تبسّم سلطانہ زیدی
عرب کی اس سر زمین پر جہاں فتنا و فساد ، جہالت جیسی برائیاں برسوں سے پل رہی تھیں، وہاں سرورکائینات ، خاتم الانبیاء محمد مصطفی ؐ کی پیدائش ہوئی۔ آپ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی اولاد میں سے خاندانِ بنی ہاشم سے جناب عبدالمطلب کے پوتے اورجناب عبداللہ کے فرزند تھے۔آپ کی والدہ کا نام جناب آمنہ تھا۔ آپ کی ولادت ۰ ۵۷ئ میں جمہ کے دن ماہ ربیع ا لاول میں حجاز ، سر زمینِ مکہّ میں ہوئی ۔ آپ کے والد کا انتقال ہو جانے کی وجہ سے آ پ کی پرورش آپکے چچا جنابِ ابو طالب نے کی۔ پچّیس سال کی عمر میں آپ نے جنابِ خدیجہ کے اموالِ تجارت لیکر شام کا سفر کیا۔ تجارت کی یہ مہم اتنی کامیابی کے ساتھ انجام پا ئی کہ جنابِ خدیجہ کو اس سال دوگنا نفع ہوا۔آپ کے محاسن اخلاق ، امانت داری اور بلندی ذات و صفا ت کا جنابِ خدیجہ کے دل پر گہرا اثر ہوا ۔اس کے بعد آپکی شادی جنابِ خدیجہ سے ہوگئی۔جنابِ خدیجہ آپؐ سے عمر میں کافی بڑی تھیں۔چالیس برس کی عمر میں ۲۷ رجب کو تبلیغِ رسالت کے فریضہ پر مامور ہوئے اور عملی طور پر خداوندی پیغام کے حامل قرار پائے۔آپؐ نے بحیثیت رسول اپنے پیغام کو سب سے پہلے اپنی رفیق حیات جناب خدیجہ تک پہنچایا جس پر وہ سچیّ دل سے ایمان لائیں اور اپنی دولت کا بڑا حصّہ اسلام کی تبلیغ پر صرف کیا۔حضرت علی ؑ ابنِ ابی طالب آپ کے دعوٰیٔ رسالت کے پہلے گواہ بنے۔دنیا کی سب سے معتبر اور افضل کتاب قرآن مجید حضرت جبرائیل کے ذریعہ آپ ﷺ پر نازل ہوئی۔مکہّ میں قریش آپکی ایزا رسانی پر آمادہ تھے ، یہاں تک کہ آپ کی جان کے دشمن ہو گئے ا ور اُن مسلمانوں کو بھی تکلیف پہنچانے لگے جنہوں نے رسالتِ پیغمبر پر ایمان قبول کیا تھا۔ آخر رسول اللہؐ نے ان مسلمانوں کو یثرب جانے کی اجازت دیدی اور رفتہ رفتہ مسلمان مکہّ سے چلے گئے۔آپ اپنے بستر پر حضرت علی ؑ کو لٹاکر خود مکہّ چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے۔اس اہم واقع کو ہجرت کہا گیا اور اسی سے مسلمانوں کے ہجری سال کی ابتدا ہوئی۔ جب قریش کو معلوم ہوا کہ رسول بخیرو خوبی مدینہ پہنچ گئے ہیںاور اسلام دن بہ دن ترقی کر رہا ہے تو وہ مدینہ کے یہودیوں سے مل کر سازشیں کرنے لگے کہ اس بڑھتی ہوئی طاقت کو کچل دیا جائے جسکے نتیجہ میںمشرکینِ قریش اور یہودیوں سے بہت سی جنگیں لڑنا پڑیں جن کی کل تعداد تقریباً ۶۲ ہے ۔ ہجرت کے چھٹے سال حضرتؐ نے حج کے ارادہے سے مکہّ معظمہ کا سفر کیا تو قریش نے رسولؐ کی آمد کی اطلاع پاکر مکہّ سے باہر نکل کر رسولؐ کا راستہ روک لیا اور کہا کہ ہم آپ کو شہر مکہّ میں داخل نہیں ہونے دینگے۔مکہّ والوں کا یہ جارحانہ اقدام دیکھکر رسولؐ نے امن کی خاطر ان کے ساتھ تحریری صلح کی اور بغیر حج کئے مدینہ واپس آگئے۔بعد میں مکہّ والوں نے اس صلح نامہ پر بھی عمل نہیں کیا۔۱۱ ھ میں حضرتؐ نے اپنی زندگی کا آخری حج کیا اور واپسی پر ہزاروں مسلمانوں کے مجمع میں غدیر کے میدان میں تاریخی خطبہ ارشاد فرمایا اور حضرت علی ؑ کو مجمع کے سامنے بلند کرکے فرمایا کہ ’جس کا میں مولا اسکے یہ علی مولا، ۔مدینہ واپس آنے کے کچھ عرصے بعد آپؐ بیمار ہوئے اور چند روز بعد ۱۱ھ میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اس جہانِ فانی سے رحلت فرمائی۔
