بابا مرتضیٰ رے کاپرنوی۔۔۔۔فون نمبر: 7889379873
میرا کیا قصور ہے! جو آپ اس اخروٹ کے درخت کو کاٹنے جارہے ہو۔سنئے ذرا سنئے! میرا یہی ایک ذریعہ ہے جس سے میں زندگی کے آخری ایام گزار رہی ہوں۔ بیوہ حاجرہ تحصیل دار صاحب سے مخاطب ہوکر مخلصانہ گزارش کر رہی ہے کہ میرا یہ اخروٹ کا درخت نہ کاٹا جائے۔صرف یہی ایک درخت میری آمدن کا ذریعہ ہے۔مجھے پہلے ہی سماج کے مہذب لوگوں نے الگ تھلگ چھوڑ رکھا ہے اب اگر أپ اور أپ کا سرکاری ٹولہ مجھ سے یہ ذریعہ بھی چھین لے گا تو أپ مجھے در در کی ٹھوکریں کھانے اور مانگنے پر مجبور کرے گی۔
بیوہ حاجرہ بیگم کی باتیں تحصیل دار صاحب اور انکے ساتھ آئے ماتحتوں کا دل چھلنی کر رہے تھے۔مگر دل پر پتھر رکھکر۔ مجبور اور لاچار ہوکر کسی طرح وہ اپنا دیاگیا کام کسی شور و غل اور ہنگامے کے بغیر سلجھانا چاہتے تھے۔ قانون کے بڑے بڑے حوالے دے کر بیوہ حاجرہ کو متفق اور مطمین کرنا چاہتے تھے۔
مگر لاچار عورت منت اور سماجت کرتی رہی کہ یہ اخروٹ کا درخت میرا آج بھی ہے اور میرا آنے والاامید کا کل بھی۔ برائے کرم آپ اس سے نہ کاٹ لیجئے گا۔ تحصیل دار صاحب شش و پنج میں پڑگئے کہ کیا کروں۔ ادھر ادھر ٹہل کر من ہی من میں سوچنے لگا کہ ہاتھ میں لئے گئے کام کو پائے تکمیل تک پہنچادوں یا لاچار بیوہ عورت کی امید کو زندہ رکھوں۔ خیال یہ آیا کہ کیوں نہ گائوں کے مکھیا سے عورت کی تفصیلی جانکاری لی جائے۔ گائوں کا مکھیا پیش ہوا اور تحصیل دار صاحب مکھیہ کو ایک طرف لے جاکر پوچھنے لگے کہ یہ عورت جو ہمیں اس اخروٹ کے درخت کو کاٹنے سے روک رہی ہے کیا یہ سچ مچ میں بیوہ ہے؟ کیا اس کے پاس واقعی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں ہے؟ کیا یہ سماج نے حقیقی معنوں میں الگ تھلگ چھوڑ رکھی ہے؟ مجھے سب سوالوں کا تفصیلی جواب چاہیے ۔
مکھیا جناب آپ نے جتنے بھی سوال مجھ سے کیے ہیں ان سب کا جواب میں تفصیل سے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ جناب یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص اس مہنگائی والے دور میں اخروٹ کےایک درخت پر گزارہ کرسکے یہ عورت جھوٹ بول رہی ہے۔اسکو اپنے گاؤں اور آس پڑوس کے گائوں والے ضرور امدادی مدر کرتے ہونگے تب جاکے اسکا زندہ رہنا ممکن ہے۔ تحصیلدار صاحب مکھیا کی بات کاٹتے ہوئے اس سے کہنے لگے ارے مکھیا گاؤں کے لوگ امداد کرتے ہونگے یا واقعی امداد کر رہے ہیں۔ بات کو گھما پھرا کر پیش نہ کرو بلکہ صاف صاف میرے سوالوں کا جواب دو میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔ جناب والا ایسی بات نہیں میں آپ سے صاف صاف ہی اس عورت کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔ جہاں تک میں جانتا ہوں یہ عورت مجھے ناٹک کی اداکارہ لگ رہی ہے۔ ڈرامے باز ہے۔ جو جھوٹ بول کر اور منت سماجت کرکے سرکاری کام میں رخنہ ڈال رہی ہے۔مگر تحصیلدار صاحب کسی طرح سے بھی مکھیا کی باتوں سے مطمئننہ ہوئے ۔مگر ظاہری طور پرمکھیا کو کہنے لگا چلو ٹھیک ہے جو جانکاری تم نے عورت کے بارے میں دی اس پر سوچا سمجھا جائے گا۔ تحصیلدار صاحب بیوہ حاجرہ کو بلا کر کہنے لگے۔ دیکھیں یہ آپ کا اخروٹ کا درخت بے شک بڑا ہے اور آپ کے آمدن کا ذریعہ بھی ہے مگر آپ اس طرف سے دیکھو تو اب یہ سوکھنے جارہا ہے اور اسکا جلد بھی اتر رہا ہے ایک دو سال میں یہ خود ہی گر جائے گا ۔سوکھنے کو نہ آتا تو شاید میں اسکے کاٹنے کے احکام واپس بھی لیتا اور آپ کی امید بھی قائم رکھتا مگر اب میں کچھ بھی نہیں کر سکتا میں بھی مجبور ہوں مجھے بھی اپنے کام میں کوتاہی نہیں برتنی ہے۔
تحصیلدار صاحب! تحصیلدار صاحب! ایسا ظلم نہ کریں مجھ غریب پر ،میں کہاں جاؤں ،کس سے مدد کی گوار لگاؤں ۔مجھ غریب کی کسی سے جان پہچان بھی نہیں ،ہاں مگر امید ہے کہ میرا رب مجھ سے یہ ذریعہ نہیں چھین سکتا۔وہ جانتا ہے کہ میرا یہی ایک ذریعہ ہے وہ جانتا ہے کہ میں بے بس اور مجبور ہوں ۔صاحب جی میں نے آپ سے اتنی منت اور سماجت کی ہے برائے کرم آپ اس درخت کو نہ کاٹئے واللہ میرا یہی ذریعہ ہے ۔ حاجرہ بیگم جذباتی ہوئی اور زار و قطارپھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تحصیلدار صاحب کے دل میں حاجرہ بیگم کی باتیں تیز دھار نوکیلے تیر کی طرح اتر رہی تھیں اور آنکھوں سے موتی جیسے آنسوں گر کر دیکھنے سے مانو تحصیل در صاحب کا دل موم کی طرح پگھل گیا اور اسی اثناء میں تحصیلدار صاحب کے فون کی گھنٹی بجنے لگ جاتی ہے اور تحصیلدار صاحب جیب سے فون نکال کر ایک طرف چل کر فون پہ بات کرنے لگتے ہیں کچھ دیر بات کرنے کے بعد وہ اپنے ماتحتوں کی طرف بڑھ کر ڈرائیور کو اشارہ کرتا ہے کہ گاڑی نکالیے دفتر میں کچھ اہم کام نپٹانا باقی رہ گیا۔اور جاتے جاتے حاجرہ بیگم سے کہنے لگا کہ آپ فکر نہ کریں میں کچھ کرتا ہوں۔اتنے میں ڈرائیور تحصیلدار صاحب کے قریب گاڑی لا کر کھڑا کرتا ہے تحصیلدار صاحب اپنے کچھ ماتحتوں کے ساتھ گاڑی میں سوار ہو کر نکل جاتے ہیں۔
یہاں حاجرہ بیگم کے ذہن میں بس یہی سوال ہے کہ اس کا درخت نہ کاٹا جائے۔ یہی بوجھ دل میں لیے وہ گھر کی طرف ہمت جٹا کر روانہ ہو رہی ہے اور اپنے آپ سے کہنے لگتی ہے کہ امید پہ ہی دنیا قائم ہے اس لیے میں بھی اپنی امید کو مرنے نہیں دوں گی کیونکہ نا امیدی کفر ہے۔
حاجرہ بیگم کے اخروٹ کے درخت کے قریب میں ہی ایک چنار کا پرانا درخت موجود تھا جہاں جنات کا ایک بہت پرانا اور بڑا کنبہ صدیوں سے رہائش پذیر تھا۔ اس بڑے جنات کے کنبے کا سربراہ حارث نامی جن نے خود بیوہ حاجرہ بیگم کے مرحوم خاوند کے تابع کئیسال گزارے۔ اسلئے اس جنات کے کنبے کی ہمدردی بھی حاجرہ بیگم کے ساتھ ہی منسلک تھی۔وہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ حاجرہ بیگم کے اس اخروٹ کے درخت کو کاٹ کرحاجرہ بیگم سےیہ جینے کا سبب بھی چھینا جائے۔وہاں حاجرہ بیگم اپنی آس اللہ سے لگائی بیٹھی اور اپنی امید زندہ رکھی ہوئی تھی کہ میرا رب کوئی اچھا فیصلہ مرے حق میں ضرور دیر سویر کردے گا۔
