شمشاد کرالا واری
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کی تخلیقات وقتاً فوقتاً ہفت روزہ ندائے کشمیر میں جگہ پاکر قارئین کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی رہتی ہیں۔ یہ وہی عبدالمجید بھدرواہی ہیں جن کی تخلیقات کے حوالے سے عاصم فریدی صاحب نے رائے دی ہے کہ ”عریانیت اُن کی پہچان ہے۔ اُن کے نفسیاتی افسانے حُسن پرستی اور ہوسناکی کی علامت ہیں”۔ یہ تاثرات میں نے اُنہی کے ”چبھن“ افسانوی مجموعے میں پڑھے ہیں جو کتاب اُس کے ترتیب کار ولی محمد اسیر ؔنے رحمت فرمائی تھی۔ اُدھراسی مجموعے میں کہنہ مشق معروف کہانی کار نورؔ شاہ کی رائے بھی درج ہے کہ ”اُن کی کہانیوں میں زندگی کے مختلف روپ، دکھ سکھ اور احساسات و جذبات کی عکاسی ملتی ہے۔ وہ اپنی بات اشاروں اور علامتوں میں کہنے سے گریز کرتے ہیں۔ معاشرے کو بدلنے کی بات کرتے ہیں“۔ 27مارچ 2022کو جموں میں کے ایل سہگل ہال میں مجھے اپنی کتاب ”کنہ منز نیران گوہرے” کی رسم رونمائی کی تقریب پر اُن کے ساتھ بالمشافحہ ملاقات کا شرف ملا۔ میں نے اُنہیں ایک سادہ لوح، نرم مزاج، شریف النفس اور سنجیدہ شخص کے روپ میں پایا ۔ ایک دم احساس ہوا کہ کسی ادیب یا شاعر کو کوئی لیبل چسپاں کرنا آسان اور پھرثابت کرنا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ مجھےاُن کے ساتھ ملاقات کرنے کا موقعہ بہم ہونے پر خوشی محسوس ہوئی۔ میں نے اُن کی کہانیوں کے مجموعے کو بغور پڑھا اور یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ ڈاکٹر صاحب اُن قلمکاروں کی ڈگر پر نہیں چلتے ہیں جو تخیل کی سطح پر اونچی پرواز کرانے والی کہانیاں بنُنے کے انداز میں محصور کرتے ہیں لیکن آس پاس کی زندگی کے عکس کو اُبھارنے سے قاصر رہتے ہیں بلکہ وہ قاری کو عام فہم الفاظ میں خیالی دنیا سے نکال کر حقیقی زندگی سے متعارف کراتے ہیں۔ بقول خالد ؔ حسین ”وہ افسانہ تفریح قلب کیلئے نہیں بلکہ سماجی اور معاشرتی مسائل کی نشاندہی کیلئے لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی روایت کے پابند، اقدار کے پاسدار، جدید ذہن کے متحرک قلمکار ہیں۔ انہوں نے اُسی ڈگر کو چن لیا ہےجس کو پریمؔ چند نے کھوجا ہے“۔ جو ڈگر اتنا زمانہ گذرنے اور تکنیکی تبدیلیاں آنے کے باوجود بھی متروک نہیں ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے افسانے اپنی شگفتگی اور تازگی کو ہمیشہ برقرار رکھتے ہیں۔ جو ہر دور میں پرھے جائیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ سعادت حسن منٹو کو بھی عبدالمجید بھدرواہی نے خوب پڑھاہوگا لیکن جن سماجی برائیوں کو منٹو نے بڑی بے باکی کے ساتھ بے نقاب کیا ہے لیکن عبدالمجید بھدرواہی کی کہانیوں میں اُن حدوں کو پار کرنے کی جراٴت کابلکہ چھونے کا احساس بھی نہیں ہوتا ہے تو عریانیت اُن کی پہچان ہے کہنے کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ۔ البتہ یہ طے ہے کہ ڈاکٹر صاحب ہپوکریٹ نہیں ہیں جو دیکھتے ہی حسین پیرائے میں بیان کرتے ہیں اور اُس کےلئے کہانی کا دائمی اسلوب بیانیہ ہی اپنایا ہے۔ موجودہ تنقید نگاروں کے سامنے ایک اہم خصوصیت مانی جاتی ہے ۔ حالانکہ جنگ عظیم کے بعد سے بیانیہ کو خارج کرنے کی شعوری کوشش کی گئی تھی اور مغربی افسانوی ادب کی دیکھا دیکھی میں بر صغیر کے فکشن نگاروں نے بھی تفریح طبع کے عنصر کے سامنے بیانیہ کو غیر اہم مانا تھا۔ لیکن اپنے پیش رووٴں کی راہ پر چلتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی نے اپنی کہانیوں کو باسی بننے سے بچا لیا ہے کیونکہ ہمیشہ بیانیہ ہی سماج اور معاشرہ کی نمائندگی کرنے والے اپنے آس پاس میں گھومنے پھرنے والے متحرک کرداروں کو پیش کرنے والی کہانیوں کو اوصاف سے پر مانا گیا ہے۔ جو کرداروں کے تمام منفی اور مثبت رویوں کی نشاندہی کرکے قاری کو اپنی زندگی کے قریبی معاملات کا احساس دلاتے ہیں۔ یہی اسلوب چونکا دینی والی حقیقتوں کے اظہار کی خصوصیات کی معرفت سے ہمارے اذہاں پر نقوش ثبت کرتا ہے۔ بھدرواہی نے کسی طوالت کے بغیر کہانی کے کرداروں کے عمل سے تیز رفتار بیانیہ کو اس طرح مربوط کردیا ہےکہ و ہ جھٹکا دینے والا پلاٹ مفہوم کے اعتبار سے قاری کو کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ دراصل میں ان تخلیقات کو بیانیہ کا نام ہی دینا چاہتا ہوں لیکن افسانے کے ارتقا اور بیانیہ کی اہمیت سے ناواقف لوگ غلط فہمی کا شکار ہونگے۔ کیونکہ اُنہیں معلوم نہیں ہوگا کہ بیانیہ کہتے ہوئے بھی یہ کہانیاں افسانے کے زمرے میں ہی آئیں گی۔ فرق صرف اتنا ہے کہ افسانوں کیلئے قیود و ضوابط کا پابند رہنا لازمی ہے جبکہ بیانی اسلوب کے لئے وہ قید نہیں ہے کیونکہ یہ زندگی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اور وہ زندگی ہی کیا جو کسی قید میں گُذاری جائے۔
دراصل بیانیہ یا قصہ ہی مختصر سے مختصر صورت پاکر افسانہ کہا گیا ہے جس میں کرداروں کی تعداد زیادہ نہ ہوں لیکن بیان محصورکن ہو جو اپنی دلچسپی کے باعث قاری یا سامع کو کچھ دیر کےلئے اپنے ارد گرد سے لا تعلق کرکے اپنی طرف ہمہ تن گوش کرے۔ تھوڑی دیر کے لئے پڑھنے والے اسی جادوئی اثر کی وجہ سے بیانیہ کو افسانہ کہا گیا ورنہ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو نام ہیں۔ افسانوی ادب میں ابتدا سے ہی جھوٹ کی آمیزش نہیں تھی بلکہ غیر معمولی واقعات اور افراد کی غیر معمولی طاقت و اصاف کو لوگوں میں جوش پیدا کرنے کیلئے بیان کیا جاتا تھا تاکہ پرھنے سننے والوں کو کوئی سیکھ ملتی۔ بعد میں تبدیلیاں لائی گئیں اور تخیل میں کہانیاں خلق کیں گئیں۔ اب لغت کے اعتبار سے جو معنیٰ افسانے کو دئے گئے ہیں اُس کے پیش نظر چبھن میں شامل 65کہانیوں میں سے 18کہانیاں موضوعات کے لحاظ سے افسانے کے زمرے میں ڈالنے کی گنجائش ہی نہیں ہے مثلاً ”جنت کا حقدار“، ’’حیی الصلواۃ‘‘ ، ”تعمیر مسجد“، ”نگاہ مرد مومن“، ”بے کار نہیں جاتی آہ سحرگاہی“، ”تحقیق سنت ہے“، “فیصلے قدرت کے“، ”بسم اللہ کی برکت“، ”ماں کا آنچل“ اسی قبیل کے دیگر چند موضوعات لیکن مطالعے کے بعد قاری مصنف کے ٹریٹمنٹ کو داد دیئے بغیر نہیں رہتاہے۔ اور واضح ہوتا ہے کہ نور ؔشاہ، خالدؔ حسین ، منشورؔ بانہالی، ش م احمد، شاد فرید آبادی، محمد اسداللہ وانی، دھرم کانت، ولی محمد اسیرؔجیسے قلمکار کیونکر عبدالمجید بھدرواہی کے فن افسانہ کو داد دیئے بغیر نہیں رہے ہیں اورکوئی حرف گیری نہیں کرتے ہیں کیونکہ اُنہیں بیانیہ کی وُسعت اور افسانے کے ارتقا کا علم ہے۔ البتہ ”آپ بیتی“ کو کس بنا پر افسانوں میں شامل کیا گیا ہے میری سمجھ سے باہر ہے۔ نباض سے قلمکار تک جو نوشتہ بھدرواہی صاحب کا شاملِ کتاب کیا گیا ہے اُسی عنوان میں آپ بیتی کو بھی سمونا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیاجوترتیب کار کی سہو ہوسکتی ہے۔
خیر ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کی کہانیاں تصنع کے بغیر لیکن علامتوں اور استعاروں کے حسین امتزاج سے مُزین ہیں جو کسی بھی تخلیق ساز کے لئے لازمی آرائش کے وسیلے ہیں۔ بیانیہ مختصر افسانہ کی بافت میں اپنائے گئے اسلوب میں سے ایک ہے جس کے رابطہ میں ابتدا سے لیکر اختتام تک موجودہ زمانے کی موٹرویز کی طرح کوئی موڑدکھنے کو نہیں ملتا ہے لیکن منزل طے ہوتی ہے۔ منزل پر پہنچنا ہی تو مقصد ہے۔ افسانے کی ڈگر اس پر چلنے کیلئے بھی واقعہ اور واقفیت لازمی ہے تاکہ بیانیہ واضح ہوجائے۔ یہ تو ہوگئے افسانے کے اصطلاحی معنیٰ جبکہ لغت کے معنی کے مطابق تخلیق کئے جانے والے افسانے زیادہ تر بالواسطہ بیان کئے جاتے ہیں۔ اگر سچ مانیں تو افسانے میں رونما شدہ تبدیلیوں کے پیش نظر کسی ایک ڈیفینیشن کا بیان ہونا مشکل سا بن گیا ہے کیونکہ اس میں نئے نئے تجربات ہر وقت کئے جاتے ہیں۔ اب تک تو افسانے اور شاعری میں نثرو نظم ہونے کا بنیادی فرق بھی مٹنے لگا ہے۔جس طرح سے شاعری میں نثرنے قدم جمائے اُسی طرح سے ایسے افسانے وجود پاچکے ہیں جو شاعرانہ تخلیق کے برابر ہوتے ہیں۔ عبدالمجید بھدرواہی کے بیانیہ اسلوب کو دیکھتے پرکھتے ہوئے اصطلاحی اعتبار سے بیانیہ اسلوب کی روایت کو برقرار رکھنا دل کو چھولیتا ہے ۔ ان میں جھوٹ اور تخیلی پرواز کے معجزاتی اٹھان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ہے جس میں بیچارہ سچ دب کر رہ جائے۔ یہ بیانیہ اسلوب دیکھتے کتنا خوبصورت اور فکر انگریز ہے۔
’’میت بیڈ پر پڑی ہوئی تھی۔ اس کا رنگ پیلا گال پچکے ہوئے اور ہونٹ زرد تھے۔ اُس کی دونوں آنکھیں اندر کی طرف سے دھنسی ہوئیں۔ اُس کی بائیں آنکھ سے آنسو ڈھلک کر موتی کی طرح اس کے گال پر اٹکا تھا“(خواب اور آنسو)