رسول اللہؐ کی ذاتِ گرامی مجسم طہارت تھی جس میں علوئے فکر اور پاکیزہ نفسی اپنے انتہائے کمال پر پائی جاتی تھی۔ ایسے معاشرے میں جہاں ظلم و جور کی سیاہ آندھیاں ہر سمت چھائی ہوئی تھیں، بربریت انسانیت پر مکمل تسلط کر چکی تھی، فسق و فجور کے ہاتھوں تہذیب و تمدّن کا گریبان تار تار کیا جا رہا تھا، اللہ نے پیغمبرِ اکرم محمد مصطفی ؐ کو ’ رحمت للعالمین‘ یعنی تمام عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔ آپؐ نے عرب کی اس سر زمین کو جس میں بغض و عناد، مکر و فریب، فتنہ و شر جہل و تعصب مدّتوں سے پل رہے تھے، ان غلاظتوں سے پاک کر دیا۔
انہوں نے عرب کی سرزمین کو طہارت و فکر و عمل بخشی۔ انہوں نے وہ بلند اقدار پیش کئے جو لوگوں کو تاریکی سے روشنی میں لے آئیں۔جو بلند اور بہتر مقصدِ حیات اور نظریہ زندگی اسلام نے پیش کیا اسکا مکمل نمونہ ہمیں محمد مصطفی ؐ کی ذات میں ملتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کی ساری تعلیم کا نچوڑ آپ ؐ کی سیرت اور زندگی میں ملتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آپؐ ا نسانِ کامل تھے اور بہت سی لاثانی صفات کا اجتماع آپؐ کی ذات میں تھا۔ رسولِ کریم نے دورِ جاہلیت کی اقدار کی جگہ نئی قدروں کی بنیاد ڈالی۔ آپ نے اس پر بہت زور دیا کہ ا سلام کی تعلیم کا سب سے اہم اصول مساوات ہے۔ دنیا میں سب انسان برابر ہیں ۔ رنگ، قوم، نسل، دولت، جاہ و حشمت، اقتدار اور حکومت کی بنا پر ایک انسان کو دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔جو شخص فرائضِ انسانی سب سے زیادہ انجام دے رہا ہے ا ور متقّی، خدا پرست، اور دین دار ہے وہ سب سے افضل ہے۔ بزرگی اور فضیلت کا معیار آپؐ نے تقویٰ کو قرار دیا ۔ اس وقت جب سماج نے عورت سے روئے زمین پر سانس لینے کا حق بھی چھین رکھا تھا، آپ نے خواتین کو انکا جائز حق دلایا اور ارشاد فرمایا’ عورت بھی اللہ کی ایسی ہی مخلوق ہے جیسے مرد ،اور اللہؒ کی جانب سے اسکو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو مردوں کو۔عورت کی عظمت کا اعتراف انہوں نے اس سے کرایا کہ ’ ماں کے قدموں کے نیچے جنّت ہے‘۔انہوں نے اپنی بیٹی سیّدہ فاطمہ زہرا ؒکے استقبال میں کھڑے ہوکر عورت کی عظمت و مرتبہ کی مثال دنیا کے سامنے رکھی۔اس طرح آپ کی ذاتِ گرامی خواتین کے لئے بھی باعثِ رحمت بنی۔ دوسری اہم چیز جو آپؐ کی ذاتِ اقدس میں ملتی ہے وہ صداقت ہے۔ رسولِ کریم نے عرب میں ایک ایسا نظامِ زندگی پیش کیا جو عدل ، مساوات اور صداقت کی اعلیٰ اقدار کا حامل تھا۔رسولِ کریم کی ذاتِ اقدس انفرادی اور اجتماعی صداقت کی مکمل مثال تھی۔بعثت سے پہلے ہی رسول ؐ امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے اور بعثت کے بعد بھی۔مکہ میں بھی بڑے سے بڑے دشمن نے آ پؐ کی ا مانت پر کبھی شک نہیں کیا۔یہاں تک کہ وہ اپنی قیمتی اشیاء حضوؐرکے پاس امانت کے طور پر رکھواتے تھے۔آپ ؐ کاپیغام نفرت کو دور کرنا اور محبت و اخوت کو پھیلانا تھا۔ آپ ؐ نے نہ صرف اچھے اخلاق کی تعلیم دی بلکہ عملی طور پر اچھے اخلاق کا مظاہرہ بھی کیا ۔