گلشن انصاری
“دیکھو نشاء یہ تمہارے جسم پر جو نشانات اور دانے ہیں۔یہ ایک قسم کے وائرس ہے۔دوا سے یہ کم ضرور ہو جاتا ہے لیکن اس کا اثر جسم میں موجود رہتا ہے۔اس کے علاوہ ایک اور بات مجھے ایچ آئی وی کا بھی شبہ ہے۔”
ڈاکٹر فائزہ عثمانی نے تشویشناک لہجے میں نشاء سے کہا۔
“یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ ڈاکٹر۔مجھے یہ بیماری کیسے ہو سکتی ہے۔ آپ تو سب جانتی ہیں۔”ڈاکٹر کی بات سن کر نشاء تڑپ گئی۔
“ہاں میں سب جانتی ہوں اسلئے بول رہی ہوں کہ ایک بار ٹیسٹ کرا لو۔اللّه کرے میرا شک غلط ہو ۔لیکن رپورٹس کے آنے کے بعد میں سہی طریقے سے تمہارا علاج کر پاؤں گی۔ اور نشاء یہ ٹیسٹ اس لئے بھی ضروری ہے کیوں کہ میں تمہارے شوہر کی عادت کے بارے میں بھی جانتی ہوں۔بے شک آپ تم علیحدہ ہو لیکن پچھلے سال تک ساتھ تھے اور اس بیماری کے سیمپٹمس دھیرے دھیرے ظاہر ہوتے ہیں۔”
ڈاکٹر عثمانی نے نشاء کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
نشاء کو نہیں پتہ کہ وہ گھر کیسے پہنچی۔بس اسے تو زندگی میں پہلی بار لمحہ لمحہ بھاری محسوس ہو رہا تھا۔اس نے کچھ کھایا بھی نہیں اور سونے کے لئے لیٹی تو نیند بھی آنکھ سے کوسوں دور تھی۔بس مصلے پر بیٹھی وہ رب سے ایک ہی دعا مانگ رہی تھی۔”میرے رب میں نے کبھی ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے تو خفا ہو یا تیری حکم عدولی ہو۔میں نے خود کو صرف تیری ناراضگی کے ڈر سے غیر محرموں سے بچا کر رکھا۔جب کہ تو واقف ہے میری تنہائی سے میرے حالات سے بھی۔لیکن یہ شکوہ بالکل بھی نہیں ہے تو جس حال میں بھی رکھے بس میرے رب مجھے اس گندی بیماری سے بچا کیوں کہ اس کا تذکرہ بھی اگر ہوگا تو لوگ میرے کردار پر انگلی اٹھائینگے۔میرے رب مجھ پر رحم فرما۔ “نشاء پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
اگلی دن نشاء نے اسکول کا کام جلدی جلدی ختم کیا اور سٹیشن پر آیی۔انڈیکیٹر پر 1:28 کی ویرار لوکل لگی ہوئی تھی۔ابھی چار منٹ باقی تھے۔لیکن نشاء کو یہ چار منٹ چار برس محسوس ہوئے۔ وہ جلد سے جلد اپنی رپورست دیکھنا چاہتی تھی۔اس کے دل ماضی کی تلخ یادوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔”تو پھر دیکھنا یہ ہے کہ تم سے ملا یہ آخری بدصورت تحفہ میری جان لے کر جائے گا۔اور تمہارا مجھے برباد کرنے کا خواب بھی مکمل ہو جائے گا۔سوچتے سوچتے درد کی ایک ٹیس نشا کے دل میں اٹھی۔اور آنسوں اس کے گالوں پر بہنے لگے۔
2:4 بجے وہ ویرار سٹیشن پر اتری اور تیزی سے ڈاکٹر عثمانی کے ہسپتال کی جانب بڑھنے لگی۔ذہن میں ماضی کی خوفناک یادیں تھیں اور دوسری طرف مستقبل کا خدشہ تھا۔ذہن پوری طرف ماؤف تھا۔اور پھر کیا تھا زندگی کی سوئی ایک جگہ آ کر روک گئی۔ذہن کو ساری سوچوں سے آزادی پا لی۔اب نہ ماضی کی الجھنیں اور نہ ہی مستقبل کا خوف۔کل سے اب تک کے 21 گھنٹے لمحہ لمحہ تڑپنے کے بعد ایک ہی لمحے میں زندگی ہاتھ چھڑا کر موت کو گلے لگا چکی تھی۔بس اب ذہن خالی تھا صرف جسم میں کچھ ٹیسیں باقی تھی اور کانوں میں سماعت۔کچھ لوگ نشاء کے خون میں لت پت جسم کی طرف دوڑے۔نشاء کے لبوں پر کلمے کا ورد اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی کہ آخر کار اس درد بھری زندگی سے آزادی پا ہی لی۔اور سب سے بڑی بات اب رپورٹ مثبت بھی ہوئی تو کوئی اس کے کردار کی دھجیاں نہیں اڑائے گا اور نہ ہی اسے مر مر کر جینا پڑے گا۔
�����
ختم شد