شبیر احمد بٹ ۔۔۔رحمت کالونی شوپیان
بقول غالب جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
اس بات میں کوئی بھی شک نہیں کہ توّکل کرنا ہو یا توقع جوڑنی ہو ، بندے کو اپنے معبود کے ساتھ ہی جوڑنی چاہیے ۔جو مخلوق نہیں بلکہ خالق ہے ۔جو ضرورت مند نہیں بلکہ بے نیاز ہے ۔نیت ضرور اچھی رکھیں ۔کوشش پوری کریں لیکن توقع اپنی جیسی مخلوق کے بجائے اس خالق سے رکھیں جو سب کا دینے والا اور سب سے لینے والا ہے ۔ جب مخلوق سے یہ توقع جڑ جاتی ہے اور پھر یہ ٹوٹتی ہے تو دنیا تہہ و بالا ہوتی نظر آتی ہے ۔ شدید درد کا احساس ہوتا ہے ۔انسان کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے ۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ زندگی میں سکون چاہتے ہو تو کبھی کسی سے توقع نہ رکھو ۔توقع کا پیالہ ہمیشہ ٹھوکروں کی زد میں رہتا ہے ۔ہر قدم پر توقع ، ہر معاملے میں توقع ،چاہیے وہ انفرادی ہو یا اجتماعی ۔خانگی ہو یا خاندانی ۔اس کے سبب معاملات خراب ہوتے ہیں ۔تعلقات میں دراڈیں پڑتی ہیں ۔رشتوں میں دوریاں بڑھتی ہیں اور انسان خود کو زہنی ازیت میں مبتلا کرتا ہے ۔دوسروں سے اپنی توقعات وابستہ کر لینے کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے جذبات کا ریموٹ کنٹرول دوسروں کے ہاتھ میں دے رہے ہیں ۔
زندگی ایک سفر ہے اور توقعات اس سفر کا سامان ہوتی ہیں ۔سفر میں سامان جتنا زیادہ ہوگا ،ٹینشن اتنی ہی زیادہ بڑھتی ہے اور یہ سفر بوجھ کی وجہ سے اتنا ہی بوجھل ہوتا جائے گا ۔ہر توقع ایک بےچینی پیدا کر دیتی ہے اور اکثر مایوسی ۔نفرت ۔دوری اور انتقام میں بدل جاتی ہے ۔آدمی منفی ذہنیت اور زہریلی سوچوں کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے ۔
مثبت سوچ و مضبوط کردار کا مالک لوگوں سے توقعات بھی بہت کم رکھتا ہے مگر کوئی نہ کوئی ضرور ہوتا ہے جس سے ہم توقع رکھتے ہیں کہ یہ میرے ساتھ ایسا کر ہی نہیں سکتا ۔ مگر جب اس کے الٹ ہوتا ہے تو تکلیف ناقانل برداشت ہوتی ہے ۔
جب ہم کسی دفتر میں اپنا کوئی جائز کام کرنے جاتے ہیں اور وہاں آپ کا کوئی جان پہچان والا ۔کوئی رشتہ دار بے رخی اور سرد مہری دکھاتا ہے۔۔۔۔۔ جب آپ کسی ہمسایہ ڈاکٹر کا دروازہ اندھیرے اور مجبوری میں کھٹکھٹاتے ہیں اور ڈاکٹر صاحب کے گھر میں ہونے کے باوجود جب وہاں سے کوئی نکل کر آپ سے یہ کہہ دیتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب گھر پر نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ جب آپ کسی استاد کے پاس یہ امید لے کر جاتے ہیں کہ وہ آپ کی جائز معا ملے میں مدد کرے گا لیکن وہ آپ کو مایوس لوٹا دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جب کبھی کوئی شاگرد آپ سے منہ موڈ کر خاطر میں نہیں لاتا ہے ۔۔۔۔۔ ۔جب کوئی اپنا جس سے آپ کو توقع ہے آپ کو بے عزت کرکے دشمنوں جیسا سلوک برتے گا تو درد ہوتا ہے ۔دل ٹوٹتا ہے ۔کاری ضرب لگتی ہے ۔ کرچیاں کرچیاں بکھرتی ہے اور آدمی کے مزاج میں سختی و درشتی آ جاتی ہے اور اس کے بعد اسے معلوم نہیں پڑتا کہ وہ کب اور کیسے خود بھی دوسرے کی توقع کے ٹوٹنے کا سبب بن جاتا ہے !
یہ دنیا کبھی کسی کی توقع پر پورا اتری ہے اور نہ آدمی ۔ کسی کے ہاتھ پر کچھ رکھ کر اس کی آنکھوں میں شکریہ تلاش کرنے والا تو خود بھکاری ہوتا ہے ۔ جس سے جتنا تعلق ہو اس سے اتنی توقع نہ رکھنے میں حکمت ہے سوائے اس ذات کے جو غفور رحیم ہے ۔ علیم بزات الصدور ہے ۔
ہم کمزور اور ناتواں ہے ۔ہر کام کا معاوضہ چاہتے ہیں ۔احسان کرنے والے کے ساتھ ہم یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ ساری زندگی ہمارا احسان مند رہے ۔جس کو ہم چائے پلاتے ہیں اس سے بریانی کھلانے کی توقع ۔ توقعات حرکتوں سے ہی نہیں بلکہ رویوں سے بھی وابستہ ہوتی ہیں ۔روّیے تکلیف بھی دیتے ہیں یہ رلاتے بھی ہیں اس لئے روّیوں کو بھی دوسروں کی خوشی اور سکون کا زریعہ بنانے کی سعی ہونی چاہیے ۔دوسروں کو برداشت کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے کیونکہ نہ جانے کتنے لوگ ہیں جو ہم کو برداشت کرتے ہیں ۔اگر انسان اس بات پر دھیان دیں کہ جو توقعات ۔جیسی توقعات میں دوسروں سے جوڑے ہوئے ہوں ویسے ہی دوسروں کو بھی مجھ سے توقعات ہوگی ۔اگر ان توقعات کو بھول جائیں جو ہماری دوسروں سے جڑی ہوئی ہوں اور صرف اپنے سے جڑی توقعات پر نظر رکھیں تو زندگی بہت آسان ہو جائے گی ۔بقول شاعر
میں خود کو سلگا رہا ہوں اس توقع پر
کبھی تو آگ بھڑکے گی کبھی تو روشنی ہوگی۔
���
�����
شبیر احمد بٹ
رحمت کالونی شوپیان
موبائل 7889894120