سبزار احمد بٹ
نازیہ مجھے دیر ہو جائے گی ۔مجھےآفس جانا ہے۔ میرا راستہ چھوڑدو
نہیں ابو میں آج آفسنہیں جانے دوں گی۔ جب تک میرے لئے گڑیا نہیں لاؤ گے۔ بیٹا اگلے ہفتے چھٹی پر آؤں گا تو ضرور لاؤں گا۔ دس بجنے والے ہیں ۔ بیمار میرا انتظار کر رہیں ہونگے۔ ڈاکٹر وسیم اور اس کی بیٹی کے درمیان نوک جھونک ہو رہی تھی۔ نازیہ نے بیمار نام سنتے ہی اپنے والد صاحب کو ڈیوٹی جانے کی اجازت دی۔ ڈاکٹر وسیم نے نازیہ کو گلے سے لگایا اور ڈیوٹی کے لئے نکل گیا۔ ڈیوٹی کے دوران ڈاکٹر وسیم نے ہسپتال کے برامدے میں ایک بوڑھی عورت کو دیکھا اور اس کے ساتھ آٹھ سال کی ایک بیٹی تھی۔ جس کے ہاتھ میں پنسل اور کاپی تھی بال بکھرے ہوئے تھے۔ ہاتھ پیر میلے کچیلے تھے۔ اپنے گردونواح سے جیسے بے خبر سی تھی ۔ بے بس لگ رہی تھی ۔ معصوم چہرہ اور اداس آنکھیں ۔ ایک دو بار نیم طبی عملے کے کہنے پر ڈاکٹر وسیم اس عورت کو دیکھنے گئے اور چند ادویات بھی تجویز کیں۔ آج چوتھے روز جب ڈاکٹر کسی کام سے گزر رہے تھے تو اس عورت پر اچانک سے نظر پڑی۔ پھر اس کو دیکھنے گئے۔ اس عورت سے پوچھا کہ آپ نے دوائی نہیں لی۔ اس کہا نہیں جناب کسی نے لائی نہیں ۔ تمہارے ساتھ کون ہے۔ ڈاکٹر وسیم نے پوچھا۔
کوئی نہیں جناب۔ اس کی ایک پاگل بیٹی ہے جو پنسل کاپی لے کر تصویریں بناتی ہے۔
کسی تیماردار نے دور سے آواز لگائی۔ ڈاکٹر وسیم نے ایک نظر اس لڑکی کو دیکھا۔بیٹا کیا نام ہے آپ کا؟ جناب لوگ مجھے پاگل کہتے ہیں اور میری ماں مجھے پیار سے نجمہ رانی کہتی ہے۔ رانی لفظ سنتے ہی ڈاکٹر کے آس پاس سبھی لوگ زور زور سے ہنسنے لگے۔ ڈاکٹر وسیم ان کی طرف خشمگی نظروں سے دیکھتے ہوئے نیچے بیٹھ گئے۔ نجمہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور بڑے پیار سے پوچھا ۔ بیٹا کون کہتا ہے کہ تم پاگل ہو۔ نجمہ نے پنسل کاپی ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔ سب لوگ ۔ ۔۔اب میں کہیں پر بھی پاگل لفظ سنوں تو چونک پڑتی ہوں ۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی مجھے بلا رہا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔
نجمہ کی معصوم باتیں زہریلے تیر کی طرح ڈاکٹر وسیم کے جگر میں جیسے پیوست ہو گئیں ۔ ڈاکٹر وسیم نیچے بیٹھ گیا ۔ اور نجمہ سے کہنے لگا، بیٹا تمارا باپ کہاں ہے وہ کیوں نہیں آیا آپ کے ساتھ ۔ آپ کی ماں تو بہت بیمار ہے۔ ڈاکٹر صاحب میرے باپ کی وجہ سے ہی میری ماں بیمار ہو گئی ہے ۔
بیٹا وہ کیسے میں سمجھا نہیں ۔ڈاکٹر وسیم نے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کیا۔ ۔۔۔۔۔
جناب وہ میری ماں کو روز مارتا ہے ۔مجھے بھی مارتا ہے۔ میری ماں کے چہرے پر یہ نشان دیکھ رہے ہو۔ ۔ نجمہ نے کاپی اور پنسل اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔ بیٹا کیوں مارتا ہے ۔پتہ نہیں مجھے بھی روز مارتا ہے میں آپ کو کچھ دکھانا چاہتی ہوں دیکھو گے ڈاکٹر صاحب ۔ ۔۔۔۔۔۔
ہاں ہاں بیٹا دکھاؤ کیا دکھانا ہے ۔