جس راستہ سے حضورؐ تشریف لے جاتے تھے وہاں راستہ میں ایک ضعیفہ اپنے گھر سے حضوؐر پر کوڑا پھینکتی تھی۔ ایک دن حضورؐ پر کوڑا نہیں ڈالا گیا تو انہوں نے اس عورت کے بارے میں لوگوں سے دریافت کیا۔معلوم ہوا کہ وہ عورت بیمار ہے۔ آپؐ اسکی عیادت کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئے۔ انُ کا یہ اخلاق دیکھ کر وہ عورت بہت شرمندہ ہوئی اور اسنے اسلام قبول کر لیا۔اسی طرح ایک بار ایک بوڑھی عورت، جومسلمان نہیں تھی ، کنویں سے پانی بھر کر چلی تو پانی کی مشک بھاری ہونے کی وجہ سے وہ اسے اٹھا نہیںپا رہی تھی۔ اسکے اپنی قوم کے افرد بھی اسکی مدد کو آگے نہیں آئے۔ رسول اللہ ؐ ادھر سے گزر رہے تھے۔انہوں نے اسکی مشک اٹھائی اور اسے اسکے گھر تک پہنچایا۔جب حضور واپس جانے لگے تو وہ عورت بولی’ تم ایک اچھے اور ہمدرد انسان ہو اسلئے میں تمہیں ایک نصیحت کرتی ہوں۔ مکہّ میں محمد نام کا ایک جادوگر ہے جو لوگوں کو جادو سے اپنا ہم خیال بنا کر اپنے دین کی طرف راغب کرتا ہے۔ تم اس شخص سے دور رہنا۔حضورؐ خاموش رہے۔ جب چلنے لگے تو اس عورت نے آپؐ سے نام پوچھا۔حضوؐر نے جب اپنا نام بتایا تو وہ عورت بہت نادم ہوئی اور کہنے لگی کہ اب میری سمجھ میں آیا کہ تمہارے پاس کونسا جادو ہے۔ یہ کہکر وہ مسلمان ہو گئی ۔تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جن سے رسولؐ اکرم کی ۔
محبت، ہمدردی اور اخلاق کامظاہرہ ہوتا ہے۔اسی طرح فتح مکہّ کے بعد ۸ھ میں جب آپؐ مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کا رحم و کرم دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا ۔ آپؐ نے ان تمام لوگوں کی خطائیں معاف کر دیں جن سے آپ کو بعثت کے بعد مکہّ میں سخت تکلیفیں پہنچی تھیں۔جنہوں نے آپ کے ساتھ بدسلوکی کی تھی اور آپکے لئے مشکلیں پیدا کیںتھیں۔ کونسی ایسی تکلیف تھی جو آپ ؐ کو نہیں دی گئی۔یہاں تک کہ آپؐ کو اپنا وطنِ عزیز چھوڑ کر ہجرت کر نا پڑی تھی۔فتح مکہّ کے موقع پر جب لوگ آپ کی بیعت کر رہے تھے تو آپؐ نے ان سے پوچھا کہ بتاؤ تم مجھ سے کیا امیّد رکھتے ہو۔سب نے جواب دیا کہ ہمیں اچھائی ہی کی امیّد ہے، آپ فیّاض بھائی ہیں۔ آپؐ نے فرمایاجاؤ تم سب آزاد ہو۔ آپؐ نے ابو سفیان کو ،ا س کی بیوی ہندہ کو ،جس نے حضرت حمزہؑ کی شہادت کے بعد انکا کلیجہ چبایا تھا، اس وحشی کو جس نے حضرت حمزہؑ کو شہید کیا تھا اور ایسے ہی بہت سے اشخاص کو جنہوں نے سخت ایذائیں پہنچائی تھیں، بغیر کسی شرط کے معاف کر دیا اور آپؐ نے سب کی جان بخش دی۔رحمت للعالمین نے اپنے رحم و کرم اور وسعتِ قلب کی وہ شان دکھائی کہ سب حیرت سے انگشت بدنداں رہ گئے۔ آپؐ کا یہ کردار امن پسندی کی ہی بہترین مثال نہیں بلکہ رحمتِ مجسّم ہونے کا بھی ثبوت ہے۔
آج جب دنیا پر فساد، جنگ، نفرت ، اور دہشت گردی کے بادل چھائے ہوئے ہیں، ہمیں اس موقع پر یہ سوچنا ہے کہ پیغمبرِ اسلام نے انسانیت کے لئے سب سے بڑا نظریہ کیا پیش کیا؟ ان کا پیغام نفرت کو دور کرکے محبت اور اخوت کو پھیلانا ہے، جس پر عمل کرکے ہی دنیا امن اور ترّقی کے راستہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