بیانیہ اسلوب کے افسانوں میں اہمیت حقیقت کو دی جاتی ہے جو ایک عمل کارگذاری یا واقعے کی نسبت سے بیان کی جاتی ہو جس میں جھوٹ کی آمیزش نہ ہو۔ اور دوسری اہم خصوصیت جوان افسانوں میں نمایاں ہے وہ ہے ڈائیلاگ لگ بھگ نہ ہونے کے برابر ہونا اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ انداز بیان انسانی معاشرے کے ارتقا اور پھیلاوٴ کے ساتھ بدلتا رہا اور اُسی بدلاوٴ کا آخری پڑاوٴموجودہ مختصر افسانہ ہے۔ سارے ارتقائی منازل میں کسی بھی قسم کے افسانے میں جو چیز نہیں بدلی وہ ہے بیان اگر بدلا تو فقط انداز ِبیان بدلا۔عبدالمجید بھدرواہی کی کہانیوں کی زبان میں مقامی رنگ بھی ان کو دلچسپ بنادیتاہے۔
خیر! قصہ مختصر شادی کی تقریب بڑی خوش اسلوبی سے اسلامی طریقے سے اختتام پذیر ہوئی۔ شادی کے دن امتیاز کے والد صاحب کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی۔ ڈاکٹر وں نے کہا کہ ان کو پہلے ہی فشار خون اور ذیبابطیس کا عارضہ تھا اور پھر شادی کے دنوں میں لاپرواہی بھی ہوئی۔ اس وجہ سے سے ان کی صحت بہت زیادہ متاثر ہوئی۔
ان کی اس بیماری کے دوران نائلہ نے اپنے سسُر کی انتہائی خدمت کرتے ہوئے دن رات گھر میں اور ہسپتال میں اچھی طرح تیمارداری کی۔
اس کا سسر یہ سب کچھ دیکھ کر شرمسار ہوتا تھا۔ وہ اکثر سوچتا کہ اُس نے یہ رشتہ کیوں اتنی دیر لٹکا رکھا۔( وعدہ وفا کرنا قرض اور نبھانا فرض ہے)
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی اپنے ماحول اپنے لوگوں کے ساتھ ترقی کے ہر پڑاوٴ پرجڑے ہوئے لگتے ہیں۔ انہوں نے لوگوں کی نفسیات کو جانچنے پرکھنے کا گر سیکھا ہوا ہے۔ جو کچھ دیکھتا ہے اُس کو نوک قلم سے کاغذ پر تحریر کرتا گیا اردو میں مقامی رنگ چھلکنا ان تحریروں کو اور دلچسپ بنادیتا ہے۔ ”جب میں نے یہ خوشخبری رابعہ کو سنائی تو وہ بھی بہت خوش ہوگئی“۔ ’’میرے میاں کے۔ ایک دوست تھے جو روزانہ نظر دینے آتے تھے۔(جنت کا حقدار) ”قریباً دو گھنٹے کے بعد واپس آئے۔ اُس نے پیچھے واپس چھوڑا۔ (نزع سے پہلے)
ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی فطرتاً ایک خوشگوار سیدھی سادھی مذہبی اقدار کی پاسدار، انسانی اصولوں کی پابند، اصلاح معاشرہ کی تمنا رکھنے والی شخصیت کے مالک ہیں جو قابل مطالعہ ہے ہاں یہ بات صحیح ہے کہ کئی کہانیوں کے عنوانات لمبے ہیں مثلاً ’’اجنبی بن جائیں ہم دونوں“ ، ”چلو اک بار پھر سے‘‘ ،وعدہ کرنا قرض اور نبھانا فرض‘‘ اور بھی کئی ایسے لمبے عنوانات ہیں۔ کئی عنوانات سے لگتا ہے کہ کسی موضوع پر تبلیغ کرنا چاہتے ہیں لیکن کہانی خوبصورتی کے ساتھ بیانیہ کا روپ اختیار کرتی ہے۔ اور مطالعے کو کافی دلچسپ بنا دیتی ہے۔ اسی وجہ سے مذہبی یا تبلیغی موضوعات میں بھی بیانیہ کی خاصیت کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو مبلغ ہونے سے بچا کر افسانہ نگار کے روپ میں ہی پیش کیا ہے ۔ اور دودھاری تلوار پر چلتے ہوئے سروخروئی حاصل کی ہے۔ یہی بیانیہ کی خوبی ہے کہ اس میں راہیں متعدد اور فضائیں وسیع ہیں۔ اپنی تھوڑی سی مہارت سے بیانیہ کے اسلوب میں کسی بھی موضوع کو افسانہ بنا سکتے ہیں۔ وہ مہارت ڈاکٹر عبدالمجید وانی کے پاس ہے جو بیانیہ کو خوبصورت اور دلچسپ بنا دیتی ہے۔ مثلاً نگاہ مرد مومن۔ افسانے میں چار کردار وں کی ملاقات حرم پاک میں مقام ابراہیم پر زم زم نل تک جانے کےدوران میں ہوئی ہے۔ ایک عورت شادی کے نو سال گذرنے کے باوجود بچے کو جنم نہ دے پانے کی وجہ سے مشکل میں ہے اس کی ساس اس کا جینا حرام بنا دیتی ہے۔ دوسری دوشیزہ کو اپنی پسند کے خلاف کسی شادی شدہ شخص کے ساتھ نکاح کرنے کیلئے مجبور کیا جاتاہے۔ اُن کی ملاقات جموں کے ایک اور زائر کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ دونوں عورتیں شہر فیصل آباد کی رہنے والی ہونے کے باوجود اجنبی ہوتی ہیں۔ دونوں عورتیں ایک شادی شدہ (شبینہ) دوسری غیر شادی شدہ (رابعہ) جموں کے زائر کی معرفت سے چوتھے کردارجو ”چہرے بشرے سے ہی ایک خدا رسیدہ لگتے ہیں کے سامنے اپنی اپنی بپتا رکھتے ہوئے دعا کی درخواست کرتے ہیں۔ وہ بزرگ شبینہ سے پوچھتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے وہ پرس ٹٹول کر چند کھجوریں اور بادام نکالتی ہے۔ بزرگ کھجوریں لے کر اُن پر چند کلمات پڑھ کر دم کرتا ہے۔ اور واپس شبینہ کو دیتا ہے۔ رابعہ کو مایوسی ہوتی ہے کہ بزرگ نے بس شبینہ کو تبرک دیا۔ بزرگ باطنی طاقت سے بھانپ کر رابعہ سے کہتا ہے کہ یہ کھجوریں کھائیں گی تو آپ دونوں کی پریشانیاں رفع ہوجائیں گی۔ انشا اللہ“
اپنے اپنے ملک جاکر تینوں کا ٹیلی فون پر رابط رہتا ہے ایک دن شبینہ لڑکے کو جنم دینے کی خوشخبری سناتی ہے۔ وہ رابعہ کو یہ خوشخبری سناتا ہے۔ وہ بھی مچلتے ہوئے کہتی ہے کہ میں بھی خوشخبری سنانا چاہتی ہوں۔ جہاں میری والدہ میری شادی کرنے کا سوچ رہی تھی انہوں نے اُدھر سے ہی نہ کردی“۔
کچھ کہے بغیر ہی کہانی کا افسانہ پن بزبان حال معلوم پڑتا ہے۔ ایسا بیانیہ فن پارے کو متحرک بنا کر جاودانی عطا کرتا ہے۔ اور دورانیہ کے بدلاوٴ کے باوجود صالحانہ اپیل ہر کسی کو موہ لیتی ہے۔ شاعری ہو یا نثری بیانیہ تخلیق کالازمی جز وہے۔ ”بے کار نہیں جاتی آہ سحر گامی“، ” کھلتا گلاب“، ”بھول کسی کی سزا کسی کو“،تخلیقات سے پتہ چلتا ہے کہ مصنف نے کس خوبی کے ساتھ قدیم اور جدید کا امتزاج دکھایا ہے۔
