مسلسل غزل
غلام حسن انظر
کون یہ تانے ہوئے تلوار ہیں دونوں طرف
کس کی شہہ پر برسر پیکار ہیں دونوںطرف
سر پھرے کچھ در پئے آزاد ہیں دونوں طرف
ورنہ سب ٹکرائو سے بیزار ہیں دونوں طرف
عام انسان قتل ناحق کا بھلا حامی ہو کیوں
خوش فقط گنتی کے کچھ خونخوار ہیں دونوں طرف
موت کا یہ رقص کیوں ہے لازمی ان کیلئے؟
کن اصولوں کے علمبردار ہیں دونوں طرف
آگ میں گھی ڈالنا محبوب ان کا مشغلہ
ایک سے سب قوم کے غم خوار ہیں دونوں طرف
اب توقع امن کے ان قاصدوں سے بھی نہیں
تاجروں کے جابجا بازار ہیں دونوں طرف
سرحدوں پر شوق سے مرتا نہیں انظر کوئی
سب کے سب مجبور ہیں نادار ہیں دونوں طرف