یہاں جنات کے سربراہ ‘حارث نے تمام کنبے والوں کو اکھٹا کرکے تلقین کی کہ حاجرہ بیگم کے درخت کو کس بھی طرح کسی قسم کی آنچ نہیں آنی چاہئے۔کچھ بھی ہو ہمیں مرحوم کی زوجہ کا یہ ذریعہ آمدن، انکی آس اور امید، اور ضروری طور پر انکے زندہ رہنے کے حوصلے اور جذبے کو پست نہیں ہونے دینا ہے۔مانا کہ انسان ہمیں اپنے سے کم تر سمجھ رہے ہیں۔ دکھاوے کی دنیا اور آرایش و آسائش کے سامان کو اپنی ترقی سمجھ رہا ہے ۔مگر حقیقتاً انسان احساس، انسانیت، سچ اور امداد و خیرات کی پٹری سے پوری طرح اتر چکا ہے۔ تم سب نے نہیں دیکھا گائوں کے مکھیہ نے کیسے جھوٹ کا بیانیہ دے کر اپنے دنیاوی آقاء کو خوش کرنے کے لئے پیش کیا۔ایک ہی جگہ رہ کر بھی بیوہ کے حالات زندگی کے بارے میں کچھ نہ جاننا اس بات کی پختہ دلیل ہے کہ اب وہ ہمدردی، ایثار، اخوت اور بھائی چارے کا جذبہ انسانوں میں مکمل طور پر فوت ہو چکا ہے۔
مگر میں تم سب کو سربراہ کی حیثیت سے ایک بار پھر اس بات کی تلقین کرتا ہوں کہ ہمیں انسانون کے اس معیار اور مکاری سے اوپر اٹھ کر حاجرہ بیگم کے اخروٹ کے درخت کو بچانا ہو گا۔اب میں اس نیک کام کے لئے آج سے ہی بلکہ ابھی سے ہی اپنے کنبے کا ایک دستہ اس درخت کی رکھوالی کے لئے متعین کرتا ہوں جو دن رات اس درخت کی رکھوالی کرے گا۔
اگلے روز تحصیلدار صاحب اپنے سرکاری ٹولے کے ساتھ پھر اس اخروٹ کے درخت کو کاٹنے کے لئے آئے تاکہ ہاتھ میں لیا گیا کام وقت رہتے مکمل کیا جائے۔ اسلئے آتے ہی لکڑ ہارے کو حکم کیا کہ وقت ضائع کئے بغیر ہی اس اخروٹ کے درخت کی شاخ تراشی کی جائے ۔لکڑہارے نے حکم کی اطاعت میں اپنی تیز دھار والی کلہاڑی اپنی پھٹی میلی قمیض کے گلے کے پچھلی طرف رکھ کر اخروٹ کے درخت پرچڑھنے کی تیاری کی۔ ایک دو قدم چڑھ کر پھسلنے لگے دراصل جو جناتوں کا دستہ درخت کی پہرےداری میں لگائے گئے تھے حرکت میں آگئے تھے وہی دراصل لکڑ ہارے کو پیر پکڑ کر واپس نیچے کھینچ رہے تھے۔ لکڑ ہارا یکے بعد دیگرے کوششیں کرتا رہا مگر ہر بار وہ نیچے پھسلتا جارہا تھا۔۔وہ بے چارہ چلاتا رہا کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی مخلوق میرے دونوں پیروں کو پکڑ کر نیچے کھینچ رہی ہے۔۔مگر اس بے چارے کی بات کا کوئی بھروسہ نہ کیا اور الٹا اسکو آلسی، نااہل اور ناتجربہ کار کے کڑوے تانے سننے پڑے۔ لکڑ ہارا بیچارہ دنگ رہ گیا کہ یہ آج میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔وہ بے چارہ شرمندہ ہوکر سرخم ہوا کہ مجھ سے نہ ہونے والا ہے۔ اب سارے محکمے کے لوگ یہی سمجھ بیٹھے کہ لکڑ ہارا سچ مچ میں ہی اس کام کے لئے نااہل ہے۔
اسلئے اب محکمے کے ملازموں نے مشورہ یہ لیا کہ شاخ تراشی درخت کو مشین سے جڑوں سے اکھاڑنے کے بعد ہی کی جائے ۔جونہی مشین منگوائی گئی اور ڈرائیور کو کام بتایا گیا اور دکھایا گیا تو ڈرائیور وقت ضائع کئے بغیر ہی مشین کو درخت کے کچھ قریب لے آیا۔وہاں بیٹھے جنات کے پہرے دار پھر حرکت میں آگئے اور محکمے کے ملازم بھی کچھ قریب آکر نظارہ دیکھنے کے لئے کھڑے ہوئے۔ مشین نے جونہی کھدائی شروع کی اور پہلی اٹھائی ہوئی مٹی کو ایک طرف ڈالنا چاہا تو جنات نے اسکا رخ بدلکر اوپر اٹھاکر پاس میں کھڑے محکمے کے لوگوں کے سروں پر پھیر دیا۔ سب لوگ چلاتے رہے ارے! ارے! یہ مشین کا ڈرائیور کہیں پاگل تو نہیں۔ یہ مت نشہ کرکے مشین چلانے بیٹھا۔ کوئی بولا شاید شراب پی کر آیا ہوگا۔ اسی بیچ ہر ماتحت ملازم اپنے سے بڑے ملازم کی دھول صاف کر رہا تھا۔ اپنے چہرے پر لگی دھول کو بھول کر دوسروں کے چہرے پر لگی دھول مٹی اور گندگی کو دیکھ کر ہنس بھی رہا تھا اور جتا بھی رہا تھا کہ میں دوسروں کے مدد میں ہمیشہ پیش پیش رہتا ہوں۔ وہاں ڈرائیور مشین کی سیٹ پر دھنگ رہ کر لوگوں کے کسے گئے تانے سن کر اور زیادہ پریشان ہوا اور من ہی من میں سوچتا رہا کہ اخر یہ کیسے ہوا۔ آج تک تو مجھ سے کبھی ایسی بھول نہ ہوئی۔
مشین کے ارد گرد جمع جنات خوشیاں منا رہے تھے اور ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ دیکھو یہ ہے آج کل کے انسانوں کا حال۔جیسے ان کو ابھی ایک دوسرے کی چہرے پہ لگی گند اور دھول نظر آرہی ہے ویسے ہی یہ دوسرے کے غلطیوں ، گناہوں اور عیبوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں جیسے ان کو ابھی اپنے چہرے پر لگی دھول اور گند نظر نہیں آرہی ہے ویسے ہی ان کو اپنی ساری عمر یہی وہم اور گماں رہتا ہے کہ صرف ہم ہی نیکوکار ہیں باقی سارے بدکار۔ اتنے میں ایک آدمی ڈرائیور کے قریب آکر غصے سے چلاتا ہوا کہتا ہے کہ تم کیا منہوس کی طرح مشین میں بیٹھے ہوئے ہو۔ ارے! تم نے تو ہم سب کو مار ہی ڈالا تھا چلو اب کیا دیکھ رہے ہو سارا دن یہی تماشہ کرنا ہے ہمیں اور بھی کام نپٹانے ہیں چلیے جلدی جلدی کرئے ۔اس درخت کو جڑ سے اکھاڑ دو ۔ڈرائیور کچھ ہوش میں آیا اور پھر سے کھدائی شروع کرنے لگا ۔ اب کی بار جنات نے ڈرائیور کو سبق سکھانے کا مشورہ کیا۔ ان میں سے ایک جن نے سانپ کی شکل اختیار کی اور ڈرائیور کے ٹانگوں کے قریب نمودار ہوا ۔مشین کا ڈرائیور سانپ کو دیکھ کر مشین چالو چھوڑے کھڑکی سے کود پڑا۔ وہاں کھڑے سارے لوگ ڈرائیور کی حرکت دیکھ کر ہنس پڑے۔ڈرائیور بیچارہ نیچے چلاتا رہا ہے کہ مشین میں سانپ ہے! مشین میں سانپ ہے! تو کچھ لوگ یقین کر کے مشین کی طرف بڑھنے لگے۔ ہمت کر کے ایک دو آدمی مشین میں چڑھے تو دیکھا وہاں کچھ بھی ان کو نظر نہ آیا۔وہ نیچے آ کر سب لوگوں کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ ڈرائیور بالکل یا تو نشہ کر کے آیا یا تو سراسر ذہنی مریض ہے۔
اتنے میں تحصیلدار صاحب کسی دوسرے کام کو نپٹا کر وہاں پر پہنچ گئے۔پہنچنے کے بعد سارا کچھ واقعہ دریافت ہوا تو من ہی من میں سونچا کہ یہ ہاجرہ بیگم کی امید کا سارا کارنامہ ہے ورنہ کیسے یہ ممکن ہے کہ ایک لکڑہارا بھی درخت پر چڑھنے سے ناکام ہوتا اور اب حد یہ ہے کہ مشین بھی ناکام ہوئی اس درخت کو اکھاڑنے میں یہ ضرور ہاجرہ بیگم کی دعاؤں نے رنگ لایا ہے اور اللہ نے حاجرہ بیگم کے بدلے کسی مخلوق کو یہ کام سونپ دیا ہے کہ وہ ہاجرہ بیگم کے اس درخت کی رکھوالی کرے۔ اور اب تحصیلدار صاحب کو یہ یقین ہوا ہے کہ بے شک جو دنیا ہے وہ امید پے ہی قائم ہے اور اگر انسان اپنی امید حقیقی معنوں میں زندہ رکھے تو کیا کچھ نہیں ہو سکتا۔
اس لیے آخر پر تحصیلدار صاحب نے اس درخت کو کاٹنے سے منع کیا اور اس درخت پر ایک موٹے حروف سے لکھی گئی” امید” نام کی تختی لگانے کے احکامات صادر کئے۔
����