مجھے حیرت ہوئی کہ ”افسوس پھرطلاق ہوئی“، ”چلو پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں“ اور “ایکسچینج آفر“ میں گھریلو جھگڑوں اور تناوٴ اور رشتہ ٹوٹ جانے کا ذمہ دار فقط عورتوں کو ہی گردانا ہے جبکہ ان دنوں حالات اس کے برعکس نظر آتے ہیں اور گھرلائی بہو کے ساتھ ناروا سلوک برتے جانے کی دلیلیں متواتر سننے کو ملتی ہیں اور اس میں یہ تمیز بھی باقی نہیں رکھی جاتی ہے کہ بعض معاملات میں لڑکیاں لڑکوں سے بھی زیادہ بڑے عہدوں پر فائض ہوتی ہیں۔ یا کم سے کم لڑکوں کے برابر پھر بھی اُن پر دھونس اور دباوٴ ڈالا جاتا ہے۔ مردوں کے اس معاشرے میں ماضی قریب کی طرح ہمارا سماج رسوم و رواج کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے اور عورتوں کی اکثریت روحانی اور جسمانی قیود کا شکار ہو کرایک طرح کی مفلوج زندگی گذار رہی ہیں جن پر ہر طرح سے استحصال کیاجاتا ہے جیسا کہ ”یہ آنسوں دل کی زبان میں“ ایسی مظلومیت کا ذکر بھی آیا ہے لیکن مدھم طریقے سے۔
اور ہاں جیساکہ ”خون اور آنسو“افسانے میں اپنی بیوی کی محبت میں سرشار کردار سے ایک تعارف نہایت ہی جذباتی انداز میں کرایا ہےکیامصنف نے کوئی ستم رسیدہ خاتون اور دل و جان سے اپنے خاوند کو چاہنے والی کسی خاتون کو زندگی بھر نہیں دیکھا ہے۔ یہ اس وجہ سے لکھنا پڑا کہ مصنف اپنے عہد کے کچلے ہوئے استحصال زدہ انسان کی بات کرنے کیلئے لکھتے ہیں۔ وہ خواب کی حقیقت سے ہٹ کر متحرک زندگی کو چن لیتے ہیں وہ جب گھر میں ایک بزرگ کی حیثیت سے نو عمر پوتے کواس کی محبت میں اس کاساتھ دیتے ہیں اوراپنی روشن دماغی دکھاتے ہیں کیسے ہوسکتا ہے کہ جو ستم صنفِ نازک کو ان دنوں جھیلنے پڑتے ہیں اُس کی بھنک تک نہ لگی ہو۔ تخلیقی ادب میں پیش شدہ بیانیہ چاہے شاعری میں ہو یا نثر میں وقت گذرنے کے باوجود بھی ہر زمانے کی بات لگتا ہے او اس کی جاودانی میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ مبہم ہونے کے بجائے یہ بیانیہ زندگی کے ساتھ تعبیر کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں وقت کی اہمیت کو ترجیح دی جاتی ہے اور جو وقت کی نبض کو بھانپنے کی صورت میں ہی در آتی ہے کیونکہ بیانیہ مصنف کی نہایت ہی صاف گوئی سے بیان شدہ تخلیق ہوتی ہے جو زندگی کی باریکیوں کو اُجاگر کرتی ہیں اسی بنا پر بیانیہ اسلوب میں آزاد فضاوٴں میں زمین تا آسمان کمند لگانے کی کھلی چھوٹ ہے اس میں اچھائی اور سچائی ہوتی ہے۔ یہ قصے اور کہانیاں دراصل زندگی کے گر سیکھنے کا درس دیتی ہیں۔ یونہی تو بیانیہ اسلوب کو زیادہ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ہے امید ہے کہ ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی کی اگلی کہانیوں میں ایسے پلاٹ بھی باندھے ہونگے جو ہماری معاشرتی زندگی کے گھپ اندھیروں میں جھانک کر ہماری اصل شکل و صورت اور ہمارے کردار و عمل پرمزید بات کرتے ہوں ۔مختصریہ کہ ”چبھن“ اور اخبار و رسائل کی معرفت سے جو بھی کہانیاں پڑھنے کو ملتی ہیں وہ قابل داد ہے۔
یہ کہانیاں پڑھنے میں دشواری پیش آئیگی اگر فراق گورکھپوری کے اس شعر کو ذہن میں نہیں رکھیں گے
اسی کھنڈر میں کہیں کچھ دئیے ہیں ٹوٹے ہوئے
انہی سے کام چلاو بڑی اداس ہے رات