں عقیدت مندوں کے لئے راحت اور سکون بخش ہے ،، زے دید کے بطن سے ایک بیٹی زون دید اور ایک بیٹا حیدر پیدا ہوا ، یہ دونوں بچے شادی کے چھ سال کے اندر پیدا ہوئے ، اس طرح نورالدین، صاحب عیال بھی ہوئے لیکن دنیا کی طرف کسی طرح راغب نہیں ہوئے ، شیخ العالم نے موضع کیموہ کھڈونی کے قریب ’’نشہار ٹینگ ‘‘نامی جگہ پر ایک غار کھودی اور غار نشین ہوئے ، غار نشینی ریشی منیوں کے لئے کوئی نئی بات نہیں رہی ہے بلکہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ اکثر و بیشتر ولی اللہ ان ہی گپھاؤں میں جام عرفان اور معرفت سے ہمکنار ہوئے ہیں ، ظاہر ہے کہ یہ سن کر ماں اور بیوی زبردست پریشان ہوئی ہوں گی، بڑی منت سماجت کے بعد بھی شیخ واپس گھر آنے پر آمادہ نہیں ہوئے، اس موقعے کا بڑا عارفانہ مکالمہ جو ماں ،بیٹے اور بیوی کے درمیان ہوا وہ شیخ کے کلام میں موجود ہے ، آخر ہر طرح سے ناکام ہوکر ساس بہو نے بچوں کو غار کے دہانے پر رکھ کر آخری تیر آزمایا ، شیخ نے بچوں پر اپنا خرقہ ڈالا ، اللہ سے دعا کی اور صبح سویرے یہ دونوں بچے اللہ کو پیارے ہوچکے تھے حضرت نے ساری زندگی تپسیا اور عبادات میں گذاری ، غار نشین بھی ہوئے لیکن غار نشینی کو اسلامی شعائر کے ساتھ منطبق نہیں پایا اس لئے خود ہی بابا نصر سے فرمایا کہ یہ بڑی ’’بدنامی ‘‘تھی ، شیخ کا زمانہ حیات ۱۳۷۸ سے ۱۴۴۱ء مانا جاتا ہے ،آپ نے کشمیر سے باہر شاید کوئی سفر نہیں کیا ، لیکن کشمیر کا شاید ہی کوئی گاؤں ہو جہاں آپ تبلیغ دین کی خاطر نہیں پہنچے ہیں ، چرار شریف کے شمال و مغرب میں ایک آدھ میل کے فاصلے پر روپہ ون ہے شیخ نے یہاں اپنی زندگی کے سات سال گذار ے،شیخ کی کرامات بے شمار تاریخوں میں درج ہیں ، آپ کے ساتھ آپ کے جھنڈے تلے ہزاروں ریشی آپ کی تربیت سے مستفید ہوتے رہے لیکن ا ن میں خلفا چار ہی ہیں جن کے بارے میں آپ خود اشارہ کرتے ہیں ، (بمہ نصر تہ بابا زینو ،لطیف رنبہ ونو چھس )( حضور ﷺ کے بھی چار ہی یار باصفا تھے جو چاروں خلیفہ ہوئے ) بابا بام الدین ، بابا نصرالدین ،بابا زین الدین ،بابا لطیف الدین ،یہ چاروں علم و عرفان کے پیکر ہیں ) ان کے بارے میں شیخ نے فرمایا ہے کہ ’’ اللہ نے انہیں مجھے عطا کیا تھا ، یہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں ‘‘،،،بابا بام الدین،، اسکی والدہ وہی ’’فکرہ بٹنی‘‘ تھی جس نے شاردھا چشمے سے اڑہر کا گلدستہ سونگھا تھا ،،اور نام بمہ ساد تھا ، (ساد ) کے معنی ہی سادھو سنت اور درویش کے ہوتے ہیں ۔ ، مورخ لکھتے ہیں کہ بمہ سا د کے مندر میں ۳۶۰ مورتیاں تھیں ۔۳۶۰مورتیاں خانہ کعبہ میں بھی اسلام سے پہلے موجود تھیں جن کی مشرک پوجا کرتے تھے۔ بمہ ساد کے کمالات کا یہ عالم تھا کہ رات کے پچھلے پہر ہی طئے مکان کرکے کشمیر کے پانچ بڑے تیرتھوں سے اشنان کر کے پو پھٹنے سے پہلے واپس اپنی گپھا میں پہنچ جاتے تھے ، شیخ نے انہیں مسلمان کرنے کا تہیہ کیا ، پوری تفصیلات تاریخوں میں ہے ، مختصر یہ کہ دونوں کے درمیان مکالمہ بھی ہوا اور ایک دوسرے نے اپنے کمالات اور روحانی قوتوں کا مظاہرہ بھی کیا جس میں بمہ سادھ کمزور پڑ گئے ، حق پہچانا اور مسلمان ہوئے ، نام بابا بام الدین ہوا ،،، علمدار کے دوسرے خلیفہ حضرت زین الدین ؒ تھے ،جن کا اصل نام زینہ سنگھ ا ور باندر کشتواڈ کے رہنے والے تھے ،،،علمدار کے تیسرے خلیفہ شیخ بابا لطیف الدین تھے ، ان کا اصل نام آدتیہ رینہ تھا ،،، علمدار کے چوتھے خلیفہ بابا نصرالدین تھے اصل نام وُتر ، تھا ،چرار شریف میں شمس العارفین شیخ نورالدین کسی خاص مدت تک نہیں رہے ہیں ، البتہ باغیچہ سنگرام ڈارنا می میں آیا کرتے تھے ، وہ آخری سفر پر روپہ ون ہی میں روانہ ہوئے ، ، آخری ساعتوں میں بابا نصر سامنے تھے ، نصر نے نے پوچھا حضرت کس چیز کی آرزو ہے ، فرمایا ’’حق ‘‘نصر نے پوچھا ، آپ کے سامنے کون حاضر ہے ؟ فرمایا’’ حق ‘‘کس سے باتیں کر رہے ہیں ؟ فرمایا’’ حق ‘‘عرض کیا کوئی شربت پئیں گے ؟فرمایا ساری عمر نہیں پیا تو اب کیا پینا ؟پانی کا ایک گھونٹ پیا ، ’’ حق‘‘ کہا اور روح قفس عنصری سے پرواز کر کرگئی ، روائت ہے کہ شیخ کا تابوت تین دن تک ہوا میں اڑ کر اس جگہ اترا جہاں آپ کا مرقد پاک ہے یعنی چرار شریف ، جو عاشقان اور عقیدت مندوں کے لئے نور و سرور کی آماجگاہ ہے،لل دید کے بعد ہمیں کلام شیخ ہی منظوم ملتا ہے جس سے کشمیری شاعری کی ابتدا اور منظوم قرآن حکیم کی تفسیر بھی سمجھا جاتا ہے،، نشانِ مرد ِ مومن باتو گویم
چوں مرگ آید تبسم بر لب اوست