نجمہ نے اپنی بازو ڈاکٹر صاحب کو دکھائی ۔ اس کا بازو دکھانا تھا کہ وہاں پر موجود سبھی لوگوں کی چیخیں نکل گئیں زخموں سے رس ٹپک رہا تھا۔ زخم جیسے ناسور بننے لگے تھے۔اس کے جشم پر تشدد کے نشان عیاں تھے ۔کچھ دہر پہلے ہنسنے والے لوگوں کے چہروں پر اداسی چھا گئی۔ اور آنکھوں سے آنسوں ٹپکنے لگے۔ اب ڈاکٹر وسیم زمین پر پوری طرح سے بیٹھ گئے ۔ بیٹے آپ نے ان زخموں کا علاج نہیں کیا۔ سر کون کرے گا علاج ۔میرے پاس تو ماں کے علاج کے لئے پیسے نہیں ہیں۔ تو اپنے زخموں کا کیا کروں گی ۔۔۔بیٹا کیا کوئی تمہاری مدد نہیں کرتا ہے ۔
نہیں سر۔۔لوگوں کو تو مجھے پاگل کہنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔۔۔۔۔ آخر تمہارا باپ مارتا کیوں ہے تمہیں ۔ڈاکٹر صاحب مجھے پتہ نہیں ۔ اللہ اسے سزا دے گا ۔
ہاں بیٹا اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ۔ فیصلہ لفظ سنتے ہی نجمہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ کر کے آنسوں ٹپکنے لگے۔ ہاں ڈاکٹر صاحب لیکن ٹیچر نے اسکول میں کہا کہ فیصلے کے لئے گواہ اور ثبوت کی ضرورت پڑتی ہے ۔گواہ میں خود ہوں کہ میری ماں اور میرے ساتھ کیا ہورہا ہے اور ثبوت اس کاپی میں ہے جو میں اللہ کو دکھاؤں گی ۔کیا ہے اس کاپی میں ۔دکھاؤ مجھے ڈاکٹر وسیم نے نجمہ کے ہاتھ سے کاپی لینے کی کوشش کی ۔
نجمہ چلائی نہیں ہر گز نہیں ۔ اس کاپی میں ثبوت ہیں جس سے میرے باپ کو سزا ملے گی میں یہ کاپی اللہ کے پاس لے جاؤں گی۔ اتنے میں سارا ہسپتال برآمدے میں جمع ہو گیا۔جیسے کوئی سرکس کا جادوگر کرتب دکھا رہا ہو۔۔ سب لوگوں کا تجسس بڑھ گیا کہ آخر اس کاپی میں ہے کیا۔ ڈاکٹر وسیم نے نجمہ سے کہا۔ بیٹا میری بیٹی بھی تمہاری ہی عمر کی ہے۔ بالکل آپ کی طرح ۔ نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب اس کاپی میں میرے باپ کے خلاف سارے ثبوت ہیں جو میں اللہ کو دکھانے جارہی ہوں۔۔ آپ سب کا کیا بھروسہ ثبوت ہی مٹا ڈالو۔ پھر سزا کیسے ملے گی مجرم کو ۔ڈاکٹر وسیم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ سوچنے لگا کہ میری بیٹی بھی اسی عمر کی ہے وہ گڑیا کے لیے مجھ سے لڑ پڑتی ہے اور یہ بیٹی ثبوت اکھٹے کرنے میں لگی ہے۔ بالآخر ڈاکٹر نے نجمہ کے ہاتھ سے کاپی لی اور ورق پلٹنے لگا۔ کاپی پر نجمہ نے ایسی تصویریں بنائی تھی کی سب کی چیخیں نکل گئی۔ کسی تصویر میں اس کا باپ اس کی ماں کے بال کھینچ رہا تھا۔ تو کسی تصویر میں ڈنڈے سے مار رہا تھا۔ کسی تصویر میں اس کا وحشی باپ اس کی ماں کو اپنے دانتوں سے کاٹ رہا تھا ۔ ہر تصویر میں نجمہ سہم گئی تھی۔ایک سے بڑھ کر ایک تصویر بھیانک تھی۔ سب لوگ حیرت سے اس لڑکی کی طرف دیکھنے لگے۔ ابھی تک جس لڑکی کو سب لوگ پاگل سمجھتے تھے وہ سارے لوگ اس کی طرف تعجب سے دیکھ رہے تھے ۔ ۔نجمہ نے ڈاکٹر وسیم کے کندھے پر سر رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ڈاکٹر وسیم بھی رونے گا اور نجمہ کو گلے سے لگایا۔ نجمہ ڈاکٹر وسیم سے کہنے لگی۔ آپ واحد ایسے انسان ہیں جنہوں نے مجھے اس محبت سے بات کی۔ ڈاکٹر صاحب کیا میرے باپ کو سزا ملے گی۔؟ کیا میری ماں ٹھیک ہو جائے گی۔ ڈاکٹر صاحب کیا میری روح پر لگے زخم ٹھیک ہو جائیں گے۔ سب لوگ خاموشی سے سن رہے تھے کیونکہ کسی کےپاس نجمہ کے معصوم سوالوں کا جواب نہیں تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے نجمہ سوال پوچھ کر معاشرے کے منہ پر یکے بعد دیگرے تمانچہمار رہی تھی اور روئے جارہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سبزار احمد بٹ
اویل نور